ایک طرف ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جو امریکی صدر کے منصب پر فائز ہونے کے بعد سے اب تک عجیب و غریب حرکتوں سے دنیا کو حیران و پریشان کیے ہوئے ہیں۔ کئی مواقع پر انہوں نے خاصی عجیب طرزِ عمل اپناکر لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع دیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ انہیں یہ زیادہ پسند ہے کہ ان کے بارے میں باتیں بنائی جائیں۔ اور دوسری طرف ایسے امریکی بھی ہیں جو اپنے معاشرے کے ''غدّار‘‘ ہیں یعنی ایسا کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں جو عجیب و غریب سمجھا جائے۔ ڈیوڈ کیشمٹ اور اُن کی بیوی مورین اسمتھ کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں کیا جانا چاہیے۔ ان دونوں کو اللہ نے چھپڑ پھاڑ کر دولت دی۔ دونوں نے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی لاٹری جیتی جو 52 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی تھی۔ ٹیکس اور دیگر کٹوتیوں کے بعد انہیں 32 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ملے۔ یہ بھی بہت بڑی رقم تھی اور وہ اپنا سب کچھ بدل سکتے تھے۔ مگر لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کیشمٹ اور اس کی بیوی نے مفت ہاتھ آئی دولت کو بے رحمی سے لٹانے سے یکسر گریز کیا ہے۔ انہوں نے نیا مکان تک نہیں خریدا۔ اب تک پرانے مکان ہی میں سکونت پذیر ہیں۔ ہاں، لوگوں کے زور دینے پر انہوں نے 92 ہزار ڈالر کی کار ضرور خریدی ہے مگر اُسے کم ہی چلاتے ہیں۔ ہاں، دونوں نے گھر کو دوبارہ پینٹ ضرور کرالیا ہے تاکہ لوگوں کی زبان پر تالا لگایا جاسکے! دونوں آج بھی گھر کے نزدیک واقع سپر مارکیٹ سے خریداری کرتے ہیں اور دوبارہ استعمال ہونے والے تھیلوں ہی میں کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر سامان لاتے ہیں۔ پڑوس ہی کے نہیں، علاقے اور شہر کے لوگ بھی دونوں کو دیکھ کر حیران ہیں۔ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی لاٹری میں 33 کروڑ ڈالر پائے اور اپنی زندگی کو تبدیل کرنے سے گریز کرے؟ یہ تو حد ہی ہوگئی۔ یہ کیسے امریکی ہیں جو اتنی دولت پاکر بھی اپنے حواس اور جذبات پر قابو پائے ہوئے ہیں؟ دنیا حیران نہ ہو تو اور کیا کرے؟ یہ دونوں امریکی ہیں بھی یا نہیں؟ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد ایسی عجیب و غریب حرکتیں کی ہیں کہ بہت سے انتہائی چھچھورے امریکی بھی دانتوں تلے انگلی داب کر رہ گئے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کئی مواقع پر اپنے ہم منصب سے اِس طور مصافحہ کیا کہ بہت سوں کی تو ہنسی چھوٹ گئی اور دوسرے بہت سے محض شرمندہ ہوکر رہ گئے۔ پوپ فرانسس کی ہتھیلی کا اوپری حصہ انگلی سے دبانے جیسی چھچھوری حرکت کرکے صدر ٹرمپ نے دنیا کو حیران کردیا۔ اور پوپ نے اس موقع پر اُن کا ہاتھ جس انداز سے جھٹکا وہ بھی قابل دید تھا۔ ٹرمپ کا ہاتھ خود اُن کی اہلیہ نے کئی بار جھٹک دیا ہے۔
ٹرمپ کے پاس دولت کی کون سی کمی تھی؟ وہ تو ایک زمانے سے ارب پتی ہیں مگر صدر بننے کے بعد وہ آپے سے باہر ہوگئے ہیں۔ تو پھر کیشمٹ اور اُس کی بیوی کس مِٹّی کے بنے ہیں کہ ذرا بھی نہیں بدلے اور وہی پرانے انداز کی زندگی بسر کر رہے ہیں؟ یہ بات آسانی سے سمجھ میں آنے والی نہیں۔ امریکیوں کی اکثریت اپنی طرز فکر اور رویّوں کے اعتبار سے ایسی نہیں کہ آسانی سے سمجھ میں آسکے۔ ایک زمانے سے امریکی قیادت دنیا بھر میں بدمستی کا شرمناک انداز سے مظاہرہ کرتی آئی ہے۔ امریکی پالیسی میکرز نے ثابت کیا ہے کہ طاقت کو سنبھالنا اور اُس میں اضافہ کرنا دونوں ہی انتہائی مشکل کام ہیں۔ اور یہ مشکل کام امریکی قیادت اور پالیسی میکرز سے اب تک بہ طریق احسن نہیں ہو پائے ہیں۔ جو کچھ امریکی قیادت کرتی رہی ہے وہ عام امریکیوں کی سوچ پر بھی اثر انداز ہوتا رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ بیشتر امریکیوں کا رویّہ آسانی سے سمجھ میں نہیں آتا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا کی بھی لاٹری نکل آئی تھی۔ یورپ آپس کی لڑائی سے تباہ ہوگیا۔ جرمنی، فرانس، پرتگال، ہالینڈ اور چند دوسرے طاقتور یورپی ممالک اس قابل نہ رہے کہ عالمی سیاست و معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتے رہیں۔ لے دے کر بس برطانیہ سلامت رہ گیا تھا۔ جرمنی کی بھرپور بمباری کے باوجود برطانیہ میں صنعتی ڈھانچا سلامت رہا، یہ گوروں کے لیے کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہ تھا۔ امریکا اور برطانیہ دونوں نے اس صورت حال کو لاٹری سمجھتے ہوئے بھرپور استفادہ کیا۔ امریکا نے معیشت اور سیاست دونوں میں اپنی بات منوانے اور اپنی طاقت میں قابل رشک حد تک اضافہ کرنے کی روش اپنائی۔ بدلے ہوئے زمانے سے مطابقت رکھنے والی پالیسیاں ترتیب دی گئیں۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ لاٹری نکل آنے پر انسان جس طور جذبات کو قابو میں نہیں رکھ پاتا بالکل اُسی طور امریکا نے بھی بے قابو ہوکر بدمستی کی لہروں میں بہنا شروع کردیا۔ دوسری جنگ عظیم کی کوکھ سے جنم لینے والے انتہائی موافق حالات نے امریکا کو سپر پاور بننے کا بھرپور موقع فراہم کیا اور اس کے نتیجے میں امریکی قیادت نے دنیا بھر میں عسکری مہم جُوئی شروع کی۔ دوسروں کو کمزور کرکے اپنی طاقت میں اضافے کی پالیسی امریکا نے ایسی اپنائی کہ اب تک اِسے خیرباد کہنے کو تیار نہیں۔ لاطینی امریکا، مشرق وسطٰی، جنوب مشرقی ایشیا اور افریقا میں امریکا نے اتنی خرابیاں پیدا کیں کہ یہ تماشے دیکھ کر دنیا کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہوگئی۔
اربوں، بلکہ کروڑوں ارب میل کے فاصلے پر واقع ستاروں کی روشنی ہم تک پہنچنے میں بہت وقت لیتی ہے۔ بعض ستارے کب کے ختم ہوچکے ہیں مگر اُن کی روشنی ہم تک پہنچ رہی ہے۔ کچھ ایسا ہی حال امریکا کا بھی ہے۔ خرابیاں انتہائی حدوں کو چُھو رہی ہیں مگر پھر بھی وہ طاقتور اور خوش حال اس لیے دکھائی دے رہا ہے کہ بھرم باقی ہے۔ خدا ہی جانے یہ بھرم مزید کتنی مدت رہے گا۔
ڈیوڈ کیشمٹ اور اس کی بیوی نے (پاکستانی کرنسی کے اعتبار سے) ارب پتی بن جانے پر بھی ایسی کوئی عادت نہیں اپنائی جو نو دولتیے اپناتے ہیں۔ وہ اب تک اپنے آپے میں ہیں یعنی بدمست نہیں ہوئے۔ یہ وصف فی زمانہ تقریباً ناپید ہے۔ اور امریکیوں میں تو اِس کے پائے جانے کا تصور بھی محال ہے۔ جو محنت سے کماتے ہیں وہ سوچ سمجھ کر خرچ کرتے ہیں مگر راتوں رات، محنت کے بغیر، ہاتھ آنے والی دولت کو انتہائی بے رحمی و بے دردی سے لٹایا جاتا ہے۔ کیشمٹ اور اس کی بیوی نے امریکی پالیسی میکرز کے لیے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ امریکی ایوان ہائے اقتدار میں بیٹھے ہوئے جو لوگ یہ طے کرتے ہیں کہ دنیا میں کب کیا ہونا چاہیے اُنہیں بھی اب وہی طرزِ فکر و عمل اپنانی چاہیے جو کیشمٹ اور اس کی بیوی نے اپنائی ہے۔ ضبطِ نفس کی اِس وقت سب سے زیادہ ضرورت امریکی پالیسی میکرز کو ہے۔