"MIK" (space) message & send to 7575

بے ذہنی کی بہار … مگر کیوں؟

آج کل پاکستانی معاشرے کے چمن میں بے ذہنی کی بہار کا موسم چل رہا ہے۔ معاملہ اس قدر سنگین ہے کہ لگتا ہے لوگوں نے اپنے دماغ کہیں رکھ دیئے ہیں اور خود اُنہیں بھی یاد نہیں کہ کہاں رکھے ہیں! ہر طرف بے دماغی و بے ذہنی کا راج ہے۔ جس معاملے کی تہہ میں دیکھیے، صرف یہی محسوس ہوتا ہے کہ اور تو سب کچھ ہے، بس ذہن ہی کام نہیں کر رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ سب نے ذہن کو متحرک کرنے اور بروئے کار لانے سے مکمل انکار کی روش اپنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ 
لوگ ذرا سی بات پر سبھی کچھ تباہ کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ زندگی بسر کرنے کے کچھ آداب ہوا کرتے ہیں۔بغیر کچھ سوچے سمجھے اور دماغ کو حرکت میں لائے بغیر زندگی بھلا کس طور گزاری جاسکتی ہے؟ مگر افسوس کہ لوگ ایسا ہی کر رہے ہیں۔ 
بات بات پر مشتعل ہوکر انتہائی اقدام کر گزرنا جیسے کھیل ہوگیا ہے۔ ایک لمحے میں اپنی ذہنی کی گرفت میں آکر لوگ کچھ بھی کر گزرتے ہیں اور پھر ذرا سی دیر میں اُنہیں اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کیا کر ڈالا۔ معمولی گھریلو جھگڑوں میں لوگ ایسے جذباتی ہو اٹھتے ہیں کہ مرنے پر مارنے پر تُل جاتے ہیں۔ ایسی خبریں تواتر سے آتی رہتی ہیں کہ کہیں معمولی سے گھریلو جھگڑے کی بنیاد پر کسی نے خود کشی کرلی تو کہیں ذرا سی بات پر کسی کو قتل کردیا گیا۔ کسی کو پسند کی لڑکی نہ ملے تو گلے میں پھندا ڈال لیتا ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ جس لڑکی سے شادی ممکن نہ ہو پارہی ہو اُسے پہلے ختم کیا جاتا ہے اور دوسرے مرحلے میں اپنی جان دی جاتی ہے تاکہ مرتے وقت اس بات کا یقین ہو کہ جو میری نہ ہوئی وہ کسی اور کی بھی نہ ہو پائی! کہیں گھریلو حالات سے دل برداشتہ ہوکر کوئی عورت بچوں سمیت نہر میں کود جاتی ہے تو کہیں کوئی امتحان میں ناکامی پر پھندا لگا لیتا ہے۔ 
بات بات پر جان پر کھیل جانے اور دوسروں کی جان لینے کو کھیل کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ زندگی سے بڑھ کر موت سے پیار جتایا جا رہا ہے۔ کچھ احساس ہی نہیں کہ زندگی کتنی بڑی نعمت ہے۔ اس عظیم نعمت کو یوں ضائع کیا جارہا ہے کہ یہ تماشا دیکھ کر کفِ افسوس مَلنے کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں رہتا۔ 
گزشتہ ماہ کئی المناک واقعات رونما ہوئے۔ ایک واقعہ وزارتِ داخلہ کے 59 سالہ نائب قاصد اقبال کی خود کشی کا تھا۔ اُس کا بیٹا بے روزگار تھا۔ وہ بیٹے کو سرکاری نوکری دلانا چاہتا تھا۔ اُُسے بتایا گیا کہ اُس کے مرنے ہی پر اُس کے بیٹے کو نوکری مل سکتی ہے۔ یہ جواب سُن کر اقبال بیٹے کو سرکاری نوکری دلانے کے لیے 23 مئی کو وزارتِ داخلہ کے عمارت کے بلاک R کی چھٹی منزل سے کود گیا اور جان دے دی! 
یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے، اِس کا ڈھنگ سے تجزیہ تو نفسی امور کے ماہرین ہی کرسکتے ہیں۔ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ قوم نے طے کرلیا ہے اب کسی بھی معاملے میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو زحمت نہیں دی جائے گی۔ اگر آپ دیگر معاملات کو ایک طرف ہٹاکر یعنی اقبال کے گھریلو حالات کو زیرِ بحث لائے بغیر جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ اِس معاملے میں کسی بھی پہلو پر سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ کیا ذریعۂ معاش کے طور پر صرف سرکاری نوکری رہ گئی ہے؟ اتنا بڑا ملک ہے، اپنی صلاحیتوں کو کہیں بھی اور کسی بھی شعبے میں بخوبی آزمایا جاسکتا ہے۔ 
معاشرے کے تقریباً ہر طبقے میں بے ذہنی یوں گھر کرگئی ہے کہ منطقی انجام کے بارے میں سوچ سوچ کر دل سہم سہم جاتا ہے۔ ہر طرف ایک ضِد سی دکھائی دیتی ہے کہ خواہ کچھ ہو جائے، ذہن کو زحمتِ کار دینا ہی نہیں ہے۔ سوچنے سے ایسی الرجی سی ہوچلی ہے جیسے یہ کوئی خطرناک، متعدّی مرض ہو! اور ستم بالائے ستم یہ کہ اگر کوئی سوچنے پر مائل کرنے کی کوشش کرے، زندگی کے نشیب و فراز کے بارے میں سمجھانا چاہے تو اُس سے بچنے کی باضابطہ کوشش کی جاتی ہے! جو کسی بھی معاملے میں سمجھانے اور منطقی سوچ کو محور بنا کر زندگی بسر کرنے کی تلقین کرے وہ ایسا برا لگتا ہے جیسے اُس نے گالیاں دے دی ہوں! 
یہ بے ذہنی ہی کا ''فیضان‘‘ ہے کہ کوئی بظاہر کسی بھی قانون کو تسلیم کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ گھر سے باہر قدم رکھیے اور دیکھیے کہ لوگ کس کس طرح قانون کی دھجیاں اڑانے پر بضد ہیں۔ کسی بھی سطح کی فنٹس کا اہتمام کیے بغیر گاڑی چلانا، سگنل توڑنا اور ٹریفک کے تمام اصولوں کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش کرنا سبھی نے وتیرہ بنالیا ہے۔ سڑک پار کرنے والوں کا خیال رکھنے کی روش اب ماضیٔ بعید کا افسانہ ہے۔ اور اِس معاملے میں حد یہ ہے کہ معمر اور ضعیف افراد یا خواتین کا بھی احساس نہیں کیا جاتا! اگر کوئی ٹریفک کے تمام اصولوں کو پامال کرتا جارہا ہو اور کسی سگنل پر، بہ حالتِ مجبوری، رکنے کی صورت میں اُسے اُس کی طرزِ فکر و عمل میں پائی جانے والی خرابیوں اور خامیوں کے بارے میں بتائیے تو شکریہ ادا کرنے کے بجائے ایسا محسوس کرتا ہے جیسے اُس کی شان میں گستاخی کردی گئی ہو! 
مئی کے دوران کراچی کا ساحل 18 زندگیاں نگل گیا۔ مگر اِس میں اُس کا کیا قصور؟ ساحل آگے بڑھ کر شہریوں کے گھروں میں تو داخل نہیں ہوا تھا۔ لوگ وہاں تک گئے اور زندگی داؤ پر لگا بیٹھے۔ کیوں؟ پھر وہی بے ذہنی کا رونا۔ کسی کو اس بات سے غرض نہیں کہ ذرا سی عدم توجہ سے کیا ہو سکتا ہے۔ متعلقہ ادارے چیخ چیخ کر تھک گئے کہ یہ موسم سمندر میں نہانے کا نہیں۔ سمندر بپھرا ہوا ہے۔ ساحل کی سیر کو سیر تک محدود رکھا جائے یعنی سمندر میں نہانے اور بہت آگے تک جانے سے گریز کیا جائے مگر لوگ کب مانتے ہیں۔ پکنک منانے والے ماتم کرتے پائے گئے۔ سندھ حکومت نے سمندر میں نہانے پر 6 ماہ کے لیے پابندی عائد کر دی۔ یہ انتہائی اقدام تھا مگر لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لیے لازم تھا۔ مگر لوگ باز نہ آئے۔ اگلے ہی دن بہت سے فیملیز کے ساتھ سمندر میں نہاتے پائے گئے۔ گویا طے کرلیا گیا ہے کہ جس بات میں ذرا سی بھی معقولیت پائی جاتی ہو اُس کے نزدیک نہیں جانا! 
قومیں ایسی ذہنی روش کے ساتھ کبھی نہیں پنپتیں۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ ہم بھیڑ اور ہجوم کی سطح سے بلند ہوکر قوم بننے کی شعوری کوشش کریں؟ جب تک ہم ہجوم اور بھیڑ کی سطح پر رہیں گے، بے ذہنی ہی ہم پر مسلط رہے گی۔ زندگی کے بنیادی اور طویل المیعاد فیصلے بھی وقتی اور سطحی نوعیت کے رہیں گے۔ ایسے میں ڈھنگ سے پنپنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں یہ زندگی اس لیے نہیں ملی کہ کچھ کرنے کے بارے میں بالکل نہ سوچیں۔ اس زندگی کو ڈھنگ سے بسر کرنا ہمارا فرض بھی ہے اور حق بھی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں