"MIK" (space) message & send to 7575

’’ڈمپ‘‘ کارڈ

ڈونلڈ ٹرمپ نے تو ڈونلڈ ڈک کی طرح اُدھم مچا رکھا ہے۔ اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ متنازع بنانے کے جتنے بھی طریقے ہو سکتے ہیں وہ سب کے سب ڈونلڈ ٹرمپ نے آزما لیے ہیں۔ اُنہیں خود بھی اندازہ نہیں کہ لوگ اُنہیں متنازع سمجھنے سے زیادہ اُن کے حوالے سے حیرت میں مبتلا رہتے ہیں۔ ہر گزرتا دن امریکیوں کو ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے مزید حیرت سے دوچار کرتا جا رہا ہے۔ بہت سے امریکی اب تک سمجھ نہیں پائے کہ ری پبلکن پارٹی نے صدارتی انتخاب کے ٹرمپ جیسی ''مسخرانہ‘‘ شخصیت کا انتخاب کیوں کیا ہے! اگر صرف اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری جاتی تو کوئی بات نہ تھی، ری پبلکن پارٹی نے تو قومی مفادات کے ہاتھ پاؤں پر کلہاڑا چلا دیا ہے۔ 
امریکی میڈیا میں یہ بات بیسیوں بار بیان کی جاچکی ہے کہ ٹرمپ قومی مفادات اور معاشرتی ہم آہنگی کے حوالے سے ذرا بھی سنجیدہ نہیں۔ کسی بھی سیاست دان کی سنجیدگی کا اندازہ معاشرے کے مختلف طبقات سے متعلق اُس کے خیالات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ نے میڈیا کی بھرپور توجہ بٹورنے کے لیے پہلے مرحلے میں مسلمانوں کو اپنی کڑوی باتوں کا نشانہ بنایا۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے بارے میں انہوں نے نسل پرستانہ ریمارکس دیئے۔ ٹرمپ جب مسلمانوں کو اچھی طرح اپنے خلاف کر چکے تو ہندوؤں کی باری آئی۔ ایک مرحلے پر انہوں نے کہا کہ اگر وہ صدر منتخب ہو گئے تو برصغیر کے لوگوں اور بالخصوص بھارت کے شہریوں کو ویزوں کا اجرا بند کر دیں گے کیونکہ اِن لوگوں نے امریکیوں کا ذریعۂ معاش چھین لیا ہے! اِس طرف سے فارغ ہونے کے بعد ٹرمپ نے یہودیوں کو نشانے پر لیا۔ امریکا میں کوئی صدارتی امیدوار یہودیوں پر طنز کرے، اِس کا تو سوچا بھی نہیں جا سکتا مگر ٹرمپ نے تو مخالفین کے ساتھ ساتھ حامیوں کو بھی حیران و پریشان کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ری پبلکن پارٹی کے بارے میں عام تصور یہ ہے کہ یہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت ہے۔ یعنی اِس میں جتنی بھی انتہا پسندی ہے وہ مذہب کے نام پر ہے۔ اس کے مقابل ڈیموکریٹس کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ لبرل ہیں اور مذہب کی بنیاد پر انتہا پسندی کے مقابل لبرل ازم کو رکھتے ہیں۔ 
ریاستی پالیسیوں کا معاملہ اگرچہ مختلف ہے اور جب قومی مفادات کی بات آجائے تو دونوں میں سے ہر جماعت کو وہی کچھ کرنا ہوتا ہے جو بہترین قومی مفاد میں ہو مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سب کچھ داؤ پر لگا دیا جائے۔ سوال داخلی سلامتی کا بھی ہے۔ ری پبلکنز نے جب سے نیوکونز کا چولا پہنا ہے، ملک شدید بحران کا شکار ہو گیا ہے۔ رہی سہی کسر ٹرمپ جیسے لوگوں نے پوری کر دی‘ جو ملک گیر پیمانے پر نسل اور طبقے کی سطح پر تقسیم و تفریق بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ 
ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے قومی سلامتی کے امور کے پچاس ماہرین نے پارٹی کی قیادت کو ایک کھلا خط لکھا ہے جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر ٹرمپ کو صدارتی انتخاب کی دوڑ میں شریک ہونے دیا گیا تو ایسے مسائل پیدا ہوں گے جنہیں حل کرنا کسی کے بس میں نہ ہو گا۔ ری پبلکن پارٹی کو انتباہ کیا گیا ہے کہ ٹرمپ امریکا کی تاریخ کے لاپروا ترین صدر ثابت ہوں گے۔ وہ صدارت کے اہل نہیں اور قومی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دیں گے۔ قومی سلامتی کے اِن ماہرین نے یہ ''مژدہ‘‘ بھی سُنایا ہے کہ اُن میں سے کوئی بھی ٹرمپ کو ووٹ نہیں دے گا! خط میں سب سے اہم نکتہ یہ بیان کیا گیا کہ ٹرمپ نے آزاد دنیا کے لیڈر کی حیثیت سے امریکا کے اخلاقی جواز کو خطرناک حد تک کمزور کر دیا ہے! 
ری پبلکن پارٹی میں سیاہ و سفید کے مالک سمجھے جانے والوں کے نام لکھے جانے والے خط پر جن لوگوں نے دستخط کیے‘ ان میں سابق وزیر خارجہ نیگرو پونٹے، رابرٹ زولک اور ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی کے دو سابق سیکرٹریز کے علاوہ سابق فوجی سربراہ مائیکل ہیڈن بھی شامل ہیں۔ ان سب کے نزدیک خاص طور پر قابل غور اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ صدر منتخب ہونے کی صورت میں ٹرمپ آئین کی رُو سے عملاً امریکی افواج کے سپریم کمانڈر بھی قرار پائیں گے۔ بہت سے اہم عسکری فیصلے اُن کی منظوری ہی سے ممکن ہو سکیں گے اور وہ فیصلوں پر اثر انداز بھی ہوں گے۔ 
ٹرمپ کے مقابل ہلیری کلنٹن کی پوزیشن مستحکم ہے۔ وہ پہلے خاتونِ اول کی حیثیت سے آٹھ سال امریکی ایوان صدر میں رہیں اور پھر وزیر خارجہ کی حیثیت سے بھی انہوں نے وائٹ ہاؤس میں کم و بیش چار سال گزارے ہیں۔ ایسے میں کہا جا سکتا ہے کہ انہیں ملک کی پالیسیوں کا بخوبی اندازہ ہے اور چونکہ وائٹ ہاؤس ان کے لیے نیا نہیں اس لیے وہاں کے ہر معاملے کو وہ بہت عمدگی سے اور بروقت سمجھ سکتی ہیں۔ متعلقہ افسران اور دیگر اہلکاروں سے اُن کی اچھی واقفیت ہے۔ یہ واقفیت صدر کی حیثیت سے عمدہ کارکردگی میں یقینی طور پر معاون ثابت ہو گی۔ ٹرمپ کو اب تک سرکاری امور کا براہِ راست کوئی تجربہ نہیں۔ اُن کے کریڈینشیلز اِس حوالے سے بہت کمزور ہیں۔ 
جنوری 2017ء سے چار سال تک امریکا کی لگام کس کے ہاتھ میں ہو گی یہ فیصلہ امریکی عوام کریں گے۔ امریکی بہت سے معاملات میں جذباتی ہو جاتے ہیں مگر جب ملک کا نظام چلانے والی شخصیت کے انتخاب کا وقت آتا ہے تب وہ کسی حد تک ذہانت، تحمل اور بردباری کا مظاہرہ ضرور کرتے ہیں۔ اِس وقت ''مارکیٹ‘‘ میں جو امیدوار موجود ہیں اُن میں ہلیری کلنٹن ہر اعتبار سے امریکی صدر کے منصب کے لیے موزوں ترین ہیں۔ اُن پر ٹرمپ کو تو کسی حال میں ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ ٹرمپ نے اب تک اپنی سنجیدگی ثابت نہیں کی۔ وہ ہر تقریر میں معاشرتی ہم آہنگی اور سیاسی بردباری کے حوالے سے ایک آدھ بڑا ''بھنڈ‘‘ ضرور کر جاتے ہیں۔ اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کہیں جس سے کوئی ایک طبقہ پریشان ہو اور ردعمل ظاہر کرے۔ 
اِس وقت سب سے بڑا امتحان ہلیری کلنٹن یا ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے نہیں بلکہ خود امریکیوں کے لیے ہے۔ اُنہیں طے کرنا ہے کہ اُن کا ملک آئندہ چار برس کس سمت جائے گا۔ امریکی پالیسیوں میں کوئی بامعنی تبدیلی اگر آ سکتی ہے تو وہ ٹرمپ جیسے لوگ تو خیر کسی حال میں یقینی نہیں بنائیں گے۔ ہلیری کلنٹن نے ایوان اقتدار میں کم و بیش بارہ سال گزارے ہیں‘ اور اگر سینیٹر کی حیثیت سے اُن کی خدمات بھی شامل کی جائیں تو یہ مدت 15 سال سے زائد ہے۔ ایسے میں دانائی کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہلیری کو صدر بنایا جائے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ دو بڑی جماعتوں میں سے ایک نے کسی خاتون کو مرکزی امیدوار بنایا ہے۔ بارک اوباما پہلے غیر سفید فام صدر ہیں۔ ہلیری پہلی خاتون امیدوار ہیں۔ جب یہ دو انوکھے واقعات ہو چکے تو پھر ایک اور انوکھا واقعہ سہی۔ یہی کہ ہلیری کی شکل میں امریکا کو پہلی خاتون صدر ملے! 
ٹرمپ کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اُن کا مکمل غیر سنجیدہ رویہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ الجھن میں مبتلا کرتا جا رہا ہے۔ انہوں نے عراق میں جان دینے والے ایک مسلم امریکی فوجی کے بارے میں ریمارکس دے کر بھی مزید مسلمانوں کو اپنے خلاف کر لیا ہے۔ کیپٹن ہمایوں خان کے والد خضر خان اور والدہ غزالہ نے ڈیموکریٹک کنونشن میں خطاب کیا اور ملک بھر سے ان کے لیے بھرپور حمایت کا اظہار کیا گیا۔ خضر خان کے بارے میں نازیبا ریمارکس دینے پر ٹرمپ کو ہر طرف سے، حتیٰ کہ اپنی پارٹی کے لوگوں کی طرف سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ری پبلکن پارٹی کی بدنصیبی ہے کہ اُس نے ٹرمپ کو اپنا صدارتی امیدوار چُنا ہے۔ ہلیری کے مقابل ری پبلکن پارٹی کا ''ٹرمپ کارڈ‘‘ قرار دیئے جانے والے ٹرمپ اب اپنی پارٹی اور کسی حد تک ملک کے لیے بھی ''ڈمپ کارڈ‘‘ ثابت ہوتے جا رہے ہیں۔ ری پبلکن پارٹی کی بدنصیبی اپنی جگہ، اگر کہیں ٹرمپ کو صدر منتخب کر لیا گیا تو یہ خود امریکا کے لیے بھی شدید بدنصیبی کی بات ہو گی۔ ٹرمپ کو صدر منتخب کرکے امریکی عوام اپنے تابوت میں حتمی کیل خود ہی ٹھونکیں گے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں