کہتے ہیں اس دنیا میں ہم انسان کو کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔ کام کیے بغیر کسی کا گزارا نہیں ہوتا۔ جن کے پاس آنے والی نسلوں کی پرورش کے لیے درکار وسائل ہوں وہ بھی کوئی نہ کوئی کام ضرور کرتے ہیں تاکہ بیزاری اور یکسانیت کے ہاتھوں اپنے وجود کو مکمل تباہی کی طرف جانے سے روک سکیں۔
کیا واقعی بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے کام کرنا لازم ہے؟ دنیا بھر میں نفسی امور کے ماہرین رات دن تحقیق کے ذریعے یہ ثابت کرنے پر کمر بستہ رہتے ہیں کہ بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہونا چاہیے۔ یہاں تک تو بات درست ہے مگر اس کے بعد وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ ہم سے تو ہضم نہیں ہو پاتا۔ ان کا کہنا ہے کہ مقصد سے مراد ہے مصروفیت، کوئی نہ کوئی کام یا مہارت کا اظہار۔ آسان الفاظ میں کہیے تو یہ کہ ہر انسان اسی وقت حقیقی ذہنی سکون پاتا ہے جب وہ کسی معاشی سرگرمی میں مصروف رہتا ہے۔ اچھی خاصی پرسکون زندگی کو معاشی سرگرمیوں کی نذر کرنے کون سی راحت نصیب ہوسکتی ہے؟ یہ بات ہم اب تک سمجھ پائے ہیں نہ ہضم کر پائے ہیں۔ پتا نہیں وہ کون سی دنیا ہے جہاں کے لوگ کام کرکے دل کا سکون پاتے ہوں گے۔ ہم نے یہی محسوس کیا ہے کہ جب بھی کام نہ کرنے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے تب ہمارے دل و نظر میں ایک عجیب سا سُرور سما جاتا ہے، زندگی میں معنویت محسوس ہونے لگتی ہے۔ ایسے میں کچھ کچھ اندازہ ہو پاتا ہے کہ کام کے بغیر زندگی کتنی حسین ہوسکتی ہے!
دنیا بھر میں اور بالخصوص ترقی یافتہ معاشروں میں جن موضوعات کو بری طرح پامال کیا گیا ہے ان میں کام (یعنی معاشی سرگرمیاں) خاصا نمایاں ہے۔ مغربی معاشروں کا تو یہ حال ہے کہ لوگ کام کم کرتے ہیں اور کام پر دادِ تحقیق زیادہ دیتے ہیں! اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ ان معاشروں میں معاشی سرگرمی کو نوعیت کے اعتبار سے زندگی ہی قرار دیا جانے لگا ہے۔ عجیب لوگ ہیں۔ زندگی کیا اس لیے ہوتی ہے کہ کام کرنے یا کام پر تحقیق کرنے میں ضائع کی جائے؟
مزے کی بات یہ ہے کہ کام کو زندگی کے بنیادی مقاصد میں گرداننے والے ہی کام کے اوقات گھٹاتے جارہے ہیں۔ معاشی سرگرمیوں کو زیادہ سے زیادہ پُرلطف بنانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ زیادہ کام کرتے وقت جسم تھکے نہ ذہن۔ معاشی سرگرمیوں سے واقعی لُطف کشید کرنا ہے تو زیادہ سوچنے کی ضرورت کیا ہے، ہمیں دیکھ کر کچھ سیکھ لیا جائے یعنی کام سے گریز کی روش پر گامزن ہوا جائے!
برطانیہ میں برسوں کی تحقیق کے بعد ایک ایسا انکشاف کیا گیا ہے کہ پڑھنے والون کے دل دہل کر رہ گئے ہیں۔ کام کے نتیجے میں جسم کا تھک جانا تو سمجھ میں آتا ہے۔ زیادہ کام کرنے سے طبیعت میں بیزاری کا پیدا ہوجانا بھی کچھ حیرت انگیز نہیں۔ ہم نے خود بھی محسوس کیا ہے کہ جب کبھی ہمیں (خدا ناخواستہ) زیادہ کام کرنا پڑے تو طبیعت یوں اُچاٹ ہوجاتی ہے جیسے بھری دنیا میں ہمارا کوئی نہ ہو! یہ احساس ہی ہمیں کام سے دور اور طبیعت کو بحال رکھتا ہے! اور ایک ہم کیا، یہاں تو سب اِسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔
بات ہو رہی تھی کام سے متعلق برطانوی ماہرین کی تحقیق اور اس کی بنیاد پر کیے جانے والے انکشاف کی۔ ماہرین نے ہزاروں افراد کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہ ''روح فرسا‘‘ انکشاف کیا ہے کہ زیادہ کام کرنے یا دفتر میں زیادہ وقت گزارنے والے دماغی و ذہنی امراض میں مبتلا ہونے کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں!
یہ خبر پڑھ کر پہلے تو ہم سہم گئے۔ چند لمحات کے بعد یاد آیا کہ ہم کون سا اتنا کام کرتے ہیں! یوں دل کو کچھ تسلّی ہوئی کہ ہم دماغی امراض میں مبتلا ہونے کے خطرے سے دوچار نہیں! ساتھ ہی ہمیں ماہرین کی سوچ پر حیرت ہوئی۔ حسرتؔ موہانی نے کہا تھا ؎
خرد کا نام جنوں رکھ دیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے!
ماہرین کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ وہ اگر چاہیں تو رات کو دن ثابت کرنے پر تُل جائیں اور پھر اس کے لیے بہت دور کی کوڑیاں لائیں۔ برطانوی ماہرین نے بھی کچھ ایسا ہی کیا ہے۔ ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ نتیجے کو سبب قرار دینے پر کمر بستہ ہیں! ہم نے آپ کو بتایا کہ برطانوی ماہرین کے نزدیک وہ لوگ دماغی امراض میں مبتلا ہوسکتے ہیں جو زیادہ کام کرتے ہیں، دفاتر میں زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ (یہ پڑھ کر دل کو طمانیت محسوس ہوئی کیونکہ ہم اور ہمارے بیشتر ساتھی بروقت دفتر پہنچنے کے معاملے میں خاصے ڈھیلے واقع ہوئے ہیں۔ اور اب اِس ڈھیلے پن پر تھوڑا سا فخر بھی محسوس ہو رہا ہے!)
برطانوی ماہرین نے یہ بھی بتایا ہے کہ ہفتہ وار چُھٹّی کے دن کام کرنا بھی دماغ پر غیر معمولی دباؤ مرتب کرتا ہے! خبر پڑھ کر ہمیں اس لیے بھی ہنسی آئی کہ زیادہ کام کرنا دماغی امراض کا سبب نہیں، نتیجہ ہے! ماہرین کہتے ہیں کہ جو لوگ زیادہ کام کرتے ہیں وہ دماغی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں جبکہ ہماری ناقص رائے یہ ہے کہ جن کے دماغ میں خلل ہوتا ہے وہی زیادہ کام کرتے ہیں! جس کا دماغ کام کرتا ہو اُسے کیا پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ کام کرے یا کام کے بارے میں سوچتا رہے؟
ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس میں زیادہ کام کرنے والوں کے سَر کا اوپری خانہ خالی تصور کیا جاتا ہے۔ جو زیادہ کام کرے اُسے یوں بھی پسند نہیں کیا جاتا کہ اُسے دیکھ دیکھ کر خواہ مخواہ الجھن ہوتی رہتی ہے! جہاں لوگ کم کم، برائے نام کام کر رہے ہوں وہاں اگر کوئی زیادہ کام کرے تو آنکھوں میں چُبھتا ہی ہے۔ ہم نے زندگی بھر یہی کوشش کی ہے کہ خواہ مخواہ کسی کی آنکھوں میں نہ کھٹکیں!
ایک زمانے سے ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ جو لوگ بالکل فارغ رہتے ہیں یا کم کام کرتے ہیں اُن کی زندگی میں مسرّت کا گراف بلندی پر رہتا ہے۔ کوئی فکر دامن گیر رہتی ہے نہ کوئی الجھن ذہن سے لپٹتی ہے۔ وہ ہر معاملے کو نہایت خوش اُسلوبی سے نمٹاتے ہیں اور اپنی بات منوانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی بھی نوعیت کے ذہنی خلل میں مبتلا ہوتے ہیں نہ کبھی کوئی غیر ضروری دباؤ اُن کے اعصابی نظام کو اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ اس کے برعکس وہی لوگ زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں جو باقاعدگی سے کام کرتے ہیں اور مصروف رہنے کو زندگی کے بنیادی مقاصد میں گردانتے ہیں! یہ تو ایسا ہی معاملہ ہے کہ ع
اُس کو چُھٹّی نہ ملی جس کو سبق یاد ہوا!
ہم نے اپنے معاشرے کا جب بھی بغور جائزہ لیا ہے، اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بالی وڈ کی شہرہ آفاق فلم ''شعلے‘‘ کی بسنتی کے بقول (رام گڑھ گئے تو سمجھو رام گڑھ گئے) جو کام پر گئے تو سمجھو کام سے گئے!
آسان سا نکتہ ہے۔ جس کی سمجھ میں آجائے اُس کی خوش نصیبی اور جو سمجھ نہ پائے وہ بدنصیب کہلائے۔ مغرب کے ارفع اور تربیت یافتہ ذہن اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ زیادہ کام نہیں کرنا چاہیے ورنہ دماغی امراض میں مبتلا ہونے کا خطرہ سَر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ ہمارے ہاں عام سے اذہان بھی خدا جانے کب سے اِس نتیجے کے پلیٹ فارم پر پہنچے ہوئے ہیں کہ زیادہ کام کرنا کسی بھی اعتبار سے (کرنے والے کے لیے) موافق نتائج پیدا نہیں کرتا! مغربی ماہرین خاصی عرق ریزی سے کی جانے والی تحقیق کے نتیجے میں جو کچھ کرنے کو کہتے ہیں وہ ہم بہت پہلے سے کرتے ہوئے پائے گئے ہیں! ماہرین زیادہ کام نہ کرنے کا مشورہ دینے کے قابل اب ہو پائے ہیں اور ہم اس روش پر ایک زمانے سے گامزن ہیں!
زیادہ کام کرنے کے نتیجے میں دماغی امراض یا ذہنی خلل میں مبتلا ہونے کا خوف کسی اور کو لاحق ہو تو ہو، ہمیں تو یہ کسی بھی سطح پر لاحق نہیں یعنی کام کے حوالے سے تو یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ہم ذہنی یا دماغی طور پر کبھی بیمار نہیں پڑیں گے!