"MIK" (space) message & send to 7575

مان نہ مان … میں ہوں تجزیہ کار!

کسی زمانے میں (غالباً) رونا لیلیٰ ا گایا ہوا ایک فلمی گانا بہت مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے ع 
تکلف برطرف، ہم تو سرِ بازار ناچیں گے 
بس کچھ کچھ ایسی ہی کیفیت اب اُن لوگوں کی ہے جو کسی نہ کسی طور اپنے ذہن میں چند ایک بے ربط سے خیالات پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور پھر اُنہیں منصۂ شہود یعنی زبان پر لانے کے لیے (دوسروں کے) سَر دھڑ کی بازی لگادیتے ہیں! 
کل ہم ہوٹل پر چائے پینے گئے تو بھائی جمیل سے ملاقات ہوگئی۔ بھائی جمیل ''جِلّا دربھنگا شریف‘‘ کے ہیں اِس لیے ''بہوت‘‘ ہی ''جبردست‘‘ طریقے سے بتیاتے ہیں! اُنہوں نے چائے کی پیشکش کی اور ہم نے فوراً خود کو ''اِقراری قبیلے‘‘ کا رکن ثابت کیا! 
کچھ لمحات کے بعد ہم نے دودھ پتی کے مزے لینا شروع کیا اور اُدھر بھائی جمیل نے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم سے مزے لینا شروع کیا یعنی حالاتِ حاضرہ پر اسٹریٹ سیلف ٹاک شو کا بٹن آن کردیا! کہنے لگے ''پاناما لیکس کیس کا فیصلہ اِس ملک کی تقدیر بدل دے گا۔‘‘ یہ بھی ایک بڑی مصیبت ہے۔ اِس ملک میں تقدیر سے کم کوئی چیز نہیں بدلتی! ہم نے حیران ہوکر وضاحت چاہی تو بولے ''اس فیصلے کے بعد اِس ملک کو کوئی بھی لُوٹ نہیں سکے گا!‘‘ ہم نے مزید حیران ہوکر پوچھا وہ کیسے تو بھائی جمیل نے انتہائے وثوق سے مُزیّن لہجے میں کہا ''میں بتا رہا ہوں نا!‘‘ 
''میں ہوں نا‘‘ کی شاندار کامیابی کے بعد ''میں بتا رہا ہوں نا‘‘ کی نمائش بھی ملک بھر میں قدم قدم پر جاری ہے اور لوگ ہر شو کا مزا لُوٹ رہے ہیں! جب بھی کوئی شخص روزمرہ گفتگو کے دوران ''میں بتا رہا ہوں نا‘‘ کہتا ہے تو لہجے میں اِتنا زور ہوتا ہے کہ مانتے ہی بنتی ہے۔ ایسے مواقع پر میرؔ یاد آتے ہیں جنہوں نے کہا تھا ع 
مستند ہے میرا فرمایا ہوا 
یہاں بھی سب اِس دعوے کے ساتھ گفتگو کرنے لگے ہیں کہ اُن کا فرمایا ہوا مستند سے کم کچھ بھی نہیں۔ سب چاہتے ہیں کہ گفتگو کی مارکیٹ میں جو بھی آئٹم پھینکا جائے وہ بہ سر و چشم قبول کرلیا جائے۔ 
ہم نے 53 سال کی نہ ہونے جیسی زندگی میں ایک ایسا دور بھی دیکھا ہے جب خاندانی شرافت ثابت کرنے کا ایک اہم طریق یہ بھی تھا کہ لب بستہ رہا جائے۔ کسی ضرورت یا جواز کے بغیر بولنا محض آدابِ محفل نہیں بلکہ آدابِ زندگی کے بھی خلاف تھا! کوئی نہ کوئی رائے کب اور کس کے پاس نہیں ہوتی مگر لازم تو نہیں کہ جو کچھ کھوپڑی کی پتیلی میں اُبل رہا ہو وہ سامنے بیٹھے ہوئے شخص کی سماعت پر اُنڈیل ہی دیا جائے۔ ضبطِ نفس کی ایک صورت یہ بھی تو ہے کہ انسان خیالات پر بھلے ہی قابو نہ پاسکے مگر زبان پر ضرور قابو رکھے! 
1970 ء کے عشرے میں فلم ''کسوٹی‘‘ کے لیے آں جہانی کشور کمار کا گایا ہوا ایک گیت بہت مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے ''ہم بولے گا تو بولوگے کہ بولتا ہے‘‘ یعنی خاموش رہنا ترجیحات میں شامل تھا۔ لوگ اس خیال سے چپ رہتے تھے کہ کسی کے دل کو ٹھیس نہ لگ جائے۔ اور پھر یہ بات بھی تھی کہ خاموش رہنے سے انسان کی اپنی کم علمی یا جہالت پر بھی پردہ پڑا رہتا تھا۔ اب عالم یہ ہے کہ خاموش رہنے کو گناہ سمجھ لیا گیا ہے! لوگ اس خوف سے بھی بولتے رہتے ہیں کہ کہیں کوئی اُنہیں گونگا نہ سمجھ لے! ہاں، یہ خوف لاحق نہیں ہوتا کہ بولنے سے کہیں کم علمی اظہر من الشمس نہ ہوجائے! 
جس طرح بہت سے لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ قدرت کی طرف سے معدہ ملا ہے تو کھا کھاکر اُسے بھرتے رہنا ہی زندگی کا مقصد ہے بالکل اُسی طرح واضح اکثریت نے یہ بھی طے کرلیا ہے کہ اللہ نے زبان عطا کر ہی دی ہے تو ''شکرانے‘‘ کے طور پر کچھ نہ کچھ بولتے ہی رہنا چاہیے! اچھے وقتوں کی بات ہے کہ ناہید اختر کو گا گاکر فرمائش کرنا پڑی تھی ع 
کچھ بولیے حضور، یہ لب کھولیے حضور 
اچھا ہوا کہ ناہید اختر نے فن کی دنیا کو خیرباد کہہ کر گوشۂ عافیت میں رہنا پسند کیا ورنہ آج اُنہیں ہاتھ جوڑ کر گاتے ہوئے (لالو کھیت یا نیو کراچی کی عوامی زبان میں) درخواست کرنا پڑتی ... ابے چپ بھی ہوجا، منہ بند رکھنے کا کیا لے گا! 
وزارتِ صحت اور ہر صوبے کا محکمۂ صحت ملک بھر میں پھیلی ہوئی بیماریوں کے بارے میں لوگوں کو بتاتا رہتا ہے اور حفاظتی تدابیر سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ افسوس کہ معاملہ جسمانی بیماریوں تک محدود ہے۔ نفسی اور سماجی بیماریوں کو اب تک بیماری ہی نہیں سمجھا جارہا۔ خیر سے، بولنا بھی اب ایک باضابطہ بیماری کا درجہ حاصل کرچکا ہے۔ ڈرائنگ روم ہو یا ہوٹل کی کُرسی یا پھر محلے کا کوئی چبوترا، جہاں چار یار مل جائیں وہیں ''اسٹریٹ ٹاک شو‘‘ شروع ہو جاتا ہے۔ ایڈیٹ باکس کی مہربانی ہے کہ منہ میں زبان میں رکھنے والے پاکستانیوں کی انتہائی واضح اکثریت از خود نوٹس کے تحت مبصّر اور تجزیہ کار کے منصب پر فائز ہو بیٹھی ہے! 
جہاں محض بولنے کو خیالات کا اظہار سمجھ کو خوش ہولیا جائے وہاں خرابیاں ہی تو جنم لیں گی۔ آج کے پاکستانی معاشرے میں یہی ہو رہا ہے۔ ایڈیٹ باکس کی مہربانی سے لوگ جہان بھر کے متعلقہ اور غیر متعلقہ موضوعات پر تجزیہ کاروں کو سنتے ہیں اور پھر خود بھی تجزیہ کار کے منصب پر فائز ہوکر مائل بہ گفتار ہو جاتے ہیں۔ بولنے کی گاڑی چل پڑے تو کہاں رکتی ہے؟ ؎ 
بات سے بات نکلتی ہی چلی جاتی ہے 
یہ وہ عادت ہے کہ پلتی ہی چلی جاتی ہے 
سوچنے اور بولنے پر پابندی لگانا کسی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں۔ اِس ''آزادی‘‘ کا فائدہ اِس قدر اٹھایا گیا ہے کہ اب تو یہ آرزو پنپنے لگی ہے کہ کاش تھوڑی سی پابندی بھی عائد کردی جائے! بولنے کا ہَوکا کس حد تک پروان چڑھ چکا ہے اِس کا اندازہ اِس بات سے لگائیے کہ سبزی اور پھلوں کا ٹھیلا لگانے والے بھی جب کچھ سستانے اور آدھا کپ چائے پینے کے لیے سڑک چھاپ ہوٹل کی کرسیوں پر بیٹھتے ہیں تو سیاسی و عسکری امور پر خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں اور دس پندرہ منٹ کے انسٹنٹ ٹاک شو کے آخری لمحات میں مسائل کا حل تجویز کرنے سے بھی مجتنب نہیں رہتے! 
خیالات کے اظہار پر پابندی عائد کردی جائے یا بولنے کی بے لگام آزادی دے دی جائے، دونوں صورتوں میں نتیجہ تقریباً یکساں برآمد ہوتا ہے۔ یعنی لوگ تو ہر وقت بولتے دکھائی دیتے ہیں مگر کام کی باتیں کم ہی سُنائی دیتی ہیں۔ ایسے میں آلڈس ہکسلے یاد آتے ہیں جنہوں نے اپنے ناول ''بریو نیو ورلڈ‘‘ میں ایک ایسے معاشرے کا نقشہ پیش کیا تھا جس میں لوگوں کو بے لگام آزادی دے کر ناکارہ بنادیا گیا ہے! آلڈس ہکسلے ہی کا جملہ تھا کہ جہاں کسی بھی بات پر کوئی پابندی نہ ہو وہاں کام کی باتیں غیر متعلقہ اور لاحاصل باتوں کے سمندر میں غرق ہو جاتی ہیں! 
سوچنے اور بولنے کے معاملے میں ہم (یعنی بیشتر پاکستانی) بھی اب بند گلی میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ بظاہر بہت کچھ کہا جارہا ہے مگر کام کی بات خال خال ہی سُنائی دیتی ہے۔ لوگ اندر کا کچرا باہر لانے ہی پر اکتفا نہیں کر رہے بلکہ اندر مزید کچرا پیدا کیے جارہے ہیں۔ روزمرہ گفتگو میں بھی ڈھنگ کے دو چار جملے بولنے کی صلاحیت نہ رکھنے والے بضد ہیں کہ اُن کی ہر بات تجزیہ کاری کے زُمرے میں رکھی جائے! ایک ان کہی فرمائش یہ بھی ہے کہ ہر بات کو ماہرانہ رائے سمجھ کر قبول کرلیا جائے اور رائے زنی سے گریز کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ جب بھی کچھ کہا جائے تو لوگ داد دیتے ہوئے کہیں ع 
تم بات کرو ہو کہ کرامات کرو ہو! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں