کئی موسم ایک ساتھ وارد ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ بہار کا موسم تو خیر، ہمارے نصیب میں ہے ہی نہیں۔ ہاں، گرمی البتہ بہار دکھانے پر کمر بستہ ہے۔ اور دوسری طرف سیاست میں گرما گرمی کا موسم چل رہا ہے۔ عمران خان اور اُن کے ہم خیال لوگوں کی خیر ہو جن کے دم سے احتجاج کی دکان خوب چل رہی ہے، مظاہروں اور جلسوں کے چلن کو فروغ مل رہا ہے۔
مصطفی کمال اور ان کے ساتھی میدان میں اترے ہیں تو جمود ٹوٹنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ عمران خان کی سیاست کے مُردے میں بھی کچھ جان پڑی ہے۔ انہیں اچانک یاد آگیا ہے کہ ہر سیاسی میچ میں مینڈیٹری اوورز انہی کو کرانے ہوتے ہیں یعنی احتجاج ان کا خاصہ ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی اور اِسے اپنا ''کپ آف ٹی‘‘ بنائے۔ مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں کو میدان میں دیکھ کر عمران بھی ایک بار پھر لنگوٹ کَس کر میدان میں آگئے ہیں۔ لنگوٹ کا لفظ ہم نے بالکل درست استعمال کیا ہے کیونکہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ عمران خان انکوائری کمیشن کو مانتے ہیں نہ پارلیمنٹ کو بالا دست تسلیم کرتے ہیں۔ اب کیا ان کی تشفّی کے لیے ''ملاکھڑا‘‘ (سندھ کی روایتی کشتی) کرائیں!
جلسوں کا دھندا خاصا مندا چل رہا تھا۔ پاک سرزمین پارٹی کے مرکزی رہنما مصطفی کمال نے کمال کر دکھایا کہ پارٹی کے قیام کے 21 دن بعد ہی شاندار جلسہ منعقد کر ڈالا۔ ابھی تو پارٹی کا منشور بھی نہیں آیا اور جلسہ ہوگیا۔ ہماری سیاست کا بھی یہی حال ہے۔ کچھ لوگ منشور کے جھنجھٹ میں پڑے بغیر آگے بڑھ رہے ہیں اور جن کے پاس منشور ہے وہ بھی اُسے ''بالائے طاق کے اوپر‘‘ رکھ ایسی سیاست گری فرما رہے ہیں کہ دیکھنے والے ''زیر لب کے نیچے‘‘ مسکرائے بغیر نہیں رہ پاتے!
24 اپریل کو جلسوں کی باڑھ سی آئی ہوئی تھی۔ کراچی میں پاک سرزمین پارٹی کا جلسہ ہوا۔ ساتھ ہی ساتھ ایم کیو ایم نے بھی انگڑائی لی اور کراچی پریس کلب پر دھرنا دینے کے بعد (تشفّی نہ ہونے پر) وزیر اعلیٰ ہاؤس کا رخ کیا۔ اسلام آباد میں عمران خان نے احتجاج اور جلسے کی دکان کھولی۔ لاہور میں جماعت اسلامی نے احتجاجی ڈیوٹی دی۔ ایسا لگتا ہے کہ شدید گرمی کی لہر نے یارانِ سیاست کے دلوں کو پگھلاکر ''خدمتِ قوم‘‘ کا پختہ ارادے کے ساتھ میدان میں آنے پر مجبور کردیا ہے! کیا ایسا ممکن ہے کہ خربوزے، بلکہ خربوزوں کو دیکھ کر خربوزہ رنگ نہ پکڑے؟ اگر ایسا ہو تو قیامت ہی آجائے۔
کہتے ہیں جب آنکھ کھلے تب ہی سویرا ہوتا ہے۔ اگر اس اصول کی بنیاد پر بات کی جائے تو ماننا پڑے گا کہ عمران خان کی سیاسی صبح کا دورانیہ ختم ہی نہیں ہو رہا۔ بات یہ ہے کہ وہ بات بات پر جاگ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ ان کی صبح اب ہوئی ہے!
بات احتجاج، دھرنے اور جلسے کی ہو تو محض عمران خان کا ذکر کرلینے سے کہانی مکمل نہیں ہوتی۔ اس کہانی میں دو ہیرو ہیں۔ جب تک ہیرو نمبر ٹو کینیڈا سے نہ پلٹ آئے، ہیرو نمبر ون عمران خان کو مزا نہیں آتا۔ کہاوت آپ نے سنی ہوگی کہ مایا کو ملے مایا کرکے لمبے ہاتھ۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا بھی ایسا ہی تو معاملہ ہے۔ جب تک ڈاکٹر طاہرالقادری کینیڈا میں رہتے ہیں، عمران خان بے چین سے رہتے ہیں ؎
تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سَحر، بار بار گزری ہے!
موقع پرستی کے حوالے سے تو ہم اپنی رائے محفوظ رکھتے ہیں، مگر ہاں موقع شناسی کے معاملے میں ڈاکٹر طاہرالقادری یقیناً خاصے بلند درجے پر فائز ہیں۔ جب بھی انہیں محسوس ہوتا ہے کہ محفل میں اُن کی ضرورت ہے، وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر پاکستان تشریف لے آتے ہیں۔ اور ہمارے سادہ لوح خان صاحب یہ سمجھ کر خوش لیتے ہیں کہ ع
پکارا جب چلے آئے، محبت ہو تو ایسی ہو!
سچ تو یہ ہے کہ عمران خان احتجاج کا جو رونق میلہ سجاتے ہیں اُس کا رنگ ڈاکٹر طاہرالقادری کے بغیر پھیکا پھیکا سا رہتا ہے۔ قوم کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ اس کے منہ کو احتجاجی سیاست کا خون لگ گیا ہے۔ کسی سیاسی گوشے میں ہلچل نہ ہو رہی ہو تو لوگ تشویش میں مبتلا رہتے ہیں! بہت دنوں سے ہم بھی ڈاکٹر طاہرالقادری کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔ کچھ کچھ ذاتی مفاد کا معاملہ بھی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری ملک میں ہوتے ہیں تو باقاعدگی سے کچھ نہ کچھ ایسا کہا جارہا ہوتا ہے جس کی کوکھ سے کالم ہویدا ہوتے رہتے ہیں۔ احتجاجی سیاست کے خُمار میں ڈوبے ہوئے بہت سے ہم وطنوں کی طرح ہمارا دل بھی ڈاکٹر طاہرالقادری کو یاد کرکے دھڑکن دھڑکن پکار رہا ہے ع
چلے بھی آؤ کہ ''جلسوں‘‘ کا کاروبار چلے!
جب تک ڈاکٹر طاہرالقادری اصل وطن (شہریت مل جانے کے بعد کینیڈا بھی اب ان کے لیے وطن ہی تو ہے) کی طرف متوجہ نہیں ہوتے، تب تک کے لیے وزیر اعظم نے سوچا ہے کہ (''فِل اِن دی گیپ‘‘ کی مد میں) شجر کاری کی طرز پر ''جلسہ کاری‘‘ کی مہم چلائی جائے۔ پاناما لیکس کی ''برکت‘‘ سے قوم کو میاں صاحب کے درشن تو نصیب ہوں گے۔ ان کے ووٹرز ع
جیا را ترسے دیکھن کو
کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ میاں صاحب نے شاید یہ سوچا ہوگا کہ بہت دن ہوگئے، اب چہرہ کرا ہی دیا جائے۔ ویسے بھی یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ دوسرے تو جلسے کرتے پھریں اور وزیر اعظم پیچھے رہ جائے! جلسوں کی محفل ویران سی تھی۔ ایسے میں میاں صاحب کی عوامی رابطہ مہم رہی سہی کسر پوری کرے گی۔ ؎
''شاید مِرے بغیر کمی رہ گئی ہے کچھ‘‘
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں!
اِدھر گرمی بڑھ رہی ہے اور اُدھر سیاست کی گرما گرمی کا گراف بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ قوم بیچ میں پھنس گئی ہے ع
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک!
وزیر اعظم نے فیصلہ کیا ہے کہ عوامی رابطہ مہم رمضان المبارک کی آمد سے قبل مکمل کرلی جائے گی۔ یعنی مئی کے دوران قوم کو جلسوں کے محاذ پر چومکھی جنگ لڑنا پڑے گی۔ شدید گرمی میں اللہ تعالٰی اپنے بندوں کو اِسی طرح بھی آزماتے ہیں! عمران خان نے یکم مئی کے جلسے کا اعلان کردیا ہے۔ گویا مئی کا آغاز بھرپور جلسے سے ہوگا۔ یہ بھی اچھا ہے۔ یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن ہے۔ سیاسی جلسے بھی اب ''محنت کشوں‘‘ کے بغیر نہیں ہو پاتے۔ اور ان محنت کشوں کو ان کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے دی جاتی ہے! گویا جلسوں کا کاروبار چلنے سے بہت سے غریب بھی ''موسمی‘‘ رزق پاتے ہیں! ہمارے ہاں معاشی امور کے سرکاری و غیر سرکاری ماہرین بے روزگاری کا گراف نیچے لانے اور معیشت کا پہیہ ذرا زور سے گھمانے کے فراق میں رہتے ہیں۔ جلسوں کے انعقاد سے بے روزگاری ختم کرنے کی تکنیک پر بھی اُنہیں ضرور غور کرنا چاہیے! سیاست دانوں سے مل کر سال میں کم از کم دو مرتبہ جلسوں کا سیزن منعقد کرکے لاکھوں افراد کو یومیہ اجرت کی بنیاد پر روزگار کے مواقع فراہم کیے جاسکتے ہیں!