تین چار برس پہلے تک عالم یہ تھا کہ بہت ڈھونڈنے پر بھی کراچی کا نشان نہ ملتا تھا۔ کہنے کو شہر تھا مگر انداز ویرانے کا تھا۔ ان گنت رنگین کہانیوں کو جنم دینے والا نگر خود افسانہ سا ہوکر رہ گیا تھا۔ ہر شہر کی طرح کراچی میں بھی کچھ لوگ تھے جو ہر معاملے کو درست کرنے اور شہر کے مکینوں کے لیے زندگی آسان بنانے کے ذمہ دار تھے مگر وہ اپنا فرض بُھلا بیٹھے تھے۔ کسی کو بظاہر اِس بات سے کچھ غرض نہ تھی کہ شہر کا کیا بنے گا یا کیا نہیں بنے گا۔ اور بعض معاملات میں تو کراچی بھی کسی سے شِکوہ کرکے اپنا سا منہ لے کر، شرمندہ سا ہوکر رہ جاتا تھا۔ ؎
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ کشتۂ تیغِ ستم نکلے!
یہ سب کچھ ایک مدت سے چلتا آیا تھا اور تین چار برس پہلے تک معاملہ کچھ یہی تھا۔ پھر قدرت کو کچھ رحم آیا اور آسمانوں میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ شہر کو کسی حد تک سُکون سے ہم کنار کیا جائے۔
امن کہ ایک نایاب سی چڑیا تھی، کراچی میں پھر اُڑتی دکھائی دینے لگی۔ شہر کو طویل مدت سے جس استحکام کی تلاش تھی وہ کہاں تو ڈھونڈے سے نہیں ملتا تھا اور جب ملا تو یوں کہ شہر کے مکینوں کو بھی اپنی آنکھوں (اور مقدر) پر یقین نہ آیا۔ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر جاری کیے جانے والے سرکاری فنڈز کی بندر بانٹ اور لُوٹ مار اپنی جگہ، شہریوں سے سڑکوں پر بلکہ گلی کوچوں میں بھی لُوٹ مار کا بازار ایسا گرم تھا کہ ٹھنڈا ہونے کا نام نہ لیتا تھا۔ مگر جب اوپر والوں نے سوچا کہ اب یہ سب تھمنا چاہیے تب تھمنے لگا اور شہر اپنی کھوئی ہوئی شان بحال کرنے میں کسی حد تک کامیابی سے ہم کنار ہوتا دکھائی دیا۔
بہت کچھ ہے جو ٹھیک ہوگیا ہے مگر دوسرا بہت کچھ ہے کہ ٹھیک ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ شہر میں پہلی سی لُوٹ مار نہیں۔ ٹارگٹ کلنگ پر بھی بہت حد تک قابو پالیا گیا ہے۔ کراچی میں راتیں جاگا کرتی تھیں۔ اب پھر کراچی رات رات بھر جاگ رہا ہے۔ اور دن کا اُجالا بھی پہلے سے بڑھ کر اُجلا اور چمکیلا ہے۔ حالات کی خرابی سے بہت سے علاقوں کی مارکیٹ ویلیو ایسی گری تھی کہ اٹھنے کا نام نہ لیتی تھی۔ امن کی بحالی اور قدرے استحکام نے دوسرے بہت سے معاملات کی طرح پراپرٹی مارکیٹ کو بھی نئی زندگی بخش دی ہے۔ جن علاقوں کے لوگ ڈھنگ سے کاروبار کرنے کا سوچنے سے بھی گریز کرتے تھے اُن تمام علاقوں میں کاروباری سرگرمیوں نے ایسا زور پکڑا ہے کہ لین دین کی پِھرکی گھومتی ہی جارہی ہے۔
یہ سب تو بہت اچھا ہے اور اہلِ کراچی کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ یقیناً، ہر حال میں اللہ کا شکر فرض ہے۔ مگر کیا کیجیے کہ کراچی تو بہت حد تک جاگ گیا، اہل کراچی کا مقدر مجموعی طور پر خوابیدہ ہی ہے۔ شہر کا حال چند معاملات میں بہتر ہے تو دوسرے متعدد معاملات میں بدتر۔
ایک عشرے سے بلدیاتی اداروں کے اختیارات کا معاملہ اونٹ کے مانند چل رہا ہے۔ کچھ اندازہ ہی نہیں ہو پارہا کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یعنی بلدیاتی اداروں کو موعود و مطلوب اختیارات دیئے جائیں گے یا نہیں۔ جو منتخب ہوکر بلدیاتی اداروں میں آئے ہیں ان کا شِکوہ ہے کہ اختیارات دیئے ہی نہیں گئے تو کام کیا کریں۔ دوسری طرف صوبائی حکومت دعوے کرتی نہیں تھک رہی کہ بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات دیئے جاچکے ہیں مگر وہ کام کرنے سے گریزاں ہیں! وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے دو دن قبل ہی کہا ہے کہ کراچی کے میئر کو تمام اختیارات حاصل ہیں، اب وہ شہریوں کی خدمت بجا لانے پر توجہ دیں۔ شہری یہ تماشا دیکھ کر دم بخود ہیں۔ اُن کی سمجھ نہیں نہیں آرہا کہ جو تھوڑی بہت خرابیاں رہ گئی ہیں وہ کیسے دور ہوں گی، صوبائی حکومت اور مقامی اداروں کے درمیان سرد جنگ کس طور ختم ہوگی اور مسائل کے حل کی راہ کس طرح اور کب ہموار ہوگی۔
ہر سال یہ ہوتا ہے کہ بہت سے ترقیاتی منصوبے شروع ہی نہیں ہو پاتے اور ان کی مد میں رکھے ہوئے فنڈز ''لیپس‘‘ ہو جاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جب مالی سال ختم پر آتا ہے تب بہت کچھ تیزی سے کیا جانے لگتا ہے۔ ادھورے ترقیاتی منصوبوں کو تیزی سے مکمل کرنے کی دوڑ سی شروع ہوجاتی ہے۔ مئی اور جون میں ترقیاتی فنڈز تیزی سے خرچ کرنے کا مقابلہ شروع ہوتا ہے اور ہر محکمہ اس معاملے میں باقی سب کو پچھاڑنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ سال کے آخر تک جوش و جذبہ سَرد پڑنے لگتا ہے۔
اب کے کچھ الگ سے ہوا ہے۔ کراچی میں اکھاڑ پچھاڑ یعنی کھدائی اور پھر بھرائی کا عمل جاری ہے۔ یہ ہنگام اور ہنگامہ ہے گرین بس منصوبے کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کا۔ سُرجانی ٹاؤن سے گرو مندر اور وہاں سے ٹاور تک بسوں کے لیے بالائی گزر گاہ اور جنگلے والا روٹ تیار کیا جارہا ہے۔
اہل کراچی کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا کہ ان کا مقدر جاگنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ماس ٹرانزٹ منصوبے اب تک کاغذوں ہی پر رہے ہیں۔ شہر میں ریلوے ٹریک موجود ہے مگر اُسے فعال کرنے پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ جاپان نے اس معاملے میں دلچسپی لی تھی مگر پھر شاید معاملات سُرخ فیتے کی نذر ہوگئے۔ اب گرین بس منصوبہ رُو بہ عمل ہے۔ خاصے طویل روٹ پر کھدائی جاری ہے جس کے باعث لاکھوں افراد کی پریشانی بڑھ گئی ہے۔ کئی علاقے دُھول سے اٹے ہوئے ہیں۔ ترقیاتی منصوبے جب تکمیل کے مختلف مراحل سے گزرتے ہیں تو ایسا ہوتا ہی ہے مگر کام منصوبہ بندی کے تحت تو ہونا ہی چاہیے۔ بعض مقامات پر متبادل روٹ کا اہتمام کیے بغیر ہی سڑکیں کھود دی گئی ہیں۔ اور ایسا بھی ہوا ہے کہ سڑک کے بیچ کوئی گڑھا کھودنے کے بعد اُسے بھرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ اب بارش کے بعد لوگوں کے لیے اندازہ لگانا دشوار ہوگیا ہے کہ کہیں محض پانی پڑا ہوا ہے یا گڑھا بھرا ہوا ہے۔ ایسے میں حادثات کی تعداد میں اضافہ بھی فطری امر ہے۔
اہل کراچی عنایت کے طالب و خواستگار ہیں مگر عنایت ایسی ہونی چاہیے کہ زندگی آسانی کی طرف بڑھے۔ ترقیاتی منصوبوں کا بنیادی مقصد مشکلات میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔ شہر بھر میں تقریباً تیس لاکھ افراد روزانہ کام پر جانے کے لیے طویل فاصلہ کرتے ہیں۔ اُن کے لیے بہت پہلے یعنی اُس وقت سوچا جانا چاہیے تھا جب شہر میں بہت کچھ نہیں بنا تھا۔ اب اگر کسی ایک علاقے میں ماس ٹرانزٹ منصوبے کے تحت کام شروع کیجیے تو ہزاروں افراد کی معاشی سرگرمیاں داؤ پر لگ جاتی ہیں۔ متعدد مقامات پر سرکاری زمین پر لوگ جم کر بیٹھ گئے ہیں۔ اُنہیں اٹھائیے تو ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔ انتظامی مشینری اُس وقت کہاں سو رہی تھی جب سرکاری زمینوں پر قبضہ جمایا جارہا تھا۔ بہت سے علاقوں میں غیر قانونی طور پر تعمیر کی جانے والی اضافی منزلیں گرائی جارہی ہیں۔ ان منزلوں کی تعمیر کے وقت متعلقہ ادارے کیا کر رہے تھے؟ یہی حال میدانوں پر قبضوں کا بھی ہے۔
چند برس پہلے بھی ایسی ہی کیفیت پیدا ہوئی تھی۔ شہر بھر میں ترقیاتی منصوبوں پر اچانک اتنی تیزی سے کام شروع ہوا تھا کہ متعدد علاقوں کا حلیہ بدلنے سے لوگوں کے لیے مکان تو مکان، راستہ ڈھونڈ نکالنا بھی انتہائی دشوار ہوگیا تھا! اِس سے بھی پہلے جب چورنگیاں ختم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا تب لوگوں کے لیے شہر کے بیشتر علاقے بُھول بُھلیّاں ہوکر رہ گئے تھے۔ لوگ جہاں جانے کے لیے گھر سے نکلتے تھے اُس سے بہت دور، کسی دوسری سمت خاصا سفر کرکے اندازہ ہوتا تھا کہ ع
نکلے تھے کہاں جانے کیلئے پہنچے ہیں کہاں معلوم نہیں
چورنگیاں ختم ہونے سے یہ ہوا تھا کہ لوگ کبھی کبھی ایک ہی چورنگی یا علاقے کے دو تین چکر کاٹنے پر بھی درست سڑک یا گلی کا اندازہ نہیں لگا پاتے تھے اور ع
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
کی تصویر ہو کر رہ جاتے تھے!
ماس ٹرانزٹ منصوبوں پر کام شروع ہونے سے وہی کیفیت پھر پیدا ہوچلی ہے۔ لوگ جن علاقوں میں دسیوں بار آچکے ہوں اُسی کو پہچان نہیں پاتے اور کہیں سے کہیں جا نکلتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی شادی ہال میں جانے کے لیے گھر سے نکلا ہوا جوڑا کئی بار مطلوبہ ہال کے سامنے سے گزرتا ہے مگر منزلِ مقصود کو پہچان نہیں پاتا اور تماشا بن جاتا ہے! ؎
کھوئے رہنے کا اگر کچھ شوق ہے تو آئیے
اِک ذرا سے گھر سے نکلیے اور گم ہوجائیے!