اللہ کا جس قدر کا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ اُس نے آپ کو قربانی کا جانور خریدنے اور اُس کی ناز برداری کی توفیق بخشی۔ ایک ہفتے سے قربانی کا جو جانور آپ کے دروازے پر بندھا ہے اُس سے آپ کو تھوڑا بہت اُنس ضرور پیدا ہوچکا ہوگا۔ آپ بھی مطمئن ہیں اور اہل خانہ بھی کہ ایک مرحلۂ شوق طے ہوا۔ آپ بھی بے تاب تھے اور دوسروں کو بھی فکر لاحق تھی کہ آپ اِس سال کیا کریں گے۔ قربانی کا جانور آیا تو لوگوں کو پتا چل گیا کہ آپ اِس سال کیا کر رہے ہیں۔ یہ اطمینان اچھی بات ہے مگر آپ بھول رہے ہیں کہ ابھی آپ کو ایک بہت بڑے اور فیصلہ کن مرحلے سے گزرنا ہے۔ یہ مرحلہ ہے ذبیحے کا۔
قربانی کے جانور کو کِھلانا پلانا، گھمانا پھرانا بھی کسی حد تک fun اور فن کا درجہ رکھتا ہے مگر یہ فن آپ بہرحال سیکھ سکتے ہیں۔ آپ نے قربانی کا جانور کس مقصد کے حصول کے لیے خریدا ہے؟ اللہ کی خوشنودی کے لیے نا۔ اور اللہ کی خوشنودی اِس میں ہے کہ آپ اِس جانور کو اُس کی راہ میں قربان کریں یعنی ذبیحے کی منزل سے گزریں۔ ذبیحہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ یہ سرکاری نوکری ہے نہ سیاست کہ جس کا جی چاہے، منہ اُٹھائے اِس کوچے میں قدم رکھ دے۔
آپ کا حقیقی امتحان شروع ہوتا ہے اب۔ جانور آپ لے آئے۔ گھر کے اندر باہر چارے کا ڈھیر بھی لگا ہے۔ ہفتے بھر میں جتنا کھلا پلا سکتے تھے کھلا چکے، پلا چکے۔ جانور کی یومیہ نہلائی دُھلائی کے مرحلے سے بھی آپ گزر لیے۔ ڈیلی واک کی صورت میں جانور کی کما حقہ رُو نمائی اور ناز برداری بھی ہوچکی۔ آپ کے دل کو بہت حد تک اطمینان مل چکا، کلیجہ ٹھنڈا ہوچکا۔ مگر زیادہ پُرسکون ہوکر بیٹھ رہنا آپ کے نصیب میں کہاں؟ زیادہ نازاں و فرحاں نہ ہوں کہ ابھی ایک کلیجہ اور ہے جو ٹھنڈا کیے جانے کا منتظر ہے۔ گریبان میں جھانکنے کی ضرورت نہیں۔ یہ کلیجہ آپ کا نہیں، قَصّاب کا ہے!
ذبیحے کے لیے آپ کو ایک ایسے قَصّاب کا انتخاب کرنا ہے جو ترجیحاً جَدّی پُشتی بھی ہو اور اپنے کام میں ماہر بھی۔ قَصّاب کا انتخاب ایسا مرحلہ ہے جس کے لیے منیرؔ نیازی کہہ گئے ہیں ؎
اِک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا!
مویشی منڈی میں آپ نے جانور کی خریداری میں پورا دن لگایا تھا۔ قَصّاب کے انتخاب کا مرحلہ بھی آپ کو اُسی کیفیت سے دوچار کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں دن لگا تھا، یہاں دن لگیں گے!
یاد رکھیے، قَصّاب کا انتخاب اور اُس سے ''ڈیل‘‘ کسی بھی اعتبار سے ''ابے دیکھ لیں گے‘‘ والا معاملہ نہیں۔ اگر آپ نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہ لیا تو آپ اپنی کھال میں نہ رہ سکیں گے یعنی جانور کی کھال اُتارے جانے سے پہلے آپ کی کھال اُتر جائے گی!
فی زمانہ قربانی کے دنوں میں ڈھنگ کے یعنی اصلی تے نسلی قسم کے قَصّاب کا ہاتھ آجانا ایسا واقعہ ہے جو صرف ماں کی دعا کا نتیجہ ہوسکتا ہے! (میر تقی میرؔ کی روح سے معذرت کے ساتھ) ؎
مت سہل اِنہیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے ''قصّاب‘‘ نکلتے ہیں!
آج کل بازار میں خاصے ''گڈ لُکنگ‘‘ قسم کے لونڈے لپاڑے چُھرے، بُغدے اور مِڈّھیاں تھامے دکھائی دیتے ہیں۔ بہت سے اناڑی گائے مالکان اِنہیں دیکھتے ہی گنگنانے لگتے ہیں ع
تم جو مل گئے ہو تو یہ لگتا ہے کہ جہاں مل گیا
اِن کی طرف ملتفت ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ موسمی قَصّاب ہیں جو کٹائی کے نام پر جانور اور آپ کی عید دونوں کو خراب کردیتے ہیں۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ جَدّی پُشتی اور ماہر قَصّاب خاصے کم گڈ لُکنگ ہوتے ہیں! جس کی مہارت سے آپ مطمئن ہوسکیں قربانی کے دنوں میں ایسے قَصّاب کی تلاش میں نکلیے گا تو اندازہ ہوگا کہ لیلٰی سے وصال کے لیے مجنوں کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑے ہوں گے، شیریں کے لیے فرہاد نے جُوئے شیر کس طور بہائی ہوگی اور ہیر کو پانے کے لیے رانجھے کے دل و دماغ کی ونجلی کتنی بار اور کتنی بجی ہوگی! ع
یہ ''بندۂ بلند‘‘ ملا جس کو مل گیا!
ایک بات ہم اور بتادیں۔ ذبیحے کے لیے قَصّاب کی تلاش آپ کو قَصّاب کی عظمت سے آشنا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ذات پر فخر کرنے کے قابل بھی بنائے گی کہ آپ وقت ضائع نہیں کر رہے بلکہ ایک نابغۂ روزگار کی تلاش میں نکلے ہیں!
ڈھنگ کے قَصّاب کی تلاش ذرا سی آگے بڑھے تو تحقیق کے درجے میں داخل ہو جاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ فی زمانہ مختلف شعبوں کے علوم و فنون میں کی جانے والی تحقیق کا معیار ایسا گِرا ہوا ہے کہ پی ایچ ڈی کرنا بھی وہی حیثیت اختیار کرگیا ہے جو غالبؔ کی نظر میں دُنیا کی تھی ع
بازیچۂ اطفال ہے دُنیا مِرے آگے
اگر یقین نہ آئے تو آج کل کے کسی پی ایچ ڈی سے کہیے کہ ذرا تحقیق کے جدید ترین طریق کو بروئے کار لاتے ہوئے عیدالاضحٰی کے پہلے دن کے لیے کسی قابلِ اعتبار قسم کے قَصّاب کا انتظام تو کیجیے۔ ہمیں یقین ہے کہ جب وہ آپ کے پسند کے قَصّاب کی تلاش میں نکلے گا تو اُس کی ساری پی ایچ ڈی دھری کی دھری رہ جائے گی اور پھر اُسے ڈھونڈنے کے لیے سی پی ایل سی کو متحرّک کرنا پڑے گا!
جو لوگ قَصّاب کی تلاش اور اُس سے معاملات طے کرنے کو ہلکا لیتے ہیں وہ اپنے جانور کی رَسّی تھامے ''زیر لب کے نیچے‘‘ فیضؔ کا یہ مصرع بڑبڑاتے رہتے ہیں ع
تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے
اپنی مرضی کا قَصّاب تلاش کرنا ہے تو جیسا لنگوٹ قَصّاب کستے ہیں کچھ کچھ ویسا ہی (تصوّر میں ہی سہی) لنگوٹ آپ بھی کس لیجیے۔ اب ہوگا یہ کہ لوگ آپ کو منزلِ مقصود یعنی ڈھنگ کے قَصّاب کا پتا بتاتے جائیں گے اور آپ بھاگم بھاگ پہنچیں گے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوگا کہ ''صاحب‘‘ تو پہلے ہی ''بُک‘‘ ہوچکے ہیں اور اب کال ریسیو کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کر رہے! ؎
نشاں بھی کوئی نہ چھوڑا کہ دل کو سمجھائیں
تِری تلاش میں جائیں تو ہم کہاں جائیں!
قَصّاب کا انتظام کرنے کے جاں گُسل مرحلے سے گزرنے کے دوران ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کسی سے ڈیل کرنے میں لیت و لعل اور حیل حُجّت سے کام لیتے ہیں اور ''سپنوں کے راج کمار‘‘ کو کسی اور ''رشکِ حُور‘‘ کا مالک لے اُڑتا ہے! اور آپ تاسّف کے ساتھ دل و دماغ تھام کر سوچتے رہ جاتے ہیں ؎
وہ کیا گئے کہ ہاتھ سے جاتا رہا یہ دل
میں دیکھ ہی رہا تھا کہ منظر بدل گیا!
معاملہ یہ ہے کہ جانور کے گلے پر چُھری کے پِھرنے سے پہلے قَصّاب کی معاوضے کی چُھری آپ کے شہ رگِ مبارک پر پِھرنے کے لیے بے تاب ہے۔ قَصّاب جو کچھ طلب کر رہے ہیں وہ ہم آپ کو بتا رہے ہیں مگر خدارا یہ مت سمجھیے گا کہ ہم آپ کو آئینہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دنیا نیوز نے گزشتہ روز کراچی کے قَصّابوں کی ریٹ لسٹ جاری کی ہے۔ بڑی گائے کے بیس ہزار، درمیانی کے پندرہ اور چھوٹی گائے کے دس ہزار روپے وصول کیے جارہے ہیں۔ بکرا ذرا بڑا ہو تو اُس کے بھی آٹھ ہزار تک طلب کیے جارہے ہیں!
کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں کا معاملہ اِس نہج کو پہنچ چکا ہے کہ اگر ذبیحے کے لیے اپنی مرضی کا قَصّاب مل جائے تو داد و تحسین کا شور سا برپا ہو جاتا ہے اور لوگ آپ کو نصیب کا دھنی قرار دیتے ہوئے بر وقت مبارک باد دیتے ہیں! سچ تو یہ ہے کہ قَصّاب سے ڈیل ہوجانے پر آپ بھی محسوس کریں گے کہ دل و دماغ پر دھرا ہوا عظیم الجُثّہ الجھنوں کا گٹھڑ اُتر گیا ... اور اللہ نے آپ کے لیے جو چند بڑی خوشیاں لِکھ رکھی ہیں اُن میں سے ایک آپ کو مل گئی! ؎
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کے
اُٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مِرے اِس دعا کے بعد!