ایک زمانے سے تاریک بر اعظم یعنی افریقا عجیب و غریب خبروں کی ''روشنی‘‘ بکھیر رہا ہے۔ معاملہ خواہ کچھ ہو اور سیاق و سباق کوئی سا بھی ہو، انتہائی عجیب خبریں دینے میں افریقا آج بھی بازی لے جانے کی تگ و دَو میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔
کینیا کے ایک جوڑے نے سوشل میڈیا پر دھوم مچادی ہے۔ 27 سالہ ولسن اور 24 سالہ این موتورا نے صرف ایک ڈالر میں شادی کرکے ایک زمانے کو حیران کردیا ہے۔ کچھ دن قبل بھارت کے ایک سرکاری ملازم نے صرف 500 روپے میں شادی کرکے اہلِ وطن کے ساتھ ساتھ غیروں کی بھی توجہ پائی تھی۔ اب ولسن اور این موتورا نے صرف اور صرف ایک ڈالر سِکہ رائج الوقت میں شادی کرکے سادگی کی انوکھی مثال قائم کردی ہے۔ یہ جوڑا گزشتہ برس شادی کرنا چاہتا تھا مگر خاصی سادہ سی تقریب کے لیے بھی کم و بیش 300 ڈالر درکار تھے۔ گزرے ہوئے سال میں رقم جمع نہ ہو پائی اِس لیے شادی بھی نہ ہوسکی۔ 2017 شروع ہوا تو دونوں نے فیصلہ کیا کہ اِتنی سادگی سے شادی کریں گے کہ دنیا کے لیے مثال بن جائے۔ ولسن نے ایک ڈالر میں دو انگوٹھیاں خریدیں اور چرچ پہنچ گئے۔ شادی کی رجسٹریشن کی فیس اور چند دیگر چھوٹے موٹے اخراجات چرچ کی انتظامیہ نے ادا کیے۔ شادی کی تقریب میں کیک تھا نہ پھول۔ نہ ہی کسی قسم کی تزئین و آرائش کی گئی تھی۔
ہم نے ولسن اور این موتورا کی شادی کی خبر پڑھی تو انتہائے حیرت کی نذر ہوگئے۔ اِس جوڑے پر رشک آیا۔ اِسے کہتے ہیں فیصلہ۔ شادی کرنی ہے تو کر گزرو۔ یعنی معاملہ لٹکائے رکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ع
یاد رہ جاتی ہے اور وقت گزر جاتا ہے
ہم نے جب ولسن اور این موتورا کی سادہ و پُروقار شادی کے بارے میں مرزا تنقید بیگ کو بتایا تو وہ چند لمحات کے لیے گم سے ہوگئے۔ ہم نے محسوس کیا کہ وہ شاید اپنی شادی کا موقع یاد کرکے اندر ہی اندر دل کے پھپھولے پھوڑ رہے ہیں۔ ہمیں ذرا بھی حیرت نہ ہوئی۔ مرزا عمر کی جس منزل میں ہیں اُس میں انسان دوسروں کی شادی دیکھ کر اپنی شادی کے زمانے کو یاد کرنے کے سِوا کر بھی کیا سکتا ہے!
خیر، چند لمحات کے بعد مرزا حواس و شعور کی دنیا میں واپس آئے تو ہم نے اِس قدر سادگی سے نئی یعنی گھریلو زندگی کی ابتداء کے بارے میں اُن کی رائے جاننے کی خواہش ظاہر کی۔ مرزا نے ایک ہی جملے میں ولسن اور این موتورا کا قصہ تمام کردیا۔ فرمایا کہ یہ دونوں اپنے معاشرے ہی کے نہیں بلکہ پورے انسانی ماحول کے خطرناک دشمن، بلکہ غدّار ہیں!
حیران کن سادگی سے شادی کرنے والے ... اور انسانی ماحول کے دشمن؟ غدّار؟ مرزا کی بات سن کر اب ہم کہیں کھوگئے، دریائے حیرت میں غوطہ زن ہوئے۔ چند لمحات تک غور کرنے پر بھی جب بات سمجھ میں نہ آئی تو مرزا سے دریافت کیا کہ ولسن اور این موتورا انسانی ماحول کے دشمن یا غدّار کیونکر ہوئے؟
مرزا نے حسبِ روایت اور حسبِ توفیق ہماری عقل پر تبرّا بھیجا اور افریقی جوڑے کو لعنت ملامت کرتے ہوئے بولے : ''سادگی سے شادی کرنے والے بلا کے ستم ظریف ہوتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ شادی کا معاملہ زمانے بھر کی رسموں کا مجموعہ ہوا کرتا ہے۔ جوڑے کو جو تیاریاں کرنی ہیں وہ اپنی جگہ، شادی کی تقریب میں شرکت کرنے والوں کی تیاریاں بھی دو چار گھنٹے نہیں بلکہ کئی کئی دن چاہتی ہیں۔ شادی دو دلوں کے ملن سے کہیں بڑھ کر دو خاندانوں، بلکہ دو برادریوں کے ملاپ کا معاملہ ہے!‘‘
ہم نے ڈرتے ڈرتے یعنی ''جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں‘‘ والا انداز اپناتے ہوئے عرض کیا کہ ایک مرد اور ایک زن کو شادی کے بندھن میں بندھنا ہے تو اِس کے لیے ''میلۂ مویشیاں و اسپاں‘‘ والا ماحول پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہیِ؟ شادی کی تقریب تین چار گھنٹے کا معاملہ ہے۔ محض ایک تقریب کے لیے اتنا اہتمام کرنے کہاں کی دانش مندی ہے کہ بعد میں رونا پڑے؟
مرزا نے ہمارا اعتراض سُنا تو ہمیں چند ایسے القاب سے نوازا جو ہم خوفِ فسادِ خلق سے یہاں بیان نہیں کرسکتے! اپنے کلیجے کو اچھی طرح ٹھنڈک پہنچانے یعنی ہمیں جی بھر کے مطعون کرنے کے بعد مرزا نے شادی کے حوالے سے اپنا ''فلسفہ‘‘ یوں بیان کیا : ''دیکھو میاں! ہر غریب اور پس ماندہ معاشرے کی طرح پاکستانی معاشرے میں بھی شادی دراصل متعلقہ جوڑے ہی کے لیے نہیں بلکہ اُن کے بیشتر متعلقین کے لیے بھی اچھا خاصا 'میگا ایونٹ‘ ہوا کرتی ہے۔ جس طور کسی فلم کے ریلیز ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے بالکل اُسی طور شادی کا بھی انتظار کیا جاتا ہے۔ جوڑے کے ساتھ ساتھ اُس کے متعلقین بھی دل کے ارمان پورے کرتے ہیں۔ پورا ماحول 'ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق‘ کا سماں پیش کر رہا ہوتا ہے! اب تم ہی بتاؤ کہ جب کوئی جوڑا بالکل رُوکھی، پھیکی شادی کرے گا تو کتنوں کے دِل کس بُری طرح ٹوٹیں گے!‘
ہم نے ایک بار پھر ڈرتے ڈرتے عرض کیا کہ محض ایک تقریب کے لیے بہت کچھ یعنی اچھے خاصے مالی وسائل داؤ پر لگانا، بلکہ فضول رسوم کی بھٹی میں جھونک دینا کہاں کی عقل پسندی ہے؟
یہ سُن کر مرزا تقریباً پھٹ پڑے : ''انسان کس کے لیے اور کیوں کماتا کیوں ہے؟ ظاہر ہے مسرّت کے حصول کے لیے۔ اور شادی سے بڑھ کر بھرپور مسرّت کے حصول کا اور کون سا موقع ہے؟ اگر ہے تو بتاؤ۔ انسان شادی کے موقع پر خرچ نہیں کرے گا تو پھر کب کرے گا؟ انسان اپنے لیے ہی تو کماتا ہے۔ تو پھر اپنی شادی کو زیادہ سے زیادہ یادگار بنانے پر جی بھر کے خرچ کرنے میں کیا قباحت ہے؟‘‘
مرزا بولے جارہے تھے اور ہم اُن کی ہر بات کو ان سُنی کرنے کے مشن پر تھے! جب وہ جی کا غبار خوب نکال چکے تو ہم نے سوال داغا کہ شادی کو یادگار بنانے کے نام پر گھر پُھونک کر تماشا دیکھنے میں بھلا کون سی حکمت پوشیدہ ہے؟
مرزا گویا اِس سوال کے منتظر تھے۔ پہلے سے سوچا ہوا جواب اُنہوں نے ہماری نذر کیا : ''میاں! غریبوں کی یہی تو چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں۔ منگنی، شادی، عقیقہ، آمین وغیرہ وغیرہ۔ غریب اپنی خوشیوں کا خود اہتمام کرتے ہیں اور پھر اُس کی قیمت بھی چکاتے رہتے ہیں۔ ولسن اور اُس کی بیوی کو کیا معلوم کہ شادی سے دو ڈھائی سال پہلے اور دو ڈھائی سال بعد تک کمیٹیاں بھرنے کا مزا اور ہی کچھ ہے! ہمارے معاشرے کے غریب برسوں مال جمع کرتے ہیں اور اُسے جی بھر کے خرچ کرکے ایک دن کی بھرپور رونق کا اہتمام کرتے ہیں! اگر انتہائی سادگی سے ٹھنڈی ٹھار شادی کی جائے تو چل چکی یہ دنیا۔‘‘
ہم نے آخری بار عرض کرنے نام پر کوئی اعتراضی گولا داغنا چاہا تو مرزا خاموش رہنے کا اشارا کرتے ہوئے بولے : ''بس، اب اور کچھ نہ کہنا۔ یہاں شادی ہی تو ایک ایسا ایونٹ ہے جس کے دم سے سو دھندے چل رہے ہیں۔ اگر اِس ایونٹ میں سادگی در آئی تو لاکھوں افراد کا روزگار داؤ پر لگ جائے گا۔ اور شادی والے گھر میں کم و بیش ایک ماہ تک جو رونق میلہ لگا رہتا ہے وہ بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ وہ گانا تم نے نہیں سُنا ... مجھے مست ماحول میں جینے دے۔ تو میاں! غریبوں کو مست ماحول میں جینے دو۔ لے دے کر شادی کی شکل ہی میں تو ایک موقع رہ گیا ہے اُنہیں مست ماحول عطا کرنے والا۔ اب تم جیسے اِس موقع کی بھی درگت بنانا چاہتے ہیں۔ سادگی کی تلقین کرکے اُن کی زندگی میں کبھی کبھار وارد ہونے والی خوشیوں کا تیا پانچا نہ کرو!‘‘