"MIK" (space) message & send to 7575

جانوروں کو سمجھائے کون؟

انسان ہر دور میں تبدیل ہوا ہے اور اپنے ماحول کو بھی اُس نے خوب تبدیل کیا ہے۔ اگر بات زندگی کو زیادہ سے زیادہ پرآسائش بنانے کی ہے تو انسان سے زیادہ ذہین اور ہنرمند مخلوق روئے زمین پر نہیں۔ حیوانات کی دنیا میں ہمیں ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا جس کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ ہزاروں سال میں وہ کچھ تبدیل ہوئے ہیں۔ پیاس بجھانے کے لیے وہ آج بھی چار پیروں چلتے ہوئے پانی کے ذخیرے تک پہنچتے ہیں اور اُس میں منہ ڈال دیتے ہیں۔ 
جانور اگر پیچھے رہ گئے ہیں تو اِس میں انسانوں کا کوئی قصور نہیں۔ بات یہ ہے کہ جانوروں میں آگے بڑھنے کی لگن پائی ہی نہیں جاتی۔ انسان اُنہیں بہت کچھ سکھا سکتے ہیں مگر وہ کچھ سیکھنے کو تیار ہی نہیں۔ جانوروں کو اپنی روش پر گامزن رہنا پسند ہے اور اِس کا نتیجہ بھگتنے کا بھی اُنہیں بہت شوق ہے۔ 
انسانوں کی دنیا میں بہت کچھ بدل چکا ہے مگر جانور ہزاروں سال سے ساتھ رہنے پر بھی اِس حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ بہت سے جانور اب تک خلوص اور لگاؤ کو نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ اس کا اظہار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اب اُنہیں کس طور سمجھایا جائے کہ آج کی دنیا میں اِن تمام اوصاف و اقدار کی کوئی خاص ضرورت نہیں رہی۔ آج کا انسان انتہا سے زیادہ پریکٹیکل ہے۔ وہ ہر چیز، ہر صلاحیت، ہر جذبے اور ہر رشتے کو بہت اچھی طرح ناپ تول کر، چھان پھٹک کر بروئے کار لاتا ہے۔ اپنا زیادہ سے زیادہ فائدہ سوچنا آج کے انسان کا انتہائی بنیادی، جبلّی وتیرہ ہے۔ اور اگر اپنا فائدہ یقینی بنانے کے لیے کسی کا نقصان یقینی بنانا پڑے تو ایسا کرنے میں بھی کچھ ہرج نہیں! باقی سب کے اُلّو ٹیڑھے ہوتے ہیں تو ہو جائیں، بنیادی سوال اپنا اُلّو سیدھا کرنے اور سیدھا رکھنے کا ہے! 
یہ تمام ''نکاتِ عالیہ‘‘ ہمیں برازیل کے ایک گھوڑے کی طرف سے محبت کے اظہار پر یاد آئے ہیں۔ برازیل میں ایک شخص کا حادثے میں انتقال ہوا تو اُس کی آخری رسوم میں رشتہ داروں اور احباب کے ساتھ ساتھ اُس شخص کے پالتو، بلکہ چہیتے گھوڑے کو بھی لایا گیا۔ اپنے مالک کا تابوت دیکھ کر گھوڑے کے دل میں جذبات کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ وہ اپنا سر تابوت پر رکھ کر چند لمحات تک غمگین انداز سے ہنہناتا رہا۔ یہ منظر دیکھ کر جنازے کے تمام شرکا کی آنکھیں چھلک اٹھیں۔ ایک جانور کے دل میں مالک کے لیے ایسی محبت دیکھ کر سب حیران رہ گئے۔ 
حق تو یہ ہے کہ گھوڑے کی اِس حرکت پر حیران ہونے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ گھوڑے نے وہی کیا جو جانوروں کی دنیا کا اصول ہے۔ جانور آج بھی مالک کے وفادار ہیں اور اُس سے الگ ہونے پر جذباتی ہو اُٹھتے ہیں۔ حیرت تو اُس وقت ہونی چاہیے جب کوئی جانور مالک سے یا پھر دو وقت کا چارا دینے والے سے بے وفائی کرے، موقع ملتے ہی نظریں پھیرلے! 
برازیل کے گھوڑے نے مالک کی موت پر جذباتی ہوکر ہمیں ''مینٹل ٹائم ٹریول‘‘ پر مجبور کر دیا۔ ہم چند لمحات کے لیے 1975 کے کراچی میں پہنچ گئے جب ہم کراچی کے مضافات میں یعنی شہر کے قلب سے بہت دور ڈبّا کالونی، سعید آباد میں رہائش رکھتے تھے۔ والد کی دکان شہر میں تھی۔ ہم صبح ساڑھے چھ بجے تیار ہو کر والد کے ساتھ گھر سے نکلتے تھے۔ اسکول شہر میں دکان کے نزدیک ہی تھا۔ وہاں سے دن کے ایک بجے چھٹی ہونے پر ہم رات آٹھ بجے تک دکان ہی پر بیٹھتے تھے اور پھر والد کے ساتھ رات نو بجے تک گھر پہنچتے تھے۔ 
ہمارے گھر کے باہر ایک کتا گھومتا رہتا تھا۔ بڑی جسامت کا یہ کتا لومڑی جیسا دکھائی دیتا تھا اس لیے والدِ مرحوم نے اُس کا نام Foxy رکھا تھا۔ جب ہمارے گھر سے روکھی سوکھی ملنے لگی تو وہ ہم سے خاصا مانوس ہوگیا۔ 
کتوں کی وفاداری مشہور ہے مگر ''فاکسی‘‘ نے تو وفاداری کی انتہا کر دی۔ بس اسٹاپ گھر سے خاصا دور تھا۔ مین روڈ سے ہمارا گھر کم و بیش سات گلیوں کے بعد یعنی تقریباً 300 میٹر کے فاصلے پر تھا۔ جب ہم رات نو بجے بس سے اترتے تھے تب تک بس اسٹاپ پر خاصا سنّاٹا ہو چکا ہوتا تھا۔ راہ میں آوارہ کتے بھی بہت ہوتے تھے۔ تب فاکسی ہمیں لینے کے لیے بس اسٹاپ پر موجود ہوتا تھا‘ اور ساتھ ساتھ چلتا ہوا گھر تک آتا تھا تاکہ راستے میں کوئی آوارہ یا پاگل کتا ہم پر حملہ آور نہ ہو! 
ہم سعید آباد والے گھر میں سوا سال رہے۔ اِسی دوران کسی نے فاکسی کو کھانے پینے کی کسی چیز میں زہر دے دیا۔ اُس نے یہ وفا ناآشنا دنیا چھوڑ کر ملکِ عدم کی راہ لی۔ بیالیس سال بعد بھی فاکسی ہمیں یاد ہے کہ اُس نے ہم سے ملنے والی روکھی سوکھی روٹیوں کا حق ادا کرنے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ اب سوچیں تو حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کہاں تھی اور کہاں آ گئی ہے۔ اب تو کسی پر زندگی کا ایک بڑا حصہ بھی صرف کیجیے تو آخر میں جواب ملتا ہے ''آخر آپ نے ہمارے لیے کِیا ہی کیا ہے؟‘‘ 
جانور اِس لیے پیچھے رہ گئے ہیں وہ اب تک دنیا کی ضرورت اور طلب کے تناسب سے ''پریکٹیکل‘‘ نہیں ہو پائے ہیں! وہ آج بھی کسی مہربان چہرے کو آنکھوں کے سامنے پاتے ہیں تو دُم ہلا کر شکریہ ادا کرتے ہیں۔ انسان چاند پر قدم رکھنے کے بعد اب مِرّیخ پر بستیاں بسانے کے فراق میں ہے اور جانور ہیں کہ اب تک وفا کی وادیوں میں بھٹک رہے ہیں! محبت اور وفا ہی نے تو اب تک انسانوں اور جانوروں کو الگ الگ خانوں میں بانٹ رکھا ہے۔ کتوں کی وفاداری ایسی محکم ہے کہ انسان کسی بھی معاملے میں وفا کرنے سے کتراتے ہیں کہ کہیں لوگ کتوں جیسا نہ سمجھنے لگیں! 
جانوروں کی دنیا سے ایسی خبریں آتی رہتی ہیں جن میں انسانوں کو شرمسار کرنے کا تھوڑا بہت سامان ہوتا ہے۔ کہیں کوئی کتا مالک کے لیے جان دینے پر آمادہ دکھائی دیتا ہے تو کہیں کوئی گھوڑا مالک کے مرنے پر آنسو بہانے سے باز نہیں رہتا۔ کہیں کوئی بِلّی اپنے مالک یا مالکن کو بیمار پاکر بیمار پڑ جاتی ہے۔ ایسی ہی خصلت گدھوں میں بھی پائی گئی ہے۔ 
جانوروں کی کھوپڑی میں معمولی سی عقل سے زیادہ کچھ نہیں پایا جاتا۔ زندہ رہنے یعنی خطرات کا سامنا کرنے اور پیٹ بھر کھانے کا اہتمام کرنے کے لیے جتنی عقل درکار ہوتی ہے وہ جانوروں کو خوب نوازی گئی ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ جذبات کے معاملے میں جانوروں نے انسانوں سے آگے نکلنے اور اُنہیں شرمسار کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ اکیسویں صدی کا انسان بھرپور ترقی اور پرآسائش زندگی یقینی بنانے کے معاملے میں تمام مسلّمہ اقدار کو تج کر آگے بڑھ چکا ہے۔ اب اگر کسی انسان کو اقدار کے ساتھ اور اُصولوں کے مطابق زندگی بسر کرتا ہوا پائیے تو وہ کسی اور سیّارے کی مخلوق معلوم ہوتا ہے! 
ہمارا فاکسی ہو یا برازیل کا گھوڑا، جانوروں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اب تک اقدار کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ جس در سے روٹی ملتی ہے وہ اُسی کے ہو رہتے ہیں اور جس کی روٹی کھائی ہو اُسے دیکھ کر دُم ہلاتے ہیں، ہنہناتے ہیں، چہچہاتے ہیں۔ جانوروں کو سمجھائے کون؟ سب سے بڑا مسئلہ ''کمیونی کیشن گیپ‘‘ کا ہے۔ ہم اور جانور ع 
زبانِ یارِ من ترکی وہ من ترکی نمی دانم 
کی منزل میں اٹک کر رہ گئے ہیں۔ جانوروں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ آج کی دنیا میں ''ترقی‘‘ کرنا ہے تو انسانوں جیسا ہونا پڑے گا۔ فی زمانہ آگے بڑھنے کی بہترین طریق یہی ہے کہ جس کسی سے کچھ مدد ملے اُس فرد یا افراد کو اور اُن کے احسان کو بھول جاؤ تاکہ جواباً کچھ نہ کرنا پڑے۔ جانور اب تک وابستگی، جذبات اور وفا کے پھیر میں ہیں۔ وہ خود ہی غور کریں ع 
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں