امریکی تاریخ کے انتہائی متنازع صدور میں سے ایک نے بالآخر حلف اٹھاکر یہ منصب باضابطہ طور پر سنبھال لیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر متنازع صدور میں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ حضرت منصب کی ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے ہی ایسے متنازع قرار پائے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ نومبر کے پہلے پندرہواڑے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے پر جو شور برپا ہوا تھا وہ کسی نہ کسی شکل میں اب تک یعنی اُن کی حلف برداری کے بعد بھی برقرار ہے۔
ٹرمپ کے آنے سے کیا فرق واقع ہوگا؟ کیا پریشانی سے دوچار اقوام کی بگڑی بن جائے گی؟ جن خطوں کو امریکا نے شدید عدم استحکام سے دوچار کیا ہے کیا وہ ٹرمپ کے ہاتھوں استحکام کی منزل تک پہنچیں گے؟ ٹرمپ کے ذہن میں کیا ہے، کچھ پتا نہیں چلتا۔ بہت سے لوگ یہ سوچ کر خوفزدہ ہیں کہ بظاہر اپنے آپ میں مست رہنے والا اور من کی مرضی کرنے والا یہ لا اُبالی سا شخص امریکی نظام کو تلپٹ نہ کردے۔ ایسا ہوا تو بگاڑ گھٹنے کے بجائے بڑھ جائے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخاب بہت سے سیاسی تجزیہ نگاروں اور سیاسیات کے طلباء کے لیے حیرت کا سرچشمہ ہے۔ عالمی سیاست کے تحرّک اور محرّکات پر جن کی نظر ہے اُن کا ٹرمپ کے انتخاب پر حیرت میں مبتلا ہونا بجائے خود کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔ امریکی قیادت دعوٰی کرتی آئی ہے کہ اس کا ملک ایک انتہائی مضبوط جمہوریت ہے اور اگر کسی کو حقیقی لبرل ڈیموکریسی کا دیدار کرنا ہے تو امریکا کی طرف دیکھے۔ مگر اب کے امریکی جمہوریت پسندی کے افق پر ایسا سورج طلوع ہوا ہے جو اندھیروں کا نقیب بننے کو بے تاب دکھائی دیتا ہے!
ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخاب بہت سے خدشات اور وسوسوں کو جنم دینے کا باعث بنا ہے۔ سیاسی حرکیات پر نظر رکھنے کا دعوٰی کرنے والے حیران ہیں کہ امریکی جمہوریت کے بطن سے رونما ہونے والی اِس مضحکہ خیز تبدیلی کو کیا نام دیں، اِس پر کیا تبصرہ کریں؟ ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخاب ایک ایسی حقیقت ہے جس نے بہت سے امریکیوں کے سَر جُھکا دیئے ہیں۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے شرمندہ ہیں۔ اُنہیں کچھ اندازہ ہی نہیں تھا کہ عوام کی رائے کو مقدم جاننے کا یہ نتیجہ بھی برآمد ہوسکتا ہے۔ ع
خبر کیا تھی کہ یہ انجام ہوگا دِل لگانے کا!
ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں جو لوگ تھوڑا بہت جانتے تھے وہ بھی حیران تھے کہ ری پبلکن پارٹی کو آخر کیا ہوگیا ہے کہ ''اسٹینڈ اپ کامیڈی‘‘ کے بادشاہ کو المیہ ڈرامے کے مرکزی کردار کے لیے نامزد کردیا!
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں تمام معاملات آپس میں جُڑ گئے ہیں۔ اگر کرپشن ختم کرنے کی بات کیجیے تو بہت سے شعبوں کا تیا پانچا ہوجانے کا دھڑکا سا لگ جاتا ہے کیونکہ وہ شعبے کرپشن کے مال سے چل رہے ہیں! اب اگر کرپشن ختم کرنے کے نام پر بھرپور کارروائی کیجیے تو وہ شعبے دُھول چاٹتے ہوجائیں گے اور ہزاروں، بلکہ لاکھوں افراد کی روزی روٹی داؤ پر لگ جائے گی!
ایک زمانے سے کاروباری طبقہ سیاست دانوں سے قریب رہا ہے تاکہ اپنی مرضی کی پالیسیاں تیار کرواکے زیادہ سے زیادہ فوائد بٹور سکے۔ دوسری طرف عسکری پالیسیاں بھی کاروباری طبقے کے مفادات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے تیار کی جاتی رہی ہیں۔ عسکری سامان تیار کرنے والے بہت سے بڑے ادارے مل کر اس بات کی گنجائش پیدا کرتے ہیں کہ اُن کا پیداواری پہیہ گھومتا رہے، مال فروخت ہوتا رہے اور بینک بیلنس کی صحت کا گراف بلند سے بلند تر ہوتا رہے!
عام سا مشاہدہ ہے کہ جن ممالک میں کاروباری طبقہ سیاست دانوں یعنی حکمراں طبقے سے ہاتھ ملالے اُن کا بیڑا غرق ہوکر رہتا ہے۔ جب ہر معاملہ صرف اور صرف نفع و نقصان کے نقطۂ نظر سے دیکھا جاتا ہے تو ریاستیں بربادی کی راہ پر گامزن ہوجاتی ہیں۔ اور یہ سفر اتنا تیز اور ناقابل فہم ہوتا ہے کہ جب سب کچھ برباد ہوچکتا ہے تب کچھ کچھ سُجھائی دیتا ہے۔
ایک زمانے سے پس ماندہ خطوں کے ممالک میں یہی تو ہو رہا ہے۔ حکمراں طبقے سے تمام دوسرے طاقتور طبقوں نے ہاتھ ملالیا ہے۔ جمہوریت کے نام پر لوگوں کو دھوکا دیا جارہا ہے۔ اور کہیں کہیں تو جمہوریت وغیرہ کا تکلف بھی روا نہیں رکھا گیا یعنی نِری آمریت ہے جو اِس قدر نمایاں اور تمام معاملات پر محیط ہے کہ اُسے بیان کرنے کے لیے ناصرؔ کاظمی مرحوم کے مقطع کو زحمت دیتے ہی بنے گی۔ ؎
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ
اُداس بال کھولے سو رہی ہے!
پاکستان ہی کو لیجیے۔ یہاں تمام بڑے اور با اثر طبقات اپنے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے ایک ہوگئے ہیں، ایک پیج پر جمع ہیں۔ اب مفادِ عامہ کی کوئی بھی بڑی بات اِس لیے ممکن نہیں رہی کہ جنہیں فیصلے کرنے ہیں وہ ایسا چاہتے ہی نہیں۔ اور اُن سے جواب طلبی کا کوئی باضابطہ، شفّاف اور غیر جانب دار نظام رہا ہی نہیں۔
پاکستان جیسے ممالک میں سیاست دان، کاروباری طبقے اور دیگر مقتدر حلقوں کا ایک پیج پر آ جانا حیرت انگیز نہیں کہ یہاں تو کوئی نظام ہے ہی نہیں۔ امریکا کے حوالے سے رونما ہونے والی یہ تبدیلی البتہ بہت حیرت انگیز اور بڑی حد تک تشویشناک ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ بزنس کی دنیا کا بڑا نام ہیں۔ ایک بزنس ٹائیکون کا امریکی سیاست میں راتوں رات ابھرنا اور پورے سیاسی عمل سے باضابطہ طور پر گزرے بغیر ملک کے سب سے بڑے منصب پر فائز ہو جانا ... یہ سب کچھ ناقابل یقین ہے۔ یقین آئے بھی کیسے؟ امریکا میں صدر کے منصب تک وہی لوگ پہنچتے رہے ہیں جو ''سٹیٹسمین شپ‘‘ کے حامل رہے ہیں یعنی ایسے لوگ جو مملکت کو چلانے کے تمام بنیادی اسرار و رموز سے بخوبی واقف ہی نہیں بلکہ ان کے ماہر بھی رہے ہوں! کانگریس (یعنی سینیٹ اور ایوان نمائندگان) سے گزرتے ہوئے، ریاستی گورنر کے منصب پر خدمات انجام دینے کے بعد لوگ وفاق کی سطح پر پہنچتے ہیں تب اُن کے لیے ایوانِ صدر کے دروازے کھولے جانے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اِس پورے تربیتی عمل کو بائی پاس کرتے ہوئے ایک ہی جھٹکے میں وائٹ ہاؤس تک پہنچ کر ثابت کردیا ہے صرف وہی نئے صدر نہیں ہیں بلکہ امریکا بھی اب نیا ہے!
امریکا میں سیاست دانوں اور کارپوریٹ دنیا کے لوگوں کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے مگر خیر، معاملہ ایسا تو کبھی نہ تھا کہ کارپوریٹ دنیا سے کوئی اٹھ کر آئے اور راتوں رات وائٹ ہاؤس کا مکین ہو بیٹھے! یہ تو بہت عجیب اور بہت حد تک ناقابل فہم تبدیلی ہے۔
ٹرمپ کا امریکی صدر کے منصب پر فائز ہونا کیا سمجھا جائے؟ کیا وہ لبرل ڈیموکریسی دیوار سے لگ چکی ہے جس کے راگ الاپتے امریکی میڈیا اور پالیسی میکرز تھکتے نہ تھے؟ کیا امریکا میں بھی سیاسی حرکیات کا تیا پانچا ہوچکا ہے؟ بہت سے دل جلے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا اور یورپ کے لیے گورباچوف ثابت ہوسکتے ہیں! اُن کا استدلال یہ ہے کہ جس طور میخائل گورباچوف کو بھیج کر قدرت نے سوویت یونین کی تحلیل یقینی بنائی تھی بالکل اُسی طور اب ڈونلڈ ٹرمپ کو بھیج کر امریکا اور یورپ کی ٹیڑھی چال سیدھی کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو تمام مظلوم اقوام کو نوید ہو کہ اُن کا ''مسیحا‘‘ آچکا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت، کاروباری ذہنیت اور سیاسی اُمور کی باریکیوں سے قدرے عدم واقفیت اِس امر کی جانب اشارا کر رہی ہیں کہ اب امریکا کو فیصلہ کن جھٹکا لگنا چاہیے۔ طرزِ فکر و عمل کے اعتبار سے صدر ٹرمپ کی غیر سنجیدگی دنیا بھر کے ستم زدگان کی آنکھوں میں اُمّید کے چراغ روشن کر رہی ہے۔ کروڑوں، بلکہ اربوں آنکھیں یہ دیکھنے کو بے تاب ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں امریکا کا بہت کچھ کِس طور داؤ پر لگتا ہے! یہ اگرچہ خالص wishful thinking ہے لیکن اگر ایسا ہو بھی جائے تو کچھ زیادہ حیرت کی بات نہیں کہ ع
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر!
تاریخ شاہد ہے کہ ہر سامراجی قوت یعنی سلطنت بدمست ہاتھی کی طرح جو چاہتی ہے کرتی پھرتی ہے یعنی کوئی بھی اُسے قابو میں رکھنے کی استعداد نہیں رکھتا مگر جب آسمانوں میں طے کردہ وقت آتا ہے تب وہ اپنے ہی بوجھ تلے دب کر ختم ہو جاتی ہے۔ امریکا بھی ایک بدمست ہاتھی ہے اور اِس کی قوت کا بوجھ اب کمزوروں کے لیے ناقابل برداشت ہوچکا ہے۔ دیکھیے، تاریخ کی عدالت کب فیصلہ سُناتی ہے۔