"MIK" (space) message & send to 7575

لنکا ڈھانے کا فیشن

امیدوں کے مرکز کو ہدفِ تنقید بنتے کیا دیر لگتی ہے۔ کچھ بھی الٹا سیدھا کہیے اور میڈیا کی مہربانی سے خبروں میں ''اِن‘‘ ہو جائیے۔ ویسے تو یہ بات اب تقریباً تمام ہی سیاست دانوں پر لاگو ہوتی ہے مگر عمران خان نے شاید اپنے دل و دماغ کو اِس کے لیے وقف کردیا ہے۔ وہ رفتہ رفتہ چومکھی لڑائی کے شوقین ہوتے جارہے ہیں۔ ایک طرف وہ پاناما لیکس کا معاملہ آگے بڑھ رہے ہیں اور دوسری طرف پیپلز پارٹی کو بھی مشتعل کرنے والی باتیں کرتے جاتے ہیں۔ اور ایم کیو ایم سے اُن کا ویسے ہی چھتیس کا آنکڑا چل رہا ہے! 
عمران خان کے خلاف پیپلز پارٹی اور ن لیگ والے بول ہی رہے تھے۔ لوگ سُن رہے تھے اور سُن کر سَر بھی دُھن رہے تھے۔ ایسے میں مخدوم جاوید ہاشمی بھلا کیوں چُپ رہتے؟ اُنہوں نے بھی دبنگ ٹائپ کی انٹری دی ہے یعنی پھٹ پڑے ہیں۔ وہ گھر کے بھیدی کا روایتی کردار ادا کرنے پر بضد ہیں یعنی پی ٹی آئی کی لنکا ڈھانے کے آرزو مند ہیں۔ ؎ 
عشق میں جاں سے ہاتھ دھونا تھا 
یہ تو ہوتا ہے، یہ تو ہونا تھا 
دل اور دماغ میں بہت کچھ ہو تو انسان اندر ہی اندر جلتا کڑھتا اور اپنے آپ سے الجھتا رہتا ہے۔ جاوید ہاشمی بھی انسان ہی ہیں۔ اور پھر عمر کی اُس منزل میں ہیں کہ جس میں دل پر اختیار رہتا ہے نہ دماغ پر قابو۔ یہ کم بخت بریکنگ نیوز دینے کی بیماری ایسی ہے کہ ایک بار لگ جائے تو انسان دیکھتے ہی دیکھتے لاعلاج ہو رہتا ہے۔ انکشاف کے نام پر میڈیا کو کچھ نہ کچھ بتاتے رہنے کا نشا بھی عجیب ہی ہے۔ ع 
چُھٹتی نہیں ہے مُنہ سے یہ کافر لگی ہوئی 
وہ زمانہ کب کا جاچکا کہ لوگ شادی کی تقریب میں دولہا اور دلہن پر توجہ مرکوز رکھتے تھے اور اُنہیں نئی زندگی شروع کرنے کی مبارک باد دینے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ اب شادی کی تقریب میں اتنی رنگا رنگی اور ہماہمی ہوتی ہے کہ دولہا اور دلہن کا وجود تو محض زیبِ داستاں کی مَد میں دکھائی دیتا ہے! لوگ میرج ہال کی چمک دمک دیکھتے ہیں، دوسروں کی آرائش و زیبائش پر دھیان دیا جاتا ہے اور مینو پر بھی نظر رہتی ہے۔ شادی سے متعلق اوٹ پٹانگ رسموں کا اپنا چٹخارا ہے۔ اگر اتنی بہت سی مصروفیات سے کچھ وقت بچ رہے تو لوگ دولہا دلہن کو نئی زندگی کی مبارک باد بھی دے لیتے ہیں۔ 
ہماری سیاست کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ سیاست جس کام کے لیے ہوا کرتی ہے اُس کے سِوا تمام کام کر رہی ہے۔ قومی مسائل، بحران اور چیلنج ... سب ایک طرف دھرے ہیں۔ جن کے ہاتھ میں سیاسی اُمور کی باگ ڈور ہے وہ خدا جانے کون سی دنیا کے ہیں کہ اپنی زمین اور اپنے ہی لوگوں کو نظر انداز کرکے عجب طرح کے تماشوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ 
2014 کے دھرنے کا پوٹلا ایک بار پھر کھل گیا ہے۔ تحریک انصاف کے مخالفین جو کچھ کہتے آئے ہیں اُس پر فاتحہ پڑھیے یا پھر لعنت بھیجیے۔ یہاں تو معاملہ گھر کے بھیدی کا ہے۔ دھرنے کے اختتامی لمحات میں مخدوم جاوید ہاشمی نے اپنی راہ الگ کرلی تھی۔ جو ن لیگ سے طویل المیعاد وابستگی ختم کرکے نیا پاکستان بنانے والوں کے ساتھ چلا تھا وہ تحریک انصاف کا حصہ بھی نہ رہا۔ سوال اُصولوں پر کاربند رہنے کا تھا۔ جاوید ہاشمی نے دھرنے میں کوئی ایسی ویسی بُو سُونگھ لی تھی۔ اُنہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ ع 
کوئی معشوق ہے اِس پردۂ زنگاری میں 
اور جب ''معشوق‘‘ کا جلوہ نکھر اور ابھر کر سامنے آنے لگا تو جاوید ہاشمی نے سوچا عزتِ سادات بچانے کا ایک ہی راستہ ہے ... یہ کہ الگ ہوجائیے۔ مگر اے وائے ناکامی کہ تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ سیاست اور اداکاری (بالخصوص کامیڈی) میں ٹائمنگ ہی تو اہم ہوتی ہے، باقی سب کچھ تو بھرتی کا ہوتا ہے۔ جاوید ہاشمی نے دھرنے کے نام پر بسائے جانے والے جنجال پورہ کو خیرباد کہنے میں بھی دیر کردی تھی اور اب گھر کے بھیدی کی حیثیت سے لنکا ڈھانے کے معاملے میں بھی وہ تاخیر ہی کے مرتکب ہوئے ہیں! 
جاوید ہاشمی نے عمران خان اور اُن کے دھرنے کے بارے میں انکشافات کا سلسلہ شروع کیا تو ع 
آپ سے تم، تم سے تُو ہونے لگی! 
معاملہ یہاں تک بڑھا کہ عمران خان نے جاوید ہاشمی کی ذہنی صحت کے بارے میں اپنی خاصی غیر موافق رائے بھی میڈیا کے سامنے بیان کردی۔ تحریک انصاف کے سربراہ کہتے ہیں کہ جاوید ہاشمی کا دماغی توازن درست نہیں۔ اِس کے جواب میں جاوید ہاشمی کہتے ہیں کہ ہم دونوں کا دماغی معائنہ کرالیا جائے۔ ساتھ ہی اُنہوں نے قوم کو ''نوید‘‘ بھی سُنائی کہ پاگل خانے کی رپورٹ آگئی تو قوم کو نجات مل جائے گی۔ اِس جُملے میں جاوید ہاشمی نے خاصا ابہام رہنے دیا ہے۔ وضاحت نہیں کی کہ کس کے بارے میں پاگل خانے کی رپورٹ آنے سے قوم نجات پائے گی! اِس قوم کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ سیاست کے خار زاروں میں بھٹکنے والے اپنی باتوں میں اچھا خاصا ابہام رہنے دیتے ہیں جس کے نتیجے میں قوم کے لیے سوچنے اور قیاس کے گھوڑے دوڑاتے رہنے کی اچھی خاصی گنجائش باقی رہتی ہے! 
جاوید ہاشمی نے ''انکشاف‘‘ فرمایا ہے کہ 2014 ء کا دھرنا اسکرپٹڈ تھا۔ ہم حیران ہیں کہ قوم جو بات دھرنے کے زمانے ہی سے جانتی ہے اُسے جاوید ہاشمی انکشاف کے زُمرے میں رکھ کر کیوں بیان کر رہے ہیں! ان کا یہ بھی دعوٰی ہے کہ جہانگیر ترین کے بقول پانچ لاکھ بندے جمع کرلیے جاتے تو امپائر کی انگلی ضرور اٹھتی۔ مشکل یہ تھی کہ بہت محنت کرنے پر کوئی بڑا تیر نہ مارا جاسکا۔ لے دے کر (یعنی ڈاکٹر طاہرالقادری کے جاں نثاروں کو ملاکر بھی) 35 ہزار سے زائد بندے جمع نہ کیے جاسکے۔ جہانگیر ترین کے حوالے سے یہ بات پڑھ کر ہماری تو ہنسی چُھوٹ گئی۔ آخر آخر میں تو دھرنا چار پانچ سو افراد کی حاضری تک محدود ہوگیا تھا یعنی اِسے ''دھرنی‘‘ بھی نہیں کہا جاسکتا تھا! ایسے میں کسی جیتے جاگتے امپائر کی انگلی تو خیر کیا اُٹھتی، کھیتوں میں کھڑے کیے جانے والے پُتلے کی طرز کا ڈمی امپائر بھی میدان میں نہیں لایا جاسکتا تھا! 
جاوید ہاشمی کا یہ بھی کہنا ہے کہ دھرنے کے دوران قدم قدم پر کہیں سے اسکرپٹ آتا تھا اور اُسی کے مطابق فیصلے ہوتے تھے۔ اور یہ بھی کہ وہ (جاوید ہاشمی) کئی مواقع پر فیصلوں سے اختلاف کرتے ہوئے ایک طرف ہوگئے اور ایک مرحلے پر تو ملتان بھی چلے گئے۔ 
جو کچھ جاوید ہاشمی نے کہا ہے اُس کا مفہوم یہ ہے کہ عمران خان اور اُن کے ہم خیال افراد نے آرڈر پر مال تیار کیا تھا۔ اور یہ کہ 2013 ء کے عام انتخابات میں پنجاب سے تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی نشستیں توقع سے کہیں کم نصیب ہوئیں تو عمران خان پر بے حواسی اور قنوطیت طاری ہوئی اور انہوں نے (بظاہر انتقاماً) پوری قوم کو ذہنی خلفشار سے دوچار کردیا۔ 
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جاوید ہاشمی یہ کہتے رہے ہیں کہ دھرنے کے دوران اُس وقت کے آرمی چیف سے عمران خان کی ملاقات کے فیصلے میں ان کی (جاوید ہاشمی) کی مرضی بھی شامل تھی۔ اُن کی سُوئی اس نکتے پر رُکی ہے کہ ن لیگ کی حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے عدلیہ کو استعمال کیا جانا تھا اور یہ کہ سپریم کورٹ کی تعطیلات منسوخ (یا ملتوی) کیے جانے پر بھی اُن کا ماتھا ٹھنکا تھا۔ 
ٹھیک ہے، مگر سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ اب کیوں بیان کیا جارہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لنکا ڈھانے کا فیشن سا چل پڑا ہے۔ گھر کے بھیدی موقع دیکھ کر میڈیا کے سامنے آتے ہیں اور اندر کی باتیں بیان کرکے کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ گزشتہ برس ایم کیو ایم کی صفوں میں انتشار پیدا ہونے سے شروع ہوا تھا۔ اور اب گھر کے وہ بھیدی بھی (نہ چاہتے ہوئے) لنکا ڈھانے پر مائل ہیں جن کی گردنیں سانحہ بلدیہ کیس کے شکنجے میں پھنس چکی ہیں! 
گھر کے بھیدیوں سے التماس ہے کہ قوم کو مزید پریشان نہ کریں۔ اس قوم کو انکشافات سے کہیں زیادہ way out کی ضرورت ہے۔ مسائل کی اصلیت بیان کرنا مستحسن عمل سہی، کوئی حل بھی تو تجویز کیا جائے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اندر کی باتیں بتانے والوں کا محاسبہ کیوں نہ کیا جائے کہ جن معاملات کو قومی مفادات کے خلاف بتاکر سامنے لایا جارہا ہے اُن میں وہ خود بھی تو ملوث رہے! سیاسی ٹرین یا ٹریک تبدیل کرنے والوں کو بھی تو خراب معاملات کا ذمہ دار ٹھہراکر محاسبے اور محاکمے کے مرحلے سے گزارا جائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں