کہتے ہیں خبر ہر اُس بات کو کہتے ہیں جو نہ صرف یہ کہ نئی ہو بلکہ کسی حد تک چونکائے بھی۔ خبر کی یہ تعریف کس حد تک درست ہے یہ تو ہم نہیں جانتے بلکہ ہاں، زمانہ ایسی خبروںکا ہے جو چونکاتی کم ہیں اور خوفزدہ زیادہ کرتی ہیں!
آج کل ہمارے ہاں بھی ایسی خبروں کا فیشن چل رہا ہے جو چونکانے سے زیادہ خوفزدہ کرنے کا وسیلہ بن رہی ہیں۔ نہیں نہیں، ہم منتخب ایوانوں میں ہونے والی دھینگا مُشتی کی بات نہیں کر رہے! قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے فلور پر اسپانسر شپ اور ٹکٹ کے بغیر منعقد کی جانے والی ہنگامہ آرائی کے ہم عادی ہیں اِس لیے اُس سے صرف محظوظ ہوتے ہیں، خوفزدہ ہونے کی زحمت گوارا نہیں کرتے! ہاں، اتنا ضرور ہے کہ ایسے سیاسی تماشے مفت دیکھنے کی عادت پڑچکی ہے۔ اب اگر اِن پر ٹکٹ لگ گیا تو مصیبت ہوجائے گی۔ ویسے قومی اسمبلی میں شہریار آفریدی اور شاہد خاقان عباسی کے درمیان جو کچھ ہوا وہ خواہ مخواہ افسوس ناک قرار دیا جارہا ہے۔ دونوں نے فاصلے گھٹانے کی کوشش کی ہے۔ فاصلے بہت بڑھ جائیں تو ایسی ''قربتیں‘‘ جنم لیا کرتی ہیں!
سیاست سے ہمارا کیا تعلق؟ مانا کہ کالم نگاری کے لیے سیاسی معاملات کا جاننا بہت ضروری ہوا کرتا ہے مگر ہم نے کبھی نہیں چاہا کہ کالم کی چائے میں سیاسی شکر اِتنی زیادہ ہو کہ پیالی میں چمچ کھڑا ہوجائے! ہمارا ناچیز ''نظریہ‘‘ یہ ہے کہ کالم کے سالن میں سیاسی معاملات نمک جتنی مقدار ہی میں ہونے چاہئیں۔ ذرا بھی توازن بگڑے تو کالم نمکین سے کھارا اور پھر کڑوا ہو جاتا ہے۔ ایسا ہو تو کڑواہٹ دور کرنے کے لیے قارئین ای میل کے ذریعے ''مٹھاس‘‘ کی مار مارتے ہیں!
گزشتہ دنوں دو خبریں چونکانے اور سہمنے پر مجبور کرنے کا فریضہ ایک ساتھ انجام دے گئیں۔ پہلی خبر امریکا سے آئی تھی اور دوسری بھارت سے۔ امریکی ریاست ارکنسا میں 70 سالہ لارنس ریپل نے بیوی سے تنگ آکر اُس سے جان چُھڑانے کا سوچا اور ایک بینک میں داخل ہوکر کیشیئر کو دھمکی دی کہ اگر اُس نے مطلوبہ رقم نہ دی تو سنگین نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ لارنس ریپل کو تین ہزار ڈالر دیئے گئے۔ یہ رقم لے کر وہ گیا نہیں بلکہ بینک کی لابی میں بیٹھ کر پولیس کا انتظار کرنے لگا۔ اُسے گرفتار کرلیا گیا اور معاملہ عدالت تک پہنچا۔ جرم ثابت ہونے پر اُسے بیس برس قید ہوسکتی ہے!
دوسری خبر بھارت کی ہے جہاں بیویوں کے ستائے ہوئے 450 سے زائد افراد نے اپنا آشرم قائم کیا ہے۔ مہا راشٹر کے شہر اورنگ آباد کے نزدیک واقع اِس آشرم میں کسی بھی عورت کو داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ آشرم میں رہنے والوں میں 5 مسلمان بھی شامل ہیں۔ ان سب کا اتحاد قابلِ رشک ہے۔ یہ لوگ اپنے کپڑے خود دھوتے ہیں، کھانا خود تیار کرتے ہیں، برتن بھی خود ہی دھوتے ہیں۔ بستر بچھانا اور اٹھانا بھی اِن سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ یعنی مکمل سیلف سروس۔ آشرم میں پناہ لینے والے یہ مظلوم مرد اعلٰی تعلیم یافتہ ہیں۔ ان وکیل، انجینئر اور پروفیسر سبھی شامل ہیں۔
ہم پر الزام تواتر سے عائد کیا جاتا رہا ہے کہ ہم اپنے کالموں میں عمومی طور پر خواتین اور خصوصی طور پر بیگمات کی بہت تضحیک کرتے ہیں اور یہ کہ جب بھی شوہروں کی مظلومیت سے متعلق کوئی خبر کہیں سے آتی ہے تو ہم اُسے نمک مرچ لگاکر اپنے کالم کا موضوع بناتے اور خواتین کو ہدفِ استہزاء بناتے ہیں۔ ہمارا یقین کیجیے کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ ہم تو ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ ہم خیر سے شادی شدہ ہیں۔ خدا کو تو مرنے کے بعد منہ دکھانا ہے۔ اِس سے بہت پہلے یعنی یومیہ بنیاد پر ہمیں گھر میں ایک نہیں، دو خواتین کو منہ دکھاتے رہنا ہے۔ غلط اندازہ مت لگائیے۔ ہم ایمان اور گھریلو زندگی دونوں ہی معاملات میں وحدانیت کے قائل ہیں یعنی رب بھی ایک، بیگم بھی ایک۔ گھر کی دوسری خاتون ہماری اکلوتی بیٹی صباحت ہیں۔ اِن ذرا سی یعنی گیارہ سال کی محترمہ کے لیے ہم نے ''خاتون‘‘ کا لفظ اِس لیے استعمال کیا ہے کہ اِن کا تعلق بھی خواتین ہی کے قبیلے سے تو ہے اور خاص بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی معاملہ انتخاب کی منزل تک پہنچتا ہے تو صباحت بی اپنی والدہ محترمہ کا ساتھ دیتی ہیں!
لارنس ریپل کچھ زیادہ جذباتی ہوگئے۔ کون ہے جو بیوی سے تنگ نہیں آ جاتا؟ مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بینک ڈکیتی کے ''فن‘‘ کو بدنام کیا جائے! ایسے ہی مواقع پر کہا کرتے ہیں طویلے کی بلا بندر کے سَر!
اگر بیوی سے جان چُھڑاکر جیل جانے کی آرزو تھی تو بیوی کے ساتھ گھر میں رہتے رہنے میں بھلا کیا قباحت تھی؟ کیا اِس طور جینا جیل میں دن گزارنے جیسا نہیں ہوتا!
ہمارے خیال میں لارنس نے شاید یہ سوچا کہ بیوی کیوں مزے کرے؟ اچھا ہے کہ بینک میں ڈاکا ڈالتے ہوئے پکڑے جائیے اور بیوی کو مزے کی زندگی بسر کرنے سے روکیے۔ طلاق دینے کی صورت میں لارنس ریپل کو قانون کے مطابق اپنے تمام اثاثوں کا نصف بیوی کو دینا پڑتا!
لارنس اگرچہ کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگیا مگر یہ کیفیت وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہیں اللہ نے ایک عدد ''پیار‘‘ کرنے والی بیوی سے نوازا ہو! اپنے غیر شادی شدہ قارئین سے ہم یہی کہیں گے ؎
لطفِ مے تجھ سے کیا کہیں زاہد!
ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں
ہم نے بیسیوں بار یہ تماشا دیکھا ہے کہ سو الجھنوں پر بھی لوگ گھریلو زندگی سے دست بردار نہیں ہوتے۔ گویا گھریلو زندگی بھی ایک نشا ہے۔ اور ع
یہ نشّا وہ نہیں جسے تُرشی اُتار دے!
اور ذرا سسٹم کی ''سادگی‘‘ تو دیکھیے۔ لارنس سے کہا جارہا ہے کہ ہاں بھئی تو مجرم ہے، چل جیل چل۔ ہمارے ہاں ایسا ہوا ہوتا تو پولیس چار ٹھڈے لگاکر بھگا دیتی یا وقت ضائع کرنے پر بندے کو پکڑ کر اُس کی بیوی کے حوالے کردیتی! ایک بات اور۔ یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ قصور بیوی کا ہو اور سزا عوام بھگتیں؟ اب اگر لارنس جیل جائے گا تو وہاں روٹی تو عوام کے پیسوں ہی کی مدد سے ملے گی یعنی کرے کوئی، بھرے کوئی!
بھارت میں بیویوں کے مبینہ مظالم سے تنگ آئے مردوں نے آشرم بناکر اپنے آپ کو معصوم اور بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ کسی پروڈیوسر نے یہ خبر پڑھی ہوگی تو شاید فلم بنانے کی بھی ٹھان لی ہوگی۔ آج کل پروڈیوسرز ہر چیز میں کہانی سُونگھتے پھرتے ہیں۔ کہنے تو یہ معاملہ بیویوں کو بدنام کرنے کا ہے مگر سوچیے تو اِس کے چند مثبت پہلو بھی ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ گھر کی ''ایکی‘‘ کے ہاتھوں ظلم سہنے پر اِن مردوں میں مثالی ''ایکا‘‘ پایا جاتا ہے! دوسرا فائدہ یہ کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی بھی چشمے کی طرح پُھوٹ پڑی۔ ہندو اور مسلمان ایک چھت کے نیچے مل کر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اور تیسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ جھاڑو پونچھے سے برتن دھونے، کھانا پکانے، بستر بچھانے اور اُٹھانے تک تمام کام یہ لوگ خود اور بخوشی کر رہے ہیں۔ ہم نے اِس کا ذکر چھیڑا تو اہلیہ نے ایک ہی جملے میں کہانی ختم کردی۔ ارشاد ہوا : ''بہت ہی گھامڑ ہیں یہ لوگ۔ جب گھر کے سارے کام خود کرنے ہی تھے تو پھر بیوی کی خوشی کے لیے کرتے رہنے میں کیا ہرج تھا؟ اِس کے نتیجے میں گھریلو زندگی تو برباد نہ ہوتی!‘‘
جو لوگ بیویوں کے مظالم کا رونا روکر ہم جیسوں کو ناحق شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اُن سے ہم لیاقت علی عاصمؔ کی زبانی عرض کریں گے ؎
شاعری کرتے مگر دیکھ تو لیتے پہلے
دردِ دل ہے کہ نہیں، زخمِ جگر ہے کہ نہیں!