ایک طرف کائنات ہے، اُس کی اتھاہ گہرائیاں اور وسعتیں ہیں۔ اور دوسری طرف ہماری معمولی سی زندگی۔ معمولی سی یوں کہ جس کی ابتدا معلوم ہے نہ انتہا اُس وقت کے سمندر سے محض ایک بوند جیسی زندگی ملی ہے مگر اُس زندگی کو کس طور بسر کرنا ہے اِس کا خیال کسی کو نہیں۔ انسان منفرد ہے کہ سوچنا اور بولنا جانتا ہے۔ یہ دونوں صلاحیتیں اُسے باقی تمام مخلوق سے انتہائی ممیّز و ممتاز کرتی ہیں مگر انسان کی بدنصیبی یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے معاملات میں الجھ کر زندگی کا مقصد ہی بھول گیا ہے۔
ہمیں یہ زندگی بہت سے کاموں کے لیے ملی ہے۔ زندہ بھی رہنا ہے مگر تمام سرگرمیوں کا مرکز و محور محض زندہ رہنے کی جدوجہد نہیں۔ یہ کام تو حیوان بھی بخوبی کرلیتے ہیں۔ زندہ رہنے کی تگ و دَو بے زبان حیوانوں کا بنیادی معاملہ ہوسکتا ہے، ہمارا نہیں۔ مگر کیا کیجیے کہ یاروں نے حیوانی سطح کو اپناتے رہنے کی قسم کھا رکھی ہے۔
گزشتہ دنوں اندور (بھارت) سے خبر آئی کہ وہاں ایک ہاتھی ہے جو پان بہت شوق سے کھاتا ہے۔ یہ خبر پڑھ کر ہمارا ذہن اپنے علاقے سے محض سوا کلو میٹر دور واقع نیو کراچی کے قلب تک پہنچ گیا جہاں پان اور گٹکا لوگوں کی رگوں میں اُسی طرح بہتا ہے جس طرح خون بہتا ہے۔ اور لوگ پان، گٹکے کے ایسے عادی ہیں کہ طلب محسوس ہوتے ہی نہ ملے تو شاید خون بہانے پر بھی تُل جائیں! اب اگر اُن سے پوچھیے کہ پان، گٹکا نہ ملنے سے کیا ہوتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ دماغ کام نہیں کرتا۔ یہ جواب سُن کر ذہن میں یہ خیال اُبھرتا ہے کہ ارے بھائی! دماغ کام کر رہا ہوتا تو یہ انٹ شنٹ چیزیں کھاتے ہی کیوں!
ایک زمانہ تھا کہ جب پختون بھائی نسوار نہ لگانے پر ذہنی توازن سے دور ہوتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔ اب خیر سے پان اور گٹکے کو بھی نسوار کا مقام مل گیا ہے۔ پستی کی انتہا یہ ہے کہ اِس بار ہم نے ماہِ صیام کے دوران دن دہاڑے لوگوں کو سڑکوں پر گٹکے اور پانی کی پیک تُھوکتے دیکھا ہے۔ کسی کو روزے (کے اوقات) کے دوران پیک تُھوکنے سے روکیے اور رمضان المبارک کے احترام کا احساس دلائیے تو وہ یوں گُھورتا ہے جیسے ماں کی گالی دے دی ہو!
اب ایک خبر آئی ہے کہ ایک چڑیا کو سگریٹ پینے کی عادت پڑگئی ہے۔ کہاں معصوم سی چڑیا اور کہاں سگریٹ؟ ذرا سوچیے وہ روسی نوجوان کیسا ظالم ہوگا جس نے اِتنی پیاری اور معصوم مخلوق کو بھی تمباکو نوشی کی لت لگادی! اُس ستم ظریف نے چڑیا کو سگریٹ پینے کی عادت ہی نہیں ڈالی بلکہ اُس کی وڈیو بناکر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ بھی کردی۔
لوگ خود بھی الا بلا کھاتے ہیں اور معصوم جانوروں کو بھی انٹ شنٹ چیزیں کھانے پر مجبور کرتے ہیں۔ بنکاک کے ایک چڑیا گھر میں ایک بوڑھا کچھوا تھا۔ لوگ نیک شگون کے طور پر تالاب میں سِکّے پھینکا کرتے تھے۔ گزشتہ دنوں کچھوا مرگیا۔ پوسٹ مارٹم کرنے پر اُس کے پیٹ سے 900 سِکّے برآمد ہوئے۔ لوگ سِکّے پھینکتے تھے اور معصوم جانور اُنہیں نگل لیا کرتا تھا۔ کچھوے میں عقل کا نہ ہونا حیرت انگیز نہیں مگر انسانوں میں؟ ثابت ہوا کہ انسان بھی عقل سے بے بہرہ ہی رہ گیا ہے! لوگوں کا شغل ہوا اور ایک معصوم جانور جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ انسانوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کچھ بھی کھاکر زندہ رہ سکتے ہیں مگر بے چارے بے زبان حیوانات ایک مخصوص نظام ہضم کے حامل ہوتے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے جو طے کردیا ہے بس وہی کچھ وہ کھاتے ہیں اور پُرسکون زندگی بسر کرتے ہیں۔ اگر انہیں معمول سے ہٹ کر کچھ کھلایا جائے تو اُن کی جان پر بن آتی ہے، بلکہ جان ہی چلی جاتی ہے۔
اپنے ماحول پر نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ زندہ رہنے کے لیے کھانے والے شاید بہت دور کہیں کسی غار میں چھپ گئے ہیں یا پھر کسی اور سیّارے پر بس گئے ہیں اور معاشروں میں صرف وہی لوگ رہ گئے ہیں جو کھانے کے لیے زندہ رہنے پر یقین رکھتے ہیں! اِس وقت پاکستانی معاشرہ مکمل طور پر فوڈ میلہ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ محفل خواہ کوئی ہو اور کسی بھی پس منظر کی ہو، بات کھانے سے شروع ہوکر کھانے پر ختم ہوتی ہے۔ یاروں نے طے کرلیا ہے کہ زندگی کو دیگر تمام مقاصد کی راہ سے ہٹاکر صرف کھانے پینے کی شاہراہ پر دوڑاتے رہنا ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ اللہ نے ہمیں ماہِ صیام معدے کی تطہیر و تہذیب کے لیے عطا فرمایا ہے یعنی یہ کہ ایک ماہ تک کم کھاکر ہم دن بھر اشیائے و خور و نوش سے مجتنب رہیں تاکہ سال بھر کی بے قاعدگیوں کے نتیجے میں خرابیوں سے دوچار ہونے والے معدے کی اصلاح ہو۔ مگر معاملہ یہ ہے کہ ماہِ مبارک کو کھانے پینے کا زمانہ بنادیا گیا ہے۔ لوگ عام مہینوں کے مقابلے میں رمضان میں زیادہ کھاتے ہیں اور نظام انہضام کو مزید پیچیدہ بنادیتے ہیں! کوئی سمجھائے تو جواب ملتا ہے کہ اللہ کی نعمتوں سے منہ موڑنا کسی طور درست نہیں اور یہ کہ ماہِ مبارک کی برکت سے سبھی کچھ ہضم ہو جاتا ہے۔ یعنی ماہِ صیام کی برکات کو بھی معدے تک محدود کرلیا گیا ہے!
دو ایک سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جن کے کارکن کسی بھی جلسے یا تقریب میں کھانا کُھلنے پر حشر سا برپا کردیتے ہیں یعنی اشیائے خور و نوش کا حشر نشر کر ڈالتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بڑے بڑے سرکس وہ آئٹمز پیش نہیں کرسکتے جو کھانا کُھلنے پر یہ سیاسی کارکن بخوبی پیش کرتے ہیں اور داد و تحسین سے بے نیاز ہوکر صرف کھانے پر متوجہ رہتے ہیں! اُنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے ع
زندگی آمد برائے ''خوردن‘‘
کیا یہ لازم نہیں ہوگیا کہ ہم ہر گھڑی کھانے پینے کے بارے میں سوچنے رہنے کے عمل کو موقوف رکھتے ہوئے دو گھڑی ٹھہریں، سوچیں، غور کریں کہ ہمیں یہ سانسیں کیوں بخشی گئی ہیں، یہ زندگی کیوں دی گئی ہے؟ کیا اِس لیے کہ صرف زندہ رہنے کے بارے میں سوچیں؟ یہ کام تو حیوان بھی کرلیتے ہیں۔ ہمیں اِس سطح سے بلند ہونا ہی چاہیے۔ محض کھانے پینے کی سطح سے بلند ہوکر ہمیں جینے کی سطح پر آنا چاہیے۔
''کھابوں‘‘ کو سَر پر اِتنا مت چڑھائیے کہ یہ آپ کے پورے وجود ہی کو کھا پی جائیں۔ ''آئیے، کھائیے، جائیے‘‘ والی زندگی کسی بھی اعتبار سے قابل رشک نہیں۔ کھائیے، ضرور کھائیے مگر اِس دنیا میں کچھ ایسا بھی ضرور کر جائیے کہ لوگوں کو مدتوں یاد آئیے۔