"MIK" (space) message & send to 7575

نادان بھینس، سرکاری گھاس

گدھے خواہ کہیں کے ہوں، گدھے ہوتے ہیں۔ بالکل اِسی طرح بھینس خواہ کہیں کی ہو، اول و آخر بھینس ہی ہوتی ہے۔ وہ کسی نہ کسی مرحلے پر ایسی حرکت کر ہی بیٹھتی ہے کہ کہنا پڑتا ہے لیجیے، گئی بھینس پانی میں! عجیب و غریب خبروں کو جنم دینے والے ملک بھارت سے ایک دلچسپ اور ''بھینس بردار‘‘ خبر آئی ہے کہ سب سے بڑی ریاست اُترپردیش کی پولیس نے ایک بھینس کے خلاف کارروائی کر ڈالی ہے۔ 
بھینس اور کارروائی؟ کارروائی تو اُن کے خلاف کی جاتی ہے جو کسی جرم کا ارتکاب کرنے کے بعد قانون نافذ کرنے والوں کو جُل دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ بھینس کی تو فطرت ہی میں ''قانون پسندی‘‘ اور امن پرستی لکھی ہے۔ وہ تو کھا پی کر خشکی پر کسی کونے میں یا پھر پانی میں پڑی رہتی ہے۔ جس سُکونِ قلب کے لیے سادھو اور جوگی ہمالیائی سلسلۂ کوہ کی چوٹیوں پر دُھونی رمانے کے فراق میں رہتے ہیں وہ لافانی سُکون اور طمانیت تو بھینسوں کو قدرت کی طرف سے یونہی، کسی جدوجہد یا مشقّت کے بغیر عطا کی گئی ہے! 
اتر پردیش کی پولیس نے بھینس کے خلاف کارروائی کرکے یہ ثابت کر دیا کہ عقل بڑی یا بھینس والا محاورہ غلط ہے۔ اب یہ محاورہ کچھ یوں ہونا چاہیے: عقل بڑی یا بھینس... یا پھر اُتر پردیش کی پولیس! 
واقعہ کچھ یوں ہے کہ لکھیم پور کھیری کے علاقے میں پالیا گاؤں کے بلدیو ویدک انٹر کالج کے احاطے میں گھاس اُگ آئی۔ آپ سوچیں گے زمین میں گھاس اُگتی ہی ہے۔ زمین کالج کی تھی تو کیا اُس میں علم و حکمت کے سرکنڈے اُگتے! ٹھیک ہے جناب، مگر سوال گھاس کے اُگ آنے کا نہیں بلکہ اُس پر ایک بھینس کے مہربان ہونے کا ہے۔ ایک بھینس خوراک کی تلاش میں نکلی تو گھومتی گھماتی بلدیو ویدک انٹر کالج کی طرف آنکلی۔ گھاس سے بھرا، سبزۂ نورستہ کی بہاریں بے نقاب کرتا احاطہ دیکھ کر بھینس کے منہ میں پانی بھر آیا اور اُس نے منہ مارنا شروع کردیا۔ تازہ اور خاصی بڑھی ہوئی گھاس کا ملنا بھینس کے لیے تو مُراد بر آنے والا معاملہ ہو گیا۔ 
پتنگے اور دیپک کا ملاپ بھلا کون پسند کرتا ہے؟ پیار کرنے والوں کو کہیں بھی برداشت نہیں کیا جاتا۔ بھینس کو گھاس سے فطری اور جبلّی اُلفت ہوتی ہے۔ بس، اتنا کافی تھا۔ کالج کی حدود میں لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک پیج پر آنا تو پرنسپل کو گوارا تھا مگر بھینس اور گھاس کو ایک پیج پر دیکھ کر اُن کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور اُنہوں نے پولیس کو بروقت مطلع کر دیا۔ 
پولیس بھلا ایک کالج کے پرنسپل کی فون کال کیسے نظر انداز کرتی؟ وہ سمجھی شاید کوئی ''لفڑا‘‘ ہو گیا ہے۔ ایسے معاملات میں تھوڑی بہت اضافی آمدن کی بھی سبیل نکل آتی ہے اس لیے پولیس پارٹی کسی جھگڑے کی بُو سُونگھتی ہوئی بھاگم بھاگ کالج پہنچی۔ مگر یہ دیکھ کر وہ بہت حیران و مایوس ہوئی کہ وہاں کوئی لڑکا ہے نہ لڑکی۔ ذہنوں میں یہ خیال کوندا کہ شاید کسی نے مذاق کیا ہے۔ خاکی وردی والے اہلکار ابھی اِسی اُدھیڑ بُن میں تھے کہ پرنسپل نے کمرے سے باہر نکل کر پولیس پارٹی کو بتایا کہ اُسے دراصل ایک بھینس کے خلاف کارروائی کے لیے بلایا گیا ہے! پولیس پارٹی بہت بِھنّوٹ ہوئی مگر مسئلہ یہ تھا کہ جس فون کال کے جواب میں وہ دوڑی چلی آئی تھی وہ کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کی نہیں بلکہ ایک کالج کے پرنسپل کی تھی۔ اور پھر جب جائے وقوع تک آنا ہو ہی گیا تھا تو پھر تھوڑی بہت کارروائی کرلینے میں کیسی قباحت؟ اور پھر ؎ 
کچھ یادگارِ شہرِ ستم گر ہی لے چلیں 
آئے ہیں اِس گلی میں تو پتّھر ہی لے چلیں 
کے مصداق حُجّت تمام کرنے کے نام پر پولیس پارٹی نے بھینس کو رنگے ہاتھوں یعنی بھرے منہ ''گرفتار‘‘ کر لیا! لیجیے جناب، بھینس کو پکڑ تو لیا مگر اب سوال یہ اُٹھ کھڑا ہوا کہ اُس کے خلاف قانون کے مطابق کاغذی کارروائی کس کھاتے میں کریں! بہت سوچا گیا مگر جب کوئی ڈھنگ کا نکتہ نہ سُوجھا تو پولیس نے بھینس پر ''سرکاری املاک‘‘ کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کردیا! 
اِسے کہتے ہیں ماروں گُھٹنا، پُھوٹے آنکھ! سرکاری کالج کے احاطے میں اُگنے والی گھاس کو بھی سرکاری املاک کے زُمرے میں رکھنا کچھ اِس خطے کی پولیس ہی کے بس کی بات ہے۔ پولیس نے کچھ ہی دیر میں بھینس کو ''داخلِ دفتر‘‘ بھی کر دیا۔ جی نہیں، ہم پرنسپل کے دفتر کی بات نہیں کر رہے۔ وہاں جُگالی کے لیے کسی اضافی بھینس کی گنجائش نہیں تھی! بھینس کو پولیس تھانے لے گئی اور وہاں گھاس کے وجود سے سراسر نا آشنا احاطے میں موجود واحد درخت سے باندھ دیا۔ 
ہمارے خیال میں پولیس کو بھینس پر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے بجائے ''کارِ سرکار میں مداخلت‘‘ کا الزام عائد کرنا چاہیے تھا۔ اب دیکھیے نا، جو کام پولیس کر رہی ہے وہی بھینس بھی کرے تو اِسے کارِ سرکار میں مداخلت ہی تصور کیا جائے گا۔ گھاس چَرنے کے لیے پولیس اور دیگر سرکاری محکمے اور ادارے کیا کم ہیں جو بھینس نے بھی سرکاری پراپرٹی کی حدود میں یہی کام شروع کر دیا! اور ہاں، بھینسیں بھی جُگالی کرکے دن گزارتی ہیں۔ یہی کام سرکاری دفاتر میں بھی ہوتا ہے۔ گویا بھینسیں سرکاری ملازمین کی برابری کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ جُگالی کے معمول کی بنیاد پر بھی بھینس کو مقدمے کا سامنا ہو سکتا تھا! 
ہو سکتا ہے کہ بھینس کو علم و فن سے یکسر عاری پاکر کسی نے مشورہ دیا ہو کہ جاکر سرکاری کالج کی گھاس چَرلے۔ کیا پتا اِس بہانے طبیعت میں تھوڑی بہت علم دوستی پیدا ہو جائے! مگر صاحب، بھینس آخر بھینس تھی۔ اِتنی سی بات نہ سمجھ سکی کہ فی زمانہ اِس خطے میں عمومی سرکاری کالج کا علم و فن سے کیا تعلق؟ جب کالج میں باضابطہ پڑھنے والے لڑکی اور لڑکیاں گھاس پر چلنے اور بیٹھنے کے باوجود علم سے ''آلودہ‘‘ نہ ہوسکے تو پھر اُسے چَرنے سے کون سی دانش پیدا ہو جانی تھی! مگر پھر ہمیں یہ خیال بھی آیا کہ بھینس اگر اِتنی سی بات سمجھ لیتی تو بھینس کیوں رہتی، لیکچرار نہ بن جاتی! 
پولیس نے بھینس کو تھانے کے احاطے میں 48 گھنٹے باندھے رکھا۔ کالج کے احاطے کی گھاس تو بھینس کو کچھ نہ دے سکی مگر تھانے کے احاطے میں باندھے جانے پر پولیس والوں کی تھوڑی بہت چاندی ضرور ہوگئی۔ وہ ایسے کہ جب تک بھینس کے مالک کو خبر ہو پاتی، پولیس اہلکاروں نے دو مرتبہ چار چار لیٹر دودھ دوہ کر اُس زحمت کا ہرجانہ وصول کیا جو پرنسپل کی فون کال کے باعث اُنہیں برداشت کرنا پڑی تھی! اور جب تک پولیس تیسری بار دودھ دوہنے کی کوشش کرتی، کم بخت میڈیا والوں کو اِس ''کیس‘‘ کی بھنک پڑگئی۔ بھینس کا مالک جب ڈی ایس این جیز کے جِلو میں تھانے پہنچا تو پولیس کے پاس بھینس کو ''ریلیز‘‘ کرنے کے سوا چارہ نہ رہا۔ 
اِس کیس میں خطے کی تمام بھینسوں کے لیے یہ سبق پوشیدہ ہے کہ آئندہ کہیں بھی تازہ گھاس دیکھ کر منہ مارنے سے پہلے ذرا سوچ لیا کریں۔ اگر گھاس سرکاری کالج کی سرزمین پر اُگی ہو تو اُسے چَرنے سے دانش تو کیا پیدا ہوگی، آزادی ہی خطرے میں پڑ جائے گی اور ''کارِ سرکار‘‘ میں مداخلت کا الزام سہتے ہوئے تھانے کا چکر لگانا پڑے گا کیونکہ سرکاری زمین پر اُگی ہوئی گھاس پر پہلا حق سرکاری ملازمین کا ہوا کرتا ہے! اِس معاملے میں سرکاری مشینری کو کچھ سمجھانا بھینس کے آگے بین بجانے جیسا ہی عمل ثابت ہوتا ہے!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں