"MIK" (space) message & send to 7575

’’پھسڈّی‘‘

بہت کچھ ایسا ہے جس پر ہمیں شرم محسوس ہونی چاہیے مگر ساتھ ہی ساتھ دوسرا بہت کچھ ایسا بھی ہے جس پر ہمارے سَر فخر سے بلند ہونے اور بلند ہی رہنے چاہئیں۔ بیشتر معاملات میں شرم محسوس کرتے کرتے ہم سَر جھکائے رکھنے کے ایسے عادی ہوچکے ہیں کہ اگر کسی معاملے میں سَر اٹھانے کی گنجائش پیدا ہو رہی ہو تو سمجھ میں نہیں آتا کیا کریں! 
بیشتر پاکستانی اُتنے بھرپور انداز سے زندگی نہیں گزارتے جتنے بھرپور انداز سے گزاری جانی چاہیے۔ ڈیوٹی کے اوقات میں وقت، محنت اور ایمان داری تینوں معاملات میں ڈنڈی مارنے کے عادی ہیں۔ ہر معاملے میں تفریح کا عنصر تلاش کرنے کا عمل اب بیشتر پاکستانیوں کی فطرتِ ثانیہ میں تبدیل ہوچکا ہے۔ علم کا حصول بھی واضح طور پر 90 فیصد پاکستانیوں کی ترجیحات کی فہرست میں بہت نیچے ہے۔ بہت سے ایسے معاملات پر جی بھر کے پیسہ لٹایا جاتا ہے جن پر پیسہ لٹانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہنر مند ہوکر زندگی بسر کرنا انتہائی مفید رہتا ہے مگر ہم اب تک ہنر مند ہونے کو نمایاں ترین ترجیحات میں شامل نہیں کرسکے۔ سبب ایسا نہیں کہ ڈھکا چھپا ہو یا کوئی اندازہ نہ لگاسکے۔ سیدھی سی بات ہے، ہنر مند ہونے میں بہت محنت لگتی ہے اور بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔ اور ہم یہ سب کرنا نہیں چاہتے۔ 
آج کی دنیا ہم سے بہت کچھ چاہتی ہے مگر وہ سب کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ ہم ایک ایسے عہد میں زندہ ہیں جس میں ہر طرف، ہر شعبے میں ایک دوڑ سی لگی ہے، ہر معاملہ مقابلے سے دوچار ہے۔ منزل تک پہنچنے کے لیے صرف آگے بڑھنا کافی نہیں، بہت سوں کو راہ سے ہٹانا بھی پڑتا ہے۔ مقابلہ ہر سطح پر ہے۔ اپنے قریب ترین ماحول میں بھی لڑنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد ملکی سطح پر اور پھر عالمی پیمانے کا مقابلہ ہمارا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ 
آج پاکستانی معاشرے کا حال یہ ہے کہ ہر شعبہ گلا سڑا دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے میں قنوطیت کا شکار ہو رہنا فطری امر ہے۔ نئی نسل میں وہ جذبہ دکھائی نہیں دیتا جو دکھائی دینا چاہیے۔ کھاتے پیتے گھرانوں کے بچوں میں زندگی کے لیے مثبت جذبے کا پایا جانا حیرت انگیز نہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ جن کے ہاتھ خالی ہیں اُن کے ذہن مثبت سوچ اور دل مُقوّی امید سے کس طور بھرے جائیں۔ 
کون سا معاشرہ ہے جو اخلاقی حُدود و قُیود توڑتے چلے جانے کی راہ پر گامزن نہیں؟ مغربی معاشرہ تو خیر اِس معاملے میں تمام حدیں عبور کرچکا ہے۔ ایشیائی معاشرے بھی کسی سے کم نہیں۔ جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور افریقا کے بیشتر معاشروں نے انسانیت کے درجے سے گِرتے چلے جانے کو ترجیح کا درجہ دے رکھا ہے۔ مرد و زن کے یکسر غیر قانونی اور غیر اخلاقی اختلاط نے بیشتر معاشروں کو بُری طرح جکڑ رکھا ہے مگر تان ٹوٹتی ہے تو پاکستان پر! جنسی بے راہ روی نے جنوبی ایشیا میں کئی معاشروں کو لپیٹ میں لے رکھا ہے مگر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے صرف پاکستان کو۔ اخلاق سوز فلموں کا پجاری ہر معاشرہ ہے مگر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس معاملے میں پاکستانی سب سے آگے ہیں۔ 
یہ سب کچھ اس لیے بیان کرنا پڑ رہا ہے کہ گزشتہ دنوں ایک پاکستانی لڑکی نے اپنے ناجائز تعلقات کا بھانڈا خود ہی خاصے فخر سے پھوڑا ہے اور اس حوالے سے اس کا ایک مضمون مغربی دنیا میں بہت سوں کی توجہ کا مرکز بنا ہے۔ خالص جنسی بے راہ روی پر مبنی زندگی بسر کرنے والی یہ لڑکی اب ٹورونٹو (کینیڈا) میں ہے۔ اس کے ''معرکہ آراء‘‘ مضمون کی دھوم بھارت میں بھی پہنچی۔ اور بے باک انکشافات پر مبنی مضمون کو بھارتی پریس نے بھی خوب نمک مرچ لگاکر پیش کیا۔ اس معاملے میں ہندی پریس کچھ زیادہ ہی بہت پرجوش دکھائی دیا۔ 
ہندی کے معروف روزنامے ''جاگرن‘‘ نے ایک پاکستانی لڑکی کے حیا سوز انکشافات پر مبنی مضمون کو خوب نمایان کرکے شائع کیا اور یہ طعنہ بھی دیا کہ پاکستان میں اگر کوئی لڑکی شادی سے قبل کے ناجائز تعلقات بیان کرے تو ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے، آسمان ٹوٹ پڑتا ہے! 
یہ ایک جملہ بھارتی معاشرے اور وہاں خطرناک حد تک پنپ جانے والی ذہنیت کو واضح طور پر بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت میں اب کسی لڑکی کے ناجائز تعلقات کوئی ایسی بات نہیں جس پر ہنگامہ برپا ہو اور آسمان ٹوٹ پڑے! 
بھارتی معاشرہ مجموعی اعتبار سے اب جس نہج پر ہے وہ کسی بھی اعتبار سے قابلِ فخر نہیں۔ نئی نسل اس قدر بے راہ رَو ہے کہ دیکھ کر آنکھیں بند کرنا پڑتی ہیں اور اگر سوچیے تو ذہن ماؤف ہونے لگتا ہے۔ انتہائی نازک اور مقدس رشتوں کو دھڑلّے سے پامال کیا جارہا ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو مادر پدر آزادی درکار ہے۔ یہ تصوّر بہت باریکی اور نفاست سے پروان چڑھایا گیا ہے جوانی تو ہوتی ہے اس لیے کچھ ''ہلّا گلّا‘‘ ہو اور ''موج مستی‘‘ کا راگ الاپا جائے! گویا ہم دنیا میں صرف اس لیے آئے ہیں کہ ناچیں گائیں، ہنگامہ برپا کریں اور یونہی دھومیں مچاتے اس دنیا سے رخصت ہوجائیں۔ ہر حال میں اپنی مستی میں مست رہنے اور باقی دنیا پر لعنت بھیجنے کی روش یوں پروان چڑھائی گئی ہے کہ اب زندگی اس کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتی۔ 
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ فلموں نے بھی بھارتی معاشرے کو موجودہ شکل دینے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ جس طور کسی کو سلو پوئزن دے کر مارا جاتا ہے بالکل اُسی طرح بھارتی معاشرے کو بھی میڈیا کے ذریعے سلو پوئزن دیا گیا ہے۔ منظّم طریقے سے رشتوں کا تقدس و احترام ختم کیا گیا ہے، اخلاقی اقدار کی مِٹّی پلید کی گئی ہے اور مجموعی طور پر ایک ایسا ماحول تیار کیا گیا ہے جس میں نئی نسل اپنی مرضی کی مالک ہے۔ وہ جو چاہتی ہے کر گزرتی ہے۔ ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں کچھ مدت پہلے تک ایک جملہ ضرور سنائی دیتا تھا ... ''ممی! میں ماں بننے والی ہوں!‘‘ اور سچ یہ ہے کہ بیشتر بھارتی ڈراموں میں ناجائز اولاد کا حامل ہونا زندگی کی ایک عمومی روش کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ بڑوں کا بنیادی کام اب صرف یہ رہ گیا ہے کہ تماشا دیکھتے رہیں۔ ہاں، اُن کے پاس آنکھیں بند کرلینے کا ''اختیار‘‘ بھی ہے! بڑوں کے لیے نے کچھ بولنے کی گنجائش خود ہی ختم کی ہے۔ تمام مسلّمہ اعلیٰ اقدار سے مختلف ادوار میں لوگ خود ہی لاتعلّق سے ہوتے گئے ہیں۔ اب اگر بزرگ کچھ بولیں بھی تو کیسے؟ پاکستان کی نئی نسل بھی بگڑی ہوئی ہے مگر اتنی نہیں کہ تمام ارفع مقاصد کو یکسر نظر انداز کرکے صرف موج مستی کو زندگی کا بنیاد مقصد قرار دے دے۔ پاکستانی معاشرہ بہت سی خرابیوں کی آماجگاہ ہے مگر اب ایسا بھی نہیں ہے کہ سب کچھ برباد ہوجانے کا ماتم کیا جائے۔ دنیا بھر میں اعلیٰ اقدار سے یکسر عاری ہوجانے کی دوڑ سی لگی ہے۔ ہر معاشرہ دیگر تمام معاشروں کو پیچھے چھوڑنے، پچھاڑنے پر تُلا ہوا ہے۔ ایسے میں یہ بات دل کو تھوڑی بہت طمانیت ضرور بخشتی ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے ہمارا معاشرہ اس معاملے میں خاصا ''پھسڈّی‘‘ رہ گیا ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں