"MIK" (space) message & send to 7575

کہیں انسانیت ہی بہہ نہ جائے

تبدیلی کسی زمانے میں ریلے کا نام تھا جس میں بہت کچھ بہہ جاتا تھا۔ اب تبدیلی ریلا نہیں، دریا ہے جس میں سبھی کچھ بہتا جارہا ہے۔ قدم قدم پر کوئی نہ نئی تبدیلی دکھائی دیتی ہے اور اِس سے بڑھ کر ہے تبدیلی کے بارے میں کی جانے والی تحقیق۔ تحقیق کا دریا بھی ٹھاٹھیں مارتے سمندر کا منظر پیش کر رہا ہے۔ آج کے انسان کی ہر حرکت، ہر ادا کو تحقیق کے موضوع میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اِسے خوش نصیبی قرار دیں یا بدنصیبی۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ ہر معمولی بات اور کام کو غیر معمولی بناکر پیش کرنے کا چلن عام ہوا جارہا ہے۔ کچھ تو تحقیق کرنے والوں کی مہربانی ہے اور کچھ میڈیا کا کرم ہے کہ بارش ہونے پر تلے جانے والے پکوڑوں پر بھی پروگرام بنائے جارہے ہیں اور لوگوں تحقیق کی کڑاہی میں تلا جارہا ہے! 
ہر معاشرے کے چند مخصوص رجحانات ہوتے ہیں۔ یہ رجحانات لوگوں کی سوچ ظاہر بھی کرتے ہیں اور اُسے نیا رخ دینے میں کلیدی کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ طرزِ زندگی کے حوالے سے ہر معاشرہ چند واضح رجحانات کا حامل ہوتا ہے۔ اِن رجحانات کی مدد ہی سے طے ہو پاتا ہے کہ معاشرے کا عمومی چلن کیا ہے اور اُس میں کس نوع کی تبدیلیاں درکار ہیں۔ مگر ایک رجحان ایسا ہے جو جادو کی طرح تمام معاشروں کے سَر چڑھ کر بول رہا ہے۔ یہ ہے سیلفی کا رجحان۔ اپنی تصویر آپ لینے کے رجحان نے دنیا بھر کے لوگوں کے ذہنوں میں ایسی جڑ پکڑی ہے کہ اب اِسے ہلا پانا انتہائی دشوار ثابت ہو رہا ہے۔ نئی نسل کے لیے سیلفی کا رجحان باضابطہ نفسی پیچیدگی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ دنیا بھر میں ایسے کروڑوں لڑکے اور لڑکیاں ہیں جنہیں بات بات پر سیلفی لینے اور اُسے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کا محض شوق نہیں، خبط ہے۔ 
ماہرین نے سیلفی کے حوالے سے تحقیق کا بازار یوں گرم کر رکھا ہے کہ اِس رجحان کے منفی نتائج پر نئی نسل کی توجہ کم ہی جاتی ہے اور وہ تازہ ترین تحقیق کی روشنی میں اپنے رجحانی رویّے کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں یعنی سیلفی لینے کے خبط میں پہلے سے زیادہ مبتلا ہوتے جاتے ہیں۔ کینیڈا کے ماہرین کی ایک ٹیم نے ڈیٹنگ ایپلی کیشن ٹینڈر کے 900 سے زائد صارفین کے ڈیٹا کا جائزہ لے کر تازہ ترین تحقیق میں بتایا ہے کہ لڑکیاں عموماً چہرے سے اوپر موبائل فون رکھ کر سیلفی لیتی ہیں یعنی وہ چہرے کو زیادہ واضح طور پر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ پیٹ یعنی موٹاپا چھپانا چاہتی ہیں۔ اِس کے برعکس لڑکے موبائل فون کو پیٹ سے بھی نیچے لے جاکر سیلفی لیتے ہیں تاکہ پورا جسم نمایاں ہوکر کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہو یعنی وہ اپنی طاقت ظاہر کرنے کے زیادہ شوقین ہوتے ہیں۔ 
کچھ دن قبل یوکرین میں مقامی سطح کی بیوٹی کوئین کار میں اپنی سہیلی کے ساتھ سفر کے دوران حادثے کا شکار ہوکر چل بسی۔ ہوا یہ کہ اُس نے بہت پی رکھی تھی اور موبائل فون پر فیس بک کے ذریعے اپنے پرستاروں سے براہِ راست مخاطب تھی۔ لائیو اسٹریمنگ ہو رہی تھی اس لیے اُس کی سہیلی بھی، جو کار چلا رہی تھی، موبائل فون کے کیمرے کی آنکھ میں جھانکنے لگی۔ بس، اگلے ہی لمحے گاڑی سڑک سے اُتری اور بجلی کے کھمبے سے ٹکراگئی۔ 18 سالہ بیوٹی کوئن نے موقع ہی پر دم توڑ دیا۔ 
بلند عمارت کے کونے پر کھڑے ہوکر سیلفی لیتے ہوئے گر کر ہلاک ہونے والے بھی سیکڑوں ہیں۔ بہت سے لوگ دریا کنارے سیلفی لیتے ہوئے بے احتیاطی کے باعث دریا میں جا گرتے ہیں۔ سیلفی لیتے ہوئے پہاڑ سے گرنے اور گڑھوں میں جا گرنے کے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ سیلفی لیتے ہوئے مرنے کا مقابلہ ہو رہا ہے! سیلفی لینے کے انتہائی خطرناک طریقے اپنائے جارہے ہیں تاکہ دنیا کو اپنی شجاعت کا یقین دلایا جاسکے۔ 
موت بہانے ڈھونڈتی ہے۔ اور اس وقت سیلفی سے اچھا بہانہ موت کو شاید ہی کوئی اور محسوس ہوتا ہو۔ آن کی آن میں بندے کا کام ہو جاتا ہے۔ موت بھی انسانوں کو مرنے کے بہانے ڈھونڈ نکالنے کے فن پر داد تو دیتی ہوگی! 
بھارت کی مغربی ریاست مہا راشٹر میں اتوار کی شام ایسا سانحہ رونما ہوا کہ جس نے بھی سُنا وہ سہم کر رہ گیا۔ آٹھ دوستوں نے ضلع کلامیشور میں واقع وینا ڈیم کی جھیل کی سیر کا پروگرام بنایا۔ اِن میں سے ایک کی سالگرہ تھی۔ تمام دوستوں کی عمریں 20 اور 25 سال کے درمیان تھیں۔ ڈیم کی جھیل کے کنارے کشتی موجود تھی۔ تمام دوستوں نے معاوضہ طے کیا اور کشتی میں سوار ہوگئے۔ کشتی خاصی چھوٹی اور پتلی تھی مگر جوانی ایسی باتوں پر کہاں دھیان دیتی ہے۔ 
چھوٹی سی کشتی اور اس میں تین ملاحوں سمیت گیارہ افراد! وہ تو ہونا ہی تھا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ تھوڑی جاکر کشتی چشم زدن میں پلٹ گئی۔ آپ سوچیں گے اِس طرح کے حادثات تو رونما ہوتے رہی رہتے ہیں۔ اِس میں افسوس کا پہلو ضرور ہے مگر حیرت کا پہلو کہاں سے آگیا؟ بات یہ ہے جناب کہ جب کشتی روانہ ہوئی تو تمام دوست اپنے اپنے موبائل فون کے ذریعے فیس بک اور ٹوئٹر پر لاگ آن ہوگئے۔ سیلفیاں کھینچ کر فیس بک اور ٹوئٹر پر اپ لوڈ کی جانے لگیں۔ موسم سہانا تھا اس لیے سبھی مستی میںجھوم رہے تھے۔ کشتی کی سیر سے بھرپور محظوظ ہوا جارہا تھا۔ ایسے میں فیس بک پر لائیو اسٹریمنگ بھی کی جانے لگی۔ فیس بک پر ان تمام نوجوانوں کے دوست لائیو اسٹریمنگ کی وساطت سے اِنہیں جھیل میں کشتی کی سیر سے لطف اٹھاتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ پھر ایک لمحہ ایسا آیا کہ تمام دوستوں نے ایک ساتھ کیمرے کے سامنے آنے کا فیصلہ کیا۔ کشتی کے حجم کو سمجھے اور اپنی زندگی کو لاحق ہونے والے خطرے کے بارے میں سوچے بغیر آٹھوں دوست ایک دوسرے کے کاندھے پر ہاتھ رکھنے کے شوق میں ایک مقام پر جمع ہوگئے۔ ذرا سی کشتی اور سارا بوجھ ایک طرف! بس، موت اِسی لمحے کی تلاش میں تھی۔ چشم زدن میں کشتی الٹ گئی اور آٹھ میں سے سات دوست ڈوب گئے۔ 
کسی کا یوم پیدائش سات کا یوم وفات بن گیا! موت نے، جو بہانوں کی تلاش میں رہتی ہے، ایک بار پھر سیلفی کی مدد سے انتہائی آسان بہانہ ڈھونڈ نکالا۔ سیلفی ایک لمحے کا معاملہ ہے اور موت بھی تو ایک لمحے ہی کا قصہ ہے۔ نئی نسل کو حواس اور جذبات پر ذرا بھی اختیار نہیں۔ سیلفی کا بھوت کہیں بھی سوار ہوسکتا ہے اور پھر موت بَلا بن کر زندگی کے کاندھے پر سوار ہو جاتی ہے! سیلفی کا رجحان اِتنی تیزی سے پنپ رہا ہے کہ کسی کو بند باندھنے کا خیال تک نہیں سُوجھ رہا اور ڈر ہے کہیں ساری انسانیت ہی اِس ریلے میں نہ بہہ جائے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں