"MIK" (space) message & send to 7575

جہاں چار یار مل جائیں …

لکھنے والے لکھ لکھ کر تھک گئے اور گلوکار گا گاکر ادھ موئے ہوگئے مگر کیا کیجیے کہ دوستی کا حق اب تک ادا نہیں ہوسکا۔ ہم نے بچپن میں سُنیل دت کی فلم ''غبن‘‘ کے لیے گایا ہوا محمد رفیع مرحوم کا گانا سُنا تھا جس کے بول تھے ؎ 
احسان میرے دل پہ تمہارا ہے دوستو! 
یہ دل تمہارے پیار کا مارا ہے دوستو! 
اس وقت بھی یعنی بچپن میں ہمارے کئی دوست تھے ان کے ساتھ وقت اتنی تیزی سے اور اتنی اچھی طرح گزرتا تھا کہ اس کے گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔ خالص دوستی تو بچپن ہی کی ہوا کرتی ہے۔ کیا زمانہ تھا کہ کسی بھی معاملے میں کچھ بھی ''تیرا، میرا‘‘ نہ تھا! ہم پر اور ہمارے تمام دوستوں پر ''من تو شدم، تو من شدی‘‘ کی کیفیت طاری رہتی تھی! دوستوں میں گزرتے وقت کی خوبصورتی نے دوستی پر ہمارا یقین مزید پختہ کردیا اور یوں فلم ''غبن‘‘ کا دوستوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوا گیت بھی ہمارے لیے زیادہ سُریلا ہوگیا۔ 
دوست کس کی زندگی میں نہیں ہوتے۔ وہ بہت ہی بدنصیب ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔ اچھے دوستوں میں برا وقت بھی دامن بچاتے ہوئے تیزی سے گزر جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ بڑے بڑے فلسفیوں، دانشوروں اور شعراء نے دوستی کے موضوع کا حق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے مگر اب تک بتا نہیں پائے کہ دوستوں میں بیٹھ کر انسان دل و دماغ پر کوئی بوجھ کیوں محسوس نہیں کرتا۔ اور بتائیں بھی کیسے؟ بیشتر فلسفی اور دانشور تو خود انسانوں سے بیزار ہوتے ہیں اور دوستی کو جھنجھٹ سے تعبیر کرتے ہیں! 
اللہ کا جس قدر بھی شکر ادا کیجیے کم ہے کہ اِس دنیا میں صرف فلسفی اور دانشور ہی نہیں بلکہ ماہرین بھی موجود ہیں جو تقریباً ہر موضوع اور اُس کی تمام شاخوں کو بھی تحقیق کے گھاٹ پر لاکر اعداد و شمار کے پانی میں بھگونے کے بعد ایسا ''دھوبی پٹخا‘‘ دیتے ہیں کہ سارا میل کچیل آن کی آن میں دور ہو جاتا ہے! ماہرین نے جب یہ دیکھا کہ ہم جیسے لوگ دوستی کے بارے میں پریشان سے رہتے ہیں تو کام پر لگ گئے۔ اور اب انہوں نے اپنی تحقیق کی روشنی میں بتایا ہے کہ دوستوں کی معیت میں وقت گزارنے سے درد اور تکلیف کا احساس اس لیے بہت کم رہ جاتا ہے کہ حلقۂ یاراں میں خوش گپیاں کرتے وقت جسم سے ایک خاص ہارمون ''اینڈروفن‘‘ خارج ہوتا رہتا ہے! 
نفسی علوم و فنون میں دسترس رکھنے والے بتاتے ہیں کہ درد کی شدت کم کرنے یا بڑھانے میں اینڈروفن کا کردار کلیدی نوعیت کا ہوا کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جو لوگ دوستوں کے جُھرمٹ میں رہتے ہیں وہ مزے میں رہتے ہیں۔ دوستوں کی سنگت میں جسم سے اینڈروفن خارج ہوتا رہتا ہے اور درد کی شدت میں کمی واقع ہوتی رہتی ہے۔ یعنی دوستوں میں بیٹھنے سے وہی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو آں جہانی کشور کمار کے گائے ہوئے اور امیتابھ بچن پر فلمائے ہوئے فلم ''شرابی‘‘ کے ایک گیت میں پائی جاتی ہے۔ گیت کا مکھڑا ہے ... جہاں چار یار مل جائیں وہیں رات ہو گلزار! 
یہ بات تو ٹھیک ہے کہ غم بھلانے کے لیے دوستوں میں وقت گزارنا چاہیے مگر دوستوں میں بہت زیادہ وقت گزارنا یعنی ہر وقت حلقۂ یاراں میں بیٹھ کر باقی تمام معاملات یکسر بھلا دینا بھی تو بجائے خود ایک بیماری ہے! اور یہ بیماری ہے بھی ایسی کہ ماہرین میں اس کا علاج دریافت کرنے کے حوالے سے تحقیق کرنے کی ہمت پیدا نہیں ہوئی!
بہت سے لوگ اپنے اینڈروفن کا خزانہ برق رفتاری سے خرچ یا ختم کرنے پر بضد رہتے ہیں! ایسے لوگ ذرا سا موقع پاتے ہی چار یاروں کا بندوبست کرکے محفل سجالیتے ہیں۔ اور پھر رات ایسی گلزار ہوتی ہے کہ گھر والے انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں۔ 
مرزا تنقید بیگ کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے جو ''جہاں یار مل جائیں ...‘‘ والے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے رات گلزار کرنے سے جُنون کی حد تک شغف رکھتے ہیں۔ وہ یاروں کے یار ہیں اور ایسے یار ہیں کہ گھر والے اُن سے (ظاہر ہے، بجا طور پر) بیزار ہیں۔ کوئی لاکھ سمجھائے، مرزا ہر وقت چار پانچ یاروں کو ایک پیج پر لاکر یعنی کسی سڑک چھاپ ہوٹل کی میز کے گرد جمع کرکے رات کے پردے سے گلزار برآمد کرنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں! دوستوں میں وہ اِس قدر اور اِس طرح چہکتے ہیں کہ پرندے اُنہیں دیکھ کر چہکنا بھول جاتے ہیں اور اُن سے چہکنے کے نئے (یعنی عجیب و غریب) انداز سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں! ہم نے اُنہیں جب بھی دوستوں کی محفل میں زندگی سے مُزیّن قہقہے لگاتے اور کُھل کر چہکتے دیکھا ہے، 1980 ء میں ریلیز ہونے والی سنجے خان اور زینت امان کی فلم ''عبداللہ‘‘ کے ایک گیت کا مکھڑا یاد آیا ہے جو کچھ یوں ہے ... جشنِ بہاراں، محفلِ یاراں آباد رہے! 
مرزا کو سَرخوشی کے عالم میں دیکھ کر اُن کے گھر کا ہر فرد ''زیرِ لب کے نیچے‘‘ فلم ''عبداللہ‘‘ ہی کے ایک اور گیت کا مکھڑا گنگنانے پر مجبور ہو جاتا ہے جو کچھ یوں ہے ؎ 
اے خدا! ہر فیصلہ تیرا مجھے منظور ہے 
سامنے تیرے تِرا بندہ بہت مجبور ہے! 
ہم نے زندگی بھر دوستیاں پالی ہیں۔ دوست بنانا اور دوستی برقرار رکھنا ایک بنیادی معاشرتی ضرورت ہی نہیں بلکہ باضابطہ فن بھی ہے! ہم یہ دعوٰی تو نہیں کرتے کہ ہم اِس فن کے مستند ماہر ہیں مگر ہاں، اتنا ضرور ہے کہ جو تھوڑی بہت شُدبُد ہم اِس حوالے سے رکھتے ہیں اُس پر نازاں رہنے سے گریز نہیں کرتے۔ مرزا سے ہماری لازوال قسم کی یاری دیکھتے ہوئے بہت سے لوگ تحفظات میں مبتلا رہتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ کالم والم تو ہم خیر جیسے تیسے لکھ لیتے ہیں مگر دوستی کے معاملے میں خاصے بُودے واقع ہوئے ہیں! ایسا نہیں ہے۔ مرزا ہمارے حلقۂ یاراں کا محض ایک حصہ ہیں۔ مرزا چونکہ تھوڑے سے وکھری ٹائپ کے ہیں اِس لیے نظروں میں آکر نمایاں رہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ اُن کی شعوری کوشش کا نتیجہ ہو! 
علامہ نے خوب کہا ہے ؎ 
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم 
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن! 
مرزا کی عظمت کے قربان جائیے کہ وہ بریشم کی طرح نرم ثابت ہونے کی کوشش کرنے کے بجائے حلقۂ یاراں کو بھی رزمِ حق و باطل کے میدان میں تبدیل کرکے خود کو فولاد ثابت کرنے پر بضد رہتے ہیں! 
مرزا کو جب ہم نے اینڈروفن والی بات بتائی تو چہک کر بولے، ''دیکھا تم نے؟ اچھا ہے کہ ہم ماہرین کی تحقیق اور تجزیوں کی راہ نہیں تکا کرتے ورنہ بہت سے مزوں سے خواہ مخواہ محروم رہ جاتے۔ ہم زندگی بھر جو کرتے آئے ہیں اب ماہرین اُسے درست ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ 
ہم مرزا سے کیا کہتے؟ اب آپ سے کیا پردہ؟ قبر کا حال تو مردہ ہی جانتا ہے۔ مرزا سے دوستی کا ہم نے جس طور بھگتان کیا ہے وہ کچھ ہم ہی جانتے ہیں! مرزا بات بات پر اپنی جَِدّی پُشتی، روایتی تنک مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ہم سہتے ہیں! وہ بات بات پر روٹھتے ہیں اور ہمیں منانا ہی پڑتا ہے۔ ؎ 
کچھ ہم ہی جانتے ہیں جتن ہم نے جو کیے 
اُن کی جبیں کا کتنی مشقّت سے بَل گیا! 
دوستوں کی معیت میں مرزا بہت خوش رہتے ہیں یعنی خوب اینڈروفن خارج ہوتا ہے۔ مگر کبھی خود مرزا نے سوچا ہے کہ اُن کے دوستوں کا کیا حال ہے؟ کبھی اُنہیں احساس ہوا ہے کہ اپنے جسم سے اینڈروفن خارج کرنے کے لیے وہ جو کچھ کرتے ہیں اُس سے دوستوں کا حشر نشر ہو جاتا ہے یعنی اُن بے چاروں کا تو تیل ہی نکل جاتا ہے! 
ماہرین نے دوستوں کی معیت میں اینڈروفن کے اخراج سے طبیعت کے ہشّاش بشّاش ہونے سے متعلق تحقیق کے نتائج تو بیان کردیئے مگر کسی کی طبیعت بحال رکھنے کی جو قیمت اُس کے دوستوں کو ادا کرنا پڑتی ہے اُس کے حوالے سے وہ خاموش ہیں۔ شاید اِس حوالے سے ابھی تک تحقیق نہیں فرمائی گئی۔ ماہرین سے ہمیں یہی شکایت رہی ہے کہ جہاں اُنہیں لازمی طور پر کچھ نہ کچھ بولنا چاہیے وہاں وہ اپنے ہونٹوں پر چُپ کی مہر لگاکر ایک طرف ہوجاتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں