بستی بستی قریہ قریہ قربانی کے قابل رشک حد تک صحت مند جانور اپنی بہار دکھا رہے ہیں، مویشی منڈی میں قربانی کے جانوروں کی آؤ بھگت دیکھ کر آپ قدم قدم پر دل مَسُوس کر رہ جائیں گے۔ خیر، معاملہ عقیدت کا ہے۔ اللہ کی راہ میں جس کے گلے پر چُھری پِھرائی جانے والی ہے اُس کی ناز برداری سمجھ میں آتی ہے۔ مگر قیمت؟ مویشی منڈی میں قدم قدم پر ایسا ہوتا ہے کہ اِدھر کسی نے کسی جانور کی قیمت پوچھی اور جانور کا مالک اُسے سَر سے پاؤں تک گُھور کر دیکھتا ہے اور کچھ کہے بغیر کہہ گزرتا ہے ع
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ !
جو خود کو بہت پَھنّے خاں سمجھتے ہیں وہ مویشی منڈی کا ایک ہی چکر لگانے پر ایسے چکراتے ہیں کہ اپنی وقعت اور قدر وقیمت کے حوالے سے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور ہوش ٹھکانے آنے لگتے ہیں!
قربانی کے جانوروں کی قیمت کا معاملہ اب ایسی سنگین شکل اختیار کرچکا ہے کہ ہمیں وہ دن زیادہ دور دکھائی نہیں دیتا جب مویشی منڈی میں ہر بڑے شامیانے کے باہر ماہرین امراض قلب بیٹھے ہوں گے۔ یعنی پہلے آپ اُن کے پاس جائیے، چیک اپ کرائیے۔ وہ نبض، ہارٹ بیٹ اور بلڈ پریشر وغیرہ چیک کرکے کلین چٹ دیں گے۔ ماہرین کی طرف سے کلیئرنس ملنے ہی پر آپ قربانی کے جانور کی قیمت دریافت کرسکیں گے!
کوئی فربہ جانور دیکھ کر اُدھر آپ قیمت پوچھتے ہیں اور اِدھر اپنی کرارے نوٹوں کی گڈی آپ کو لُوسن کی گڈی جیسی دکھائی دینے لگتی ہے! قیمت بتاتے وقت بیوپاری کچھ ایسا تاثر دیتے ہیں جیسے گائے لُوسن کی نہیں بلکہ کرارے نوٹوں کی گڈی کھاتی ہو!
ہم نے بارہا (یعنی جب کبھی اپنی تھوڑی بہت ہمت ایک پیج پر لاکر مویشی منڈی کا رخ کیا ہے) یہ مشاہدہ کیا ہے کہ قربانی کے جانور کی قیمت سُن کر بہت سے لوگوں کا منہ سُوکھی گھاس جیسا ہو جاتا ہے! جی تو بہت چاہتا ہے کہ قربانی کا جانور گھر لاکر ذبیحہ کیا جائے مگر پسند کی یعنی اپنی مالی حیثیت سے مطابقت رکھنے والی گائے کو منڈی میں ''نگری نگری، دوارے دوارے‘‘ ڈھونڈتا پڑتا ہے۔ گویا ع
منزل پہ آگیا ہوں، منزل نظر نہ آئے!
گائے کے ناز نخرے ایک الگ دنیا کی سیر کرا رہے ہوتے ہیں۔
مویشی منڈی میں گھومتے پھرتے وقت اگر آپ ذرا غور کیجیے تو محسوس ہوگا کہ آپ ہی جانوروں کا جائزہ نہیں لے رہے ہوتے، وہ بھی آپ کے بارے میں کچھ نہ کچھ اندازے قائم کر رہے ہوتے ہیں! شعور کی سطح مختلف ہی سہی مگر بے شعور تو مویشی بھی نہیں ہوتے! اور فی زمانہ انسانوں میں شعور کی جو سطح پائی جارہی ہے اُسے دیکھتے ہوئے مویشیوں کے باشعور ہونے پر تو یقین کرنا ہی پڑے گا! بارہا یہ ہوا ہے کہ جیسے ہی کوئی کسی تگڑی گائے کی قیمت پوچھ کر شرمندہ سا ہونے لگتا ہے، گائے متوقع مالک کو یُوں گھور کر دیکھتی ہے جیسے کہہ رہی ہو ع
میرے محبوب، مِری جان! پریشاں کیوں ہے؟
اور پھر آپ کی آنکھوں میں پائی جانے والی بے یقینی بھانپ کر خاموشی کی زبان سے کہتی ہے ع
پیوستہ رہ شجر سے، اُمیدِ بہار رکھ !
کسی نہ کسی طور سفید پوشی کا بھرم رکھنے والوں کے دل میں قربانی کی لگن تو پائی جاتی ہے مگر جیب ناطاقتی سے دوچار رہتی ہے۔ مویشی منڈی میں ایسے لوگوں کو قدم قدم پر گنگنانا پڑتا ہے ع
کبھی ہم اُن کو، کبھی اپنی جیب دیکھتے ہیں!
بہت سے سفید پوش تو مویشی منڈی کا ایک چکر مکمل ہونے پر ہوش و خرد سے محروم ہوکر شِدّتِ وحشت کے عالم میں گریبان ہی پھاڑ ڈال داتے ہیں تاکہ کہہ سکیں ع
وہ جیب ہی نہ رہی جو تھی جانور کے لیے!
(واضح رہے کہ ڈیڑھ دو سو سال قبل اردو شاعری میں گریبان کے لیے لفظ جیب مستعمل تھا۔)
جو حالات کے سمندر میں پھینکے جانے کے بعد جان بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں وہ اگر مویشی منڈی میں تھوڑا سا اعتماد پیدا کرکے چلنے کی کوشش کریں تو گائے اُنہیں یاد دلاتی ہے ؎
میں تِرے سنگ کیسے چلوں ساجنا
تو سمندر ہے، میں ساحلوں کی ہوا!
چلیے، ہم فرض کرلیتے ہیں کہ آپ نے اپنی پسند اور مالی حیثیت سے مکمل مطابقت رکھنے والا جانور خرید ہی لیا ہے تو یاد رکھیے کہ اِس کے فوری بعد کی منزل بھی خُون کے آنسو رُلانے کے لیے تیار ہے!
جیسے ہی آپ خریدے ہوئے جانور کی رَسّی تھام کر گاڑی کی طرف چلیں گے، سوال تبدیل ہوجائے گا۔ پہلے پوچھا جارہا تھا ''آپ اِس سال 'کیا‘ کر رہے ہیں؟‘‘ اور اب ''کتنے میں لیا؟‘‘ پوچھ پوچھ کر لوگ ناک میں دم کرنا شروع کریں گے!
یہ سوال دراصل آپ کے تن بدن میں آگ لگانے کی عالمگیر سازش کا شاخسانہ ہے! فرض کیجیے آپ نے قربانی کا جانور 80 ہزار میں خریدا ہے۔ اگر یہی قیمت بتائی تو سُننے والا کہے گا ''آپ تو لُٹ گئے، یہ 60 ہزار سے زیادہ کا جانور ہے ہی نہیں!‘‘ اور اگر آپ نے کہ دیا کہ 45 ہزار میں لیا ہے تو جواب ملے گا ''رہنے بھی دیں جناب! کیوں مذاق کرتے ہیں؟ ہم کیا آپ کو شکار پور سے آئے ہوئے لگتے ہیں؟ ایسا تگڑا جانور 75 سے کم میں کیا ہی ملے گا!‘‘
یعنی دونوں معاملات میں مات آپ ہی کو کھانی ہے۔ استفسار کرنے والوں نے آپ سے ہار نہ ماننے کی قسم کھائی ہوئی ہوتی ہے۔ ع
جنابِ شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
آپ کئی بار بیمار پڑے ہوں گے، کئی بار لوگوں کے سامنے سے منہ لٹکائے گزرے ہوں گے۔ اور کسی نے آپ سے نہیں پوچھا ہوگا کہ بخار تو نہیں، پیٹ میں گڑبڑ تو نہیں مگر قربانی کا جانور لے کر آپ جیسے ہی اپنے علاقے میں داخل ہوں گے، اُس کی قیمت معلوم کرنا سب کے لیے اوّلین فریضہ ٹھہرے گا!
بہت سے لوگ تو قربانی کے جانور کی قیمت اِس انداز سے پوچھتے ہیں جیسے یہ اطمینان کرلینا چاہتے ہیں کہ آپ خرید کر ہی لائے ہیں نا، کہیں سے رَسّی کھول کر چُرا تو نہیں لائے! ایسے لوگوں کو مطمئن کرنا قتل کی تفتیش کرنے والے پولیس افسر کو مطمئن کرنے سے زیادہ مشکل ثابت ہوتا ہے!
سیدھی سی بات ہے۔ جانور کا ذبیحہ تو جس دن ہونا ہے اُسی دن ہونا ہے مگر اِس سے پہلے آپ کو کئی بار ذبح ہونا ہے۔ چُھری کبھی سوالات کی ہوگی اور کبھی تبصرے کی۔