"MIK" (space) message & send to 7575

’’ہم ہیں ناں!‘‘

بالی وڈ کی حقیقی کلاسک مووی ''شعلے‘‘ کس نے نہیں دیکھی؟ جس نے نہیں دیکھی وہ اپنے آپ کو محروم سمجھے۔ چار عشروں سے بھی زائد مدت گزر چکی ہے مگر اِس فلم کی مقبولیت میں بال برابر بھی فرق واقع نہیں ہوا۔ اِس فلم کے کرداروں، کہانی کے مختلف اجزاء اور کہانی کے ماحول پر متعدد فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔ پاکستان میں بھی ''شعلے‘‘ کی کئی بھونڈی اور گئی گزری نقلیں تیار کی گئیں جن میں ''حشر نشر‘‘ سب سے نمایاں ہے۔ اس فلم میں مصطفی کردار کا ادا کیا ہوا جملہ ''میرا ناں کالا ناگ اے‘‘ ملک بھر میں مقبولیت سے ہم کنار ہوا تھا۔ 
آپ سوچ رہے ہوں گے ہم کالم کے تمہیدی حصے میں ''شعلے‘‘ کا ذکر کہاں لے بیٹھے۔ گزشتہ روز ایک خبر پڑھ کر ہمیں یہ فلم یاد آگئی۔ ''شعلے‘‘ کے ایک سین میں ولن گبّر سنگھ (امجد خان مرحوم) رام گڑھ کے باشندوں کو سمجھاتا ہے ''گبّر کے تاپ (غیظ و غضب) سے تم سب کو ایک ہی آدمی بچا سکتا ہے ... خود گبّر! اور اگر اس کے بدلے میں اُس کے آدمی (یعنی ڈاکو) تم سے تھوڑا بہت اناج اور دوسرا سامان لیتے ہیں تو کیا کوئی ظلم کرتے ہیں؟ کوئی ظلم نہیں کرتے، میں کہتا ہوں کوئی ظلم نہیں کرتے۔‘‘ 
یہ ہے جرم پسند ذہنیت کا فلسفہ۔ یعنی پہلے ایسا ماحول پیدا کیجیے کہ لوگ شدید خوفزدہ ہوجائیں اور پھر وہ اپنے جان و مال کے تحفظ کے لیے اُنہی عناصر سے رابطہ کریں جنہوں نے یہ ماحول پیدا کیا ہو! یہ معاملہ محض رام گڑھ تک محدود نہیں۔ دنیا بھر میں صدیوں سے یہی ہوتا آیا ہے۔ 
''شعلے‘‘ کے رام گڑھ کا ماحول کراچی میں تین عشروں سے برقرار ہے۔ شکل البتہ بدلتی رہتی ہے۔ سیاسی عناصر نے 1980 کے عشرے کے وسط سے دو تین سال پہلے تک یہی سب کیا اور اپنی تجوریاں بھرلیں۔ جس طور تِکّے کو کوئلوں پر بُھونا جاتا ہے بالکل اُسی انداز سے شہریوں کا ناک میں دم کرکے پھر اُن سے امن کی بحالی کی قیمت مختلف شکلوں میں وصول کی جاتی رہی ہے۔ 
روزنامہ دنیا کے کرائم رپورٹر کاشف نعیم نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسٹریٹ کرائمز کا جن ایک بار پھر بوتل سے باہر اپنی مرضی کا کھیل کھیل رہا ہے۔ اُسے روکنے اور ٹوکنے والا کوئی میکینزم بظاہر موجود نہیں۔ پولیس فورس موجود ہے مگر اِس طرح کہ غالبؔ یاد آجاتے ہیں ع 
ہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے! 
پولیس کے پاس کرنے کو بہت کچھ ہے۔ وی آئی پی ڈیوٹیز بھی دینا ہوتی ہیں۔ پھر پتھاریداروں سے بھی نمٹنا ہوتا ہے۔ انسدادِ تجاوزات کی مہم کے دوران عوام کے اشتعال کا سامنا بھی کرنا ہوتا ہے۔ جرائم کی روک تھام میں ذرا بھی کچھ الٹا سیدھا ہوجائے تو ساری کارکردگی دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ 
معاملات جب یہ ہوں تو عوام کہاں جائیں؟ تحفظ فراہم کیے جانے کی کس سے امید رکھیں؟ ایسے میں جرائم پیشہ افراد خلاء پُر کرنے کے لیے سامنے آئے ہیں۔ ع 
''ہمیں نے درد دیا ہے، ہمیں دوا دیں گے‘‘ 
کے مصداق جرائم پیشہ افراد نے تاجروں اور صنعت کاروں کو ''سکیورٹی‘‘ دینا شروع کردیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کے متعدد علاقوں میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں کا گراف خطرناک حد تک بلند ہوگیا ہے۔ ایسے میں تجارتی اداروں کی سپلائی وینز اور دیگر گاڑیوں پر بھی حملے کیے جاتے ہیں، مال لُوٹنے کے ساتھ ساتھ عملے کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی کبھی تو گولی بھی مار دی جاتی ہے۔ پولیس کی ناکافی نفری اور غیر متاثر کن کارکردگی سے مایوس ہوکر اب کاروباری شخصیات نے جرائم پیشہ گروہوں کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔ سلطان آباد، ماڑی پور، کیماڑی، لیاری، فیڈرل بی ایریا، گلشن اقبال، کلفٹن، ہجرت کالونی اور دیگر علاقوں میں اسٹریٹ کرائمز میں ملوث گروہ معقول ماہانہ رقم کے عوض کاروباری اداروں کی گاڑیوں کو تحفظ فراہم کرنا شروع کردیا ہے۔ ضمانت فراہم کی جاتی ہے کہ صبح 9 سے شام 5 بجے تک کمپنی کی گاڑی پر کوئی حملہ نہیں ہوگا، لوٹ مار نہیں کی جائے گی۔ اور اگر اس دوران کوئی واردات ہو جائے تو مال سمیت گاڑی واپس دلانے کی بھی ضمانت دی جاتی ہے۔ 
کراچی میں سکیورٹی کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اُسے ''ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے‘‘ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ کبھی کبھی تو ضرورت ماں سے کہیں زیادہ، ایجاد کا باپ ثابت ہوتی ہے اور کراچی میں اِس وقت ایسا ہی ہو رہا ہے! 
اب ذرا یاد کیجیے کہ اہلِ کراچی کو کن کن چیزوں سے محروم کرنے کے بعد اُن چیزوں کی فراہمی یقینی بنانے کے نام پر اُن کی جیب ڈھیلی کرائی جاتی رہی ہے۔ پانی سے شروع کیجیے۔ شہر کے بیسیوں علاقے ایسے ہیں جہاں پانی برائے نام بھی نہیں آتا۔ بلدیہ ٹاؤن اور سعید آباد میں ڈھائی عشروں سے پندرہ دن میں ایک بار پانی دیا جاتا ہے اور وہ بھی محض ایک ڈیڑھ گھنٹہ۔ اگر بجلی گئی ہوئی ہو اور گھر کی موٹر نہ چل پائے تو وقفے کو مہینے بھر کا سمجھیے۔ اور تب تک؟ ظاہر ہے واٹر ٹینکر منگوانا پڑے گا۔ اور بلدیہ ٹاؤن یا سعید آباد پر کیا موقوف ہے، کراچی کے بیسیوں علاقوں کے مکین روزمرہ استعمال کے لیے پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ واٹر ٹینکرز عام طور پر آلودہ یا کھاری پانی فراہم کرتے ہیں۔ یہ پانی کسی طور پیا نہیں جاسکتا۔ فلٹر کرلینے سے بھی اِن کا کھاری پن دور نہیں ہوتا اور پیٹ کی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ یعنی لوگوں کو عام گھریلو استعمال کے لیے الگ اور پینے کے لیے الگ پانی خریدنا پڑتا ہے۔ جن علاقوں میں پانی باقاعدگی سے آتا وہاں کے مکین بھی پینے کا پانی خریدنے پر مجبور ہیں کیونکہ سسٹم کے تحت آنے والا پانی انتہائی آلودہ اور مُضِر ہوتا ہے۔ 
بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوا تو کرتی تھی مگر اِس طور نہیں کہ جینا حرام ہو جائے۔ اب واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے کہ جنریٹرز، یو پی ایس اور کنورٹرز کی فروخت بڑھانے اور لوگوں کو اِن چیزوں پر غیر معمولی حد تک انحصار پذیر بنائے رکھنے کے لیے لوڈ شیڈنگ کو بہ حُسن و خوبی بروئے کار لایا گیا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے لیے شیڈول طے کرنے سے بھی اب گریز کیا جارہا ہے۔ ایسا یقیناً اِس لیے ہے کہ لوگ اچانک بجلی کے جانے سے مزید پریشان ہوں اور گھر میں جنریٹر یا یو پی ایس رکھنے پر مجبور ہوں۔ جو لوگ گھر میں کمپیوٹر پر کام کرتے ہیں اُن کے لیے بجلی کا اچانک چلا جانا انتہائی اذیت کا باعث بنتا ہے۔ اُنہیں یا تو یو پی ایس کا اہتمام کرنا پڑتا ہے یا پھر لیپ ٹاپ خریدنا پڑتا ہے۔ یہاں بھی ''ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے‘‘ والا فارمولا ہی کام کر رہا ہے یعنی بجلی کے معاملے میں لوگوں کو غیر یقینیت کا اِس قدر شکار کردیجیے کہ وہ متعلقہ آلات اور مشینری خریدنے پر مجبور ہوں! 
معاملہ سکیورٹی، پانی اور بجلی تک نہیں رکا۔ اب گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی شروع کردی گئی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات کے تدارک کے لیے لوگ ایل پی جی سلنڈرز کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔ 
قدم قدم پر ''ہم ہیں ناں‘‘ کی صدا لگانے والے اشیاء و خدمات کے ساتھ حاضر ہیں۔ کوئی ایسا گروہ بھی ہے جو ''شعلے‘‘ کے رام گڑھ کی طرز کا یہ ماحول ختم کرنے کے لیے عزم کے ساتھ سامنے آکر کہے ''ہم ہیں ناں!‘‘

٭٭٭

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں