بے تابی اور وہ بھی کبھی کبھار کی نہیں بلکہ روز و شب کی ... اہل کراچی کا مقدر ہوکر رہ گئی ہے۔ ذہن الجھن کا شکار رہتا ہے۔ بہت سے کام ایسے ہیں کہ ہوتے ہیں مگر ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ اور بہت سے کام ایسے ہیں کہ ہوتے دکھائی دیتے ہیں مگر در حقیقت کچھ بھی نہیں ہو رہا ہوتا! بیشتر معاملات اُدھیڑ بُن کی نذر رہتے ہیں۔
اب موسم ہی کو لیجیے۔ محکمۂ موسمیات والے پیش گوئیاں کرتے کرتے تھک گئے مگر کبھی پوری طرح وہ نہ ہوا جو پیش گوئیوں میں تھا۔ ہر طرف سے گِھر کر آنے والی گھٹاؤں کو دیکھ کر موسمی اُمور کے ماہرین قیاس کے گھوڑے دوڑاتے ہیں اور پیش گوئی کر بیٹھتے ہیں کہ بارش اب ہوئی کہ تب ہوئی۔ مگر انتظار کرتے رہ جائیے، ہوتا کچھ بھی نہیں۔ گویا ؎
دِل گِھرا رہتا ہے اندیشوں میں
حادثے ہیں کہ گزرتے ہی نہیں
کچھ کچھ ایسی ہی کیفیت کو کسی اور نے یوں شعر کا جامہ پہنایا ہے ؎
پکارتی ہی نہ رہ جائے یہ زمیں پیاسی
برسنے والے یہ بادل گزر نہ جائیں کہیں
کراچی میں اور اہل کراچی کے ساتھ یہ ''سین پارٹ‘‘ ایک مدت سے ہو رہا ہے۔ بادل آتے ہیں اور کھل کر برسے بغیر چلے جاتے ہیں۔ اگر کبھی موڈ ہوا تو از راہِ ترحم کچھ دیر کو بوندا باندی فرمادی۔ یہ بھی بادل صاحبان کی مہربانی ہے۔ اگر وہ اِتنا بھی نہ کریں تو ہم اُن کا کیا بگاڑ لیں!
ایک زمانے سے ہم یہ سُنتے آئے ہیں کہ کراچی کا اپنا کچھ بھی نہیں۔ حد یہ ہے کہ موسم بھی پرایا ہے۔ یعنی کوئٹہ میں سردی پڑتی ہے تو اہل کراچی بھی کچھ دن ٹھٹھر لیتے ہیں! اگر سندھ کے اندرونی علاقوں میں شدید گرمی پڑے تو تھوڑی بہت تپش کراچی تک بھی پہنچ ہی جاتی ہے۔ اللہ کا خاص کرم یہ ہے کہ سمندر کے کنارے واقع ہونے کی بدولت کراچی عموماً ٹھنڈا رہتا ہے۔ سمندری ہوائیں ماحول کو ہر وقت قابل برداشت بنائے رکھتی ہیں۔ حیرت ہے کہ اِس پر بھی لوگ اپنے اندر کی جلن اور اشتعال پر قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں! اور بارش؟ اُس کا تو کچھ پوچھیے ہی مت۔ بلوچستان جب سرد ہواؤں سے نبرد آزما ہوتا ہے تب تھوڑی بہت ٹھنڈک کراچی کی طرف بھی دھکیل دیتا ہے تاکہ اہل کراچی کو بھی، دو چار دن ہی کے لیے سہی، نانی یاد آجائے! و لیکن بارش؟ توبہ کیجیے جو اِس معاملے میں کسی بھی علاقے نے کراچی کے لیے کبھی فیّاضی کا مظاہرہ کیا ہو!
ملک کے بیشتر حصوں میں ہر سال مون سُون آتا ہے اور حسبِ توفیق کا تحفہ عنایت کرکے چلا جاتا ہے مگر رم جھم کی جھنکار والے موسم کو کبھی کراچی میں دل کھول کر برسنے والے بادلوں کی بانسری بجانے کی توفیق نہیں ہوتی!
محکمۂ موسمیات والوں کی پیش گوئیاں اُسی باقاعدگی سے ناکام ہوتی آئی ہیں جس باقاعدگی سے بعض نوجوان امتحانات میں فیل ہو ہوکر بورڈ والوں کی آمدن میں اضافے کا ذریعہ بنے رہتے ہیں! پیش گوئیوں کی ناکامی کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے اب لوگ موسم سے متعلق ہر محکمہ جاتی پیش گوئی کو اسٹینڈ اپ کامیڈی کا آئٹم سمجھ کر قبول کرتے ہیں! لوگ بھی کیا کریں؟ جو کچھ ہوتا آیا ہے وہ اُسی کی بنیاد پر کوئی رائے قائم کریں گے نا؟ بس، وہ سمجھ گئے ہیں کہ موسمی اُمور سے متعلق کچھ کہنے یا بتانے کے لیے جو محکمہ قائم کیا گیا ہے وہ دراصل بُجھے بُجھے ہونٹوں کو تھوڑی بہت مسکان عنایت کرنے کی سنجیدہ کوشش ہے اور یہی سبب ہے کہ لوگ اب محکمۂ موسمیات کی کسی بھی پیش گوئی کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے!
کراچی کے حوالے سے محکمۂ موسمیات کی پیش گوئیاں اور تجزیے نوعیت کے اعتبار سے اس قدر پُر لطف ثابت ہوتے رہے ہیں کہ اگر کوئی اُنہیں جمع کرکے کتابی شکل میں شائع کرے تو مزاح کی ایک نئی صِنف (genre) معرضِ وجود میں آجائے! بہت پہلے کی بات ہے کہ جب محکمۂ موسمیات والے بارش کی پیش گوئی کرتے تھے تو لوگ کسی کونے میں چُھپی ہوئی یا مچان پر دبی ہوئی چھتری نکال کر، جھاڑ پونچھ کے بعد بڑے اہتمام کے ساتھ گھر سے نکلتے تھے اور جب ایک بوند بھی ٹپکنے کا نام نہیں لیتی تھی تب سُوکھی چھتری کے ساتھ منہ لٹکائے گھر واپس آتے تھے! وقت نے اہل کراچی کو بہت کچھ سِکھادیا ہے۔ اب وہ جان گئے ہیں کہ کراچی میں موسم واحد معاملہ ہے جس کے بارے میں زیادہ سوچنا انسان کو تمسخر کا ہدف بناکر دم لیتا ہے!
اب کے بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ رمضان المبارک کے دوران ابر ہائِ رحمت چھائے رہے۔ لوگ ڈر رہے تھے کہ کہیں پچھلے سال کی طرح ماہِ صیام کی بابرکت ساعتیں شدید اور جان لیوا گرمی کی نذر نہ ہوجائیں۔ صد شکر کہ ایسا کچھ نہ ہوا۔ ماہِ صیام کے آخری تین چار دن کے سِوا موسم توقع سے کہیں زیادہ خوشگوار رہا۔ دو تین بار پیش گوئی فرمائی گئی کہ ماہِ رحمت میں ابر ہائِ رحمت برس جائیں گے مگر اُنہوں نے برسنے کا نام ہی نہ لیا۔
ماہِ صیام جب خاتمے کے نزدیک پہنچا تو دستیاب مواد اور شواہد کی بنیاد پر موسمی اُمور کے ماہرین نے عیدالفطر کے موقع پر بارش کی پیش گوئی کی۔ وہ اپنی جگہ زیادہ غلط بھی نہیں تھے۔ آثار بارش ہی کے تھے مگر اے وائے ناکامی کہ اِس بار بھی اہل کراچی کی اُمید بر نہ آئی۔ بارش کی پیش گوئی کرنے والے خواہ کچھ چاہتے ہوں، اہل کراچی چاہتے تھے کہ بارش ہو تاکہ زمین کے ساتھ ساتھ دل و دماغ کی بھی پیاس بجھے۔
عید کے بعد ہم مرزا تنقید بیگ کے گھر گئے تو (نہ ہونے والی) بارش پر بھی بات ہوئی۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ مرزا کے ذہن میں ہر معاملے پر ایک الگ سوچ پائی جاتی ہے۔ بارش کے حوالے سے بھی اُن کا اپنا ''نظریہ‘‘ ہے جو اُنہوں نے خاصے بلیغ انداز سے ہماری سماعت کی نذر کیا۔ جو کچھ اُنہوں نے بیان کیا اُس کا خلاصہ جاذبؔ قریشی کے اِس شعر میں پایا جاتا ہے ؎
کیوں مانگ رہے ہوں کسی بارش کی دعائیں
تم اپنے شکستہ درودیوار تو دیکھو!
جاذبؔ قریشی کی طرح احمد فرازؔ نے بھی ایک مقطع کے ذریعے ہمیں بہت پہلے نصیحت فرما رکھی ہے ۔ ؎
اِن بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فرازؔ
کچّا تِرا مکان ہے، کچھ تو خیال کر!
احمد فرازؔ اور جاذبؔ کی فکری اور فنّی عظمت سے انکار ممکن نہیں۔ اب اُنہوں نے کہا ہے تو کچھ سوچ کر ہی کہا ہوگا مگر قدرت کچھ بھی ہم سے پوچھ کر تو نہیں کرتی نا۔ بارش کو اگر ہونا ہے تو ہونا ہے۔ گرمی پڑنی ہے تو پڑنی ہے۔ قدرت نے اگر ٹھان رکھا ہو کہ ہمیں ٹھٹھرنا چاہیے تو وہ ہمیں کپکپی کی نذر کرکے ہی دم لیتی ہے۔
تو پھر کیا کیا جائے؟ اہل کراچی نے موسم سے متعلق مضحکہ خیز پیش گوئیوں کا خوب توڑ ڈھونڈ نکالا ہے۔ عشروں کا تجربہ کہتا ہے کہ کراچی کے بارے میں محکمۂ موسمیات والے جو کچھ بھی کہیں، معاملات کو اُس کے برعکس ہی تصور کرنا ہے۔ اگر وہ کہیں کہ بادل نہیں برسیں گے اور حبس بڑھے گا تو سمجھ لیجیے کہ آپ کے مقدر بھی بھیگنا لکھ دیا گیا ہے! اگر ارشاد ہو کہ موسلا دھار بارش ہوگی تو چھاتا تھام کر گھر سے نکلنے یا اپنے بیگ میں برساتی رکھنے کی ضرورت نہیں۔ بعد میں ثابت ہوگا کہ خواہ مخواہ اِتنا بوجھ اٹھایا! ہمیں ایسا لگتا ہے کہ کراچی کے موسم (بالخصوص بارش) اور محکمۂ موسمیات کے درمیان چھتّیس کا آنکڑا ہے یعنی ٹھنی ہوئی ہے! جو کچھ محکمۂ موسمیات کہتا ہے عموماً اُس کے برعکس ہوتا ہے! اِس کیفیت کو مومن خاں مومنؔ نے یُوں بیان کیا تھا ؎
مانگا کریںگے اب سے دُعا ہجرِ یار کی
آخر تو دُشمنی ہے دُعا کو اثر کے ساتھ!
یعنی جو کچھ بھی کراچی کے موسم کے حوالے سے پیش گوئی کی شکل میں کہا جاتا ہے، اہل کراچی معاملے کو اُس کے برعکس لیتے ہیں اور خوش رہتے ہیں! اللہ ہی جانتا ہے کہ کراچی کے موسم اور محکمۂ موسمیات کے درمیان یہ چھتّیس کا آنکڑا کب ختم ہوگا اور پیش گوئیاں درست ہوکر دل و دماغ کو مفت کی اُلجھن سے دور رکھنے کا فریضہ انجام دیں گی اور جسم و جاں کے موسم کو زیادہ سے زیادہ فرحت بخش بنائیں گی!