"MIK" (space) message & send to 7575

شیر کی دُم پر پاؤں

روس پر ہیکنگ کا الزام عائد کرکے امریکا نے نئی، ابھرتی ہوئی سرد جنگ کے پہلے اقدام کی مد میں 35 سفارت کاروں کو نکال دیا ہے۔ کیا واقعی اِسے نئی سرد جنگ کا آغاز سمجھیے؟ محسوس تو کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ مگر کیا اب سرد جنگ کی گنجائش ہے؟ امریکا تو اب سرد جنگ پر یقین ہی نہیں رکھتا۔ اُس کے ہاتھوں برپا ہونے والی گرم جنگوں نے دنیا کا حشر نشر کر رکھا ہے۔ 
امریکا اور روس میں کشیدگی شام کے مسئلے نے زیادہ بڑھائی ہے۔ دونوں بڑی طاقتوں کے معاملات آپس میں بُری طرح الجھ کر رہ گئے ہیں۔ امریکا اپنی برتری ہر حال میں برقرار رکھنا چاہتا ہے اور دوسری طرف روس کھویا ہوا وقار بحال کرنے کی تگ و دَو میں مصروف ہے۔ گویا ع 
دونوں طرف سے آگ برابر لگی ہوئی 
امریکا چاہتا ہے کہ واحد سپر پاور کا اسٹیٹس برقرار رہے، بات بنی رہے۔ یہ سب اِس لیے بھی ہے کہ امریکی قیادت کی پیدا کردہ خرابیاں بہت زیادہ ہیں۔ واشنگٹن کے پالیسی میکرز کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ جب بھی طاقت میں فیصلہ کن حد تک کمی واقع ہوگی، فیصلہ ہوجائے گا۔ مظلوم اقوام کو جب کبھی یہ اندازہ ہوگا کہ امریکا اب شیر نہیں، بوڑھا شیر ہے تب ہی مل کر اُسے مارنے کا سلسلہ بھی شروع کردیں گی۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی واشنگٹن کے بزرجمہر کچھ سمجھنے اور زمینی حقیقتوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ 
دوسری طرف یورپی یونین ہے جو سمجھ چکی ہے کہ اب تنِ تنہا دال گلنے والی نہیں۔ وہ امریکا کے ساتھ ایک طرف کھڑی ہوکر باقی دنیا کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک نہیں سکتی۔ یورپی یونین کے اعلیٰ ترین ذہن اس حقیقت کا ادراک کرچکے ہیں کہ امریکا کی ہاں میں ہاں ملاتے رہنے کا وقت گزر چکا ہے۔ ایسے میں دانش اور زمینی حقائق دونوں ہی کا تقاضا ہے کہ بردبادی اختیار کی جائے، معاملات کو جذباتیت کی عینک لگاکر نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ کسی بھی معاملے کے ہر پہلو پر ٹھنڈے دماغ سے غور کرنا لازم ہے۔ یہی سبب ہے کہ یورپی یونین نے اپنی راہ الگ کرلی ہے۔ وہ ہر معاملے میں امریکا کے ساتھ مل کر چلنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ ایسا کرنے میں خطرات زیادہ ہیں۔ امریکا کو دوست کے نام پر حاشیہ بردار اور دشمنیاں پالنے کا شوق ہے۔ ایسے میں یورپی یونین کے پاس ایک ہی آپشن بچا ہے ... یہ کہ ایک طرف بیٹھ کر ''تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو‘‘ والے مقولے پر عمل کیا جائے۔ 
برطانیہ چونکہ امریکا کے معاملے میں اب تک ''ٹرانس‘‘ میں ہے اس لیے یورپی یونین کے ساتھ چلنا اُس کے لیے بہت مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ یورپ کی سامراجی قوتوں میں برطانیہ سب سے نمایاں رہا ہے اور امریکا کے ساتھ مل کر اس نے دنیا بھر میں خاصے تواتر سے اِتنی خرابیاں پیدا کی ہیں کہ اب اس امر سے خائف رہنے لگا ہے کہ دنیا کو موقع مل گیا تو وہ کیا نہ کرے گی! 
امریکا اور روس کے درمیان بنیادی تنازع طاقت منوانے کا ہے۔ امریکا کی طاقت میں کمی کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ گویا ''افاقہ‘‘ ہو رہا ہے مگر واشنگٹن کے بزرجمہر اِس حقیقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ وہ اب تک 1950 اور 1960 کی دہائی میں جی رہے ہیں۔ طاقت کے مرکز کی تبدیلی کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ یہ عمل دن بہ دن تیز ہوتا جارہا ہے۔ تجزیہ کاروں کی اس پیش گوئی کو تین دہائیوں سے بھی زائد مدت گزر چکی ہے کہ اکیسویں صدی میں ایشیا ایک بار پھر طاقت کے مرکز کی حیثیت سے ابھرے گا اور چین اُس کا قائد ہوگا۔ چین اور روس نے اس پیش گوئی کا حق ادا کرنے کی راہ پر سفر شروع کردیا ہے۔ 
امریکا اور یورپ کے لیے یہ وقت غیر معمولی اور حقیقت پسندانہ فیصلہ سازی کا ہے۔ انہیں ایسے فیصلے کرنے ہیں جو معاملات کو سلجھائیں، دنیا کو زیادہ پُرسکون اور مستحکم رکھنے میں مدد دیں۔ امریکا اور یورپ کے سامنے اب ایک ہی آپشن بچا ہے ... یہ کہ نئی اُبھرتی ہوئی قوتوں کو بھی تسلیم کریں اور جنگ و جدل کے ذریعے اُن کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بجائے اشتراکِ عمل کی راہ پر گامزن ہوکر بہتر نتائج پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ یورپی یونین نے تو یہ بات بہت حد تک سمجھ لی ہے مگر امریکا کے اربابِ بست و کشاد کچھ بھی سمجھنے کے لیے بظاہر تیار نہیں۔ 
روس عالمی طاقت رہا ہے۔ مشرقی یورپ، وسطِ ایشیا اور مشرق بعید کے خطوں میں اُس کی بات سُنی اور مانی جاتی رہی ہے۔ اپنے بہت اچھے وقت میں بھی بھرپور سامراجی قوت بننے سے اُس نے حتی الوسع گریز کیا۔ سابق سوویت یونین کے دور میں سوویت بلاک کے مقابل امریکا اور یورپ نے مل کر آزاد دنیا کا تصور پیش کیا۔ مگر اِس نام نہاد آزاد دنیا کو اِس ''احسان‘‘ کی کتنی بھاری قیمت چکانا پڑی یہ بات وہی لوگ جانتے اور سمجھتے ہیں جن پر یہ قیامت گزری۔ 
کئی ممالک، بلکہ خطے امریکا اور یورپ کی جاہ و حشم پرستی کے ہاتھوں تاراج ہوکر رہ گئے۔ امریکا نے کمزور ترین اقوام کے مقدر سے کِھلواڑ میں کبھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ پہلے جنوبی امریکا میں نکارا گوا، پاناما، کیوبا اور دیگر ممالک کو کمزور تر اور پھر تباہ کیا۔ اِس کے بعد مشرق بعید میں خرابیاں پھیلانے کا عمل شروع کیا گیا۔ ویتنام کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ کسی جواز کے بغیر اِس ملک پر چڑھائی کی گئی اور پھر اِسے تاراج کردیا گیا۔ اور اب امریکا کی سلامتی یقینی بنائے رکھنے کے نام پر نام نہاد ''وار آن ٹیرر‘‘ کی آڑ میں عراق، لیبیا، شام اور یمن کو تباہی سے دوچار کردیا گیا ہے۔ اور یہ عمل تھما نہیں، جاری ہے۔ یمن کے باغیوں کو سعودی عرب میں خرابیاں پیدا کرنے پر اُکسایا جارہا ہے۔ بحرین میں بھی شیعہ سُنّی اختلافات کے شعلوں کو پوری تیاری کے ساتھ ہوا دی جارہی ہے۔ امریکا اور برطانیہ نے مل کر ایران کی سرپرستی کے ذریعے مشرق وسطٰی میں جو آگ بھڑکائی ہے اُس کی لپیٹ میں مزید ممالک بھی آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ 
امریکا کو ہر وہ ملک بُرا لگتا ہے جو اُس کی بالا دستی کے لیے ذرا بھی خطرہ بننے کی صلاحیت اور سکت رکھتا ہو۔ جب بھی کوئی ملک کسی شعبے میں مضبوط ہونے لگتا ہے، امریکی پالیسی میکرز کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ امریکا کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔ شیر کو یہ پسند نہیں کہ کوئی اُس کی دُم پر پاؤں رکھے۔ چین اور چین کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اِن دونوں کی بڑھتی ہوئی طاقت شیر کو اپنی دُم پر پاؤں جیسی محسوس ہو رہی ہے۔ 
چین کو مختلف تنازعات میں الجھانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ چین فی الحال عالمی سطح پر ''برادرِ بزرگ‘‘ کا کردار ادا کرنے کے مُوڈ میں نہیں۔ اور اس کا سبب بھی کچھ ایسا پیچیدہ نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ امریکا، برطانیہ اور جاپان چاہتے ہیں کہ چین عالمی معاملات میں overture کا مظاہرہ کرے یعنی مختلف مناقشوں میں الجھے۔ ایسا ہوا تو چین کے لیے چند ایک معاملات میں الجھنیں پیدا ہوں گی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عسکری مہم جُوئی پر مجبور ہونا پڑے۔ امریکا اور اس کے حلیف چاہتے ہیں کہ چین hard power یعنی عسکریت کی طرف آئے۔ دوسری طرف چینی قیادت چاہتی ہے کہ soft power یعنی جدید علوم اور اُن سے متعلق فنون میں غیر معمولی مہارت اور پرجوش معاشی سرگرمیوں کے ذریعے طاقت میں اضافہ کیا جائے۔ چین فی الحال کسی بھی ملک یا خطے کے خلاف جانے کے لیے تیار نہیں۔ امریکا نے تائیوان کے معاملے میں بھی چین کو الجھانے اور بپھرنے پر اکسانے کی اپنی سی کوشش کی ہے مگر بیجنگ کے پالیسی میکرز پکڑائی دینے کو تیار نہیں۔ 
اور اب روس کو اکسایا جارہا ہے۔ ولادیمیر پیوٹن نے ڈیڑھ عشرے سے بھی زائد مدت کے دوران روس کو دوبارہ توانا کرنے اور کچھ قابل ذکر کرنے کے قابل بنانے کے لیے ان تھک محنت کی ہے۔ اِدھر ہمارا شیر ہے کہ پورے جنگل کو باپ کی جاگیر سمجھنے کی ذہنیت سے دست بردار ہونے کو تیار ہی نہیں۔ دوسروں کی ترقی، خوش حالی، استحکام اور طاقت کو وہ اپنی دُم پر پاؤں کی طرح محسوس کرتا ہے۔ 
چین اور روس اب روزِ روشن کی طرح واضح اور نمایاں ہوکر میدان میں آچکے ہیں۔ ایشیا کی دیگر اُبھرتی ہوئی معیشتیں بھی اُن کی ہم نوا ہیں اور مغرب کا دامن جھٹکنے کو تیار و بے قرار ہیں۔ بابائے اردو کہا کرتے تھے کہ پہلوان اور طوائف کا بڑھاپا بہت گندا گزرتا ہے۔ ہم پہلوانوں کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں نہ طوائفوں کے بارے میں مگر ہاں، اِتنا ضرور جانتے ہیں کہ شیر بوڑھا ہو جائے اور شکار کرنے کی طاقت جاتی رہے تو جنگل میں اُس کا حال شہر کے آوارہ کتوں سے بدتر ہوتا ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں