"MIK" (space) message & send to 7575

سوچنے کا وقت کس کے پاس ہے؟

گزشتہ دنوں ہر موسم کے ساتھی چین سے ایک ایسی خبر آئی جسے دنیا بھر میں حیرت انگیز قرار دیا جارہا ہے۔ خبر کے ساتھ وڈیو کلپ بھی وائرل ہوگیا۔ خبر یہ تھی کہ بارہ سال کا لڑکا ایک بس کو اسٹارٹ کرکے لے بھاگا اور تقریباً چالیس منٹ تک بڑی سڑکوں پر دوڑاتا رہا۔ دنیا والوں کو اس خبر پر حیرت ہوئی۔ یہ اُن کا دردِ سر ہے۔ ہمارے لیے ایسے نظارے حیرت انگیز ہیں نہ غیر متوقع۔ ایمان کی تو یہ ہے کہ اب ہم ایسے نظاروں کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ اگر دکھائی نہ دیں تو حیرت ہوتی ہے۔ 
عجیب و غریب معاشرے اور بھی بہت ہیں مگر ہم شاید کئی معاملات میں انتہائی عجیب و غریب ہیں۔ اس وقت یہ سوچ پوری قوم کے مزاج کا حصہ بن چکی ہے کہ بچے ذاتی ملکیت ہیں اس لیے ان پر من چاہے تجربے کیے جاسکتے ہیں اور اُنہیں مرضی کی بہت ہٹ کر زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ انتھک محنت کرنے پر بھی بچے کچھ بننے کے بجائے بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ اور بگڑتے بھی اِس طرح ہیں کہ پھر اُن کی اصلاح کی گنجائش برائے نام رہ جاتی ہے۔ 
بچوں کو بگاڑنے میں بنیادی کردار تعلیم نے ادا کیا ہے! تعلیم کا لفظ پڑھ کر آپ زیادہ حیران نہ ہوں۔ ہماری مراد یہ ہے کہ والدین تعلیم کے معاملے میں اس قدر ''سادگی و پُرکاری‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ خود اُنہیں بھی اندازہ نہیں ہو پاتا کہ وہ اپنی اولاد سے کیا کِھلواڑ کر رہے ہیں۔ والدین اور اولاد سے کِھلواڑ؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہو رہا ہے۔ 
کراچی ایک وسیع و عریض شہر ہے۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِس کی وسعت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ شہر میں دو مقامات کے درمیان 60 کلومیٹر تک کا فاصلہ پایا گیا ہے! اندازہ لگائیے کہ کسی کو کام پر جانے کے لیے یومیہ بنیاد پر کتنا سفر کرنا پڑتا ہوگا۔ تیس چالیس کلو میٹر کا فاصلہ روزانہ طے کرنا تو عام بات ہے۔ 
یہ ہوا کام پر جانے کا معاملہ۔ اب آئیے تعلیم کی طرف۔ لوگ پہلوٹی کے بچے کی تعلیم کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا بھر کی تعلیم اُن کے بچے کو مل جائے۔ اور اس معاملے میں وہ صرف اسکول کو ذمہ دار سمجھتے ہیں اس لیے عام طور پر داخلہ ہو جانے پر اطمینان کی چادر تان کر سو جاتے ہیں۔ دل خراش حقیقت یہ ہے کہ لوگ بچے کو اسکول میں داخل کراتے وقت نہ تو اُس کی عمر دیکھتے ہیں نہ رجحان۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ گھر اور اسکول کے فاصلے کو بھی ذہن سے خارج کردیتے ہیں۔ 
ڈھائی تین سال پہلے کی بات ہے۔ ایک صاحب کی پوتی ہائی روف سے نکلی تو ہم نے رسماً پوچھ لیا کہاں داخلہ کرایا ہے۔ معلوم ہوا کہ ڈھائی سال کی بچی کو ایک بڑے نجی اسکول کے پلے گروپ میں داخلہ ملا ہے۔ تب وہ بچی تقریباً تین سال کی تھی۔ ہمیں اسکول پر یا اسکول کے پرائیویٹ ہونے پر کوئی اعتراض نہ تھا کیونکہ بہت سے نجی اسکول بچوں کو مستقبل کے لیے تیار کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہمیں تو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ تین سال کی بچی جس اسکول میں پڑھ رہی ہے وہ کم و بیش 22 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اس فاصلے کو طے کرنے کے لیے کئی گنجان آباد رہائشی اور تجارتی علاقوں سے گزرنا پڑتا ہے! ہم نے پوچھا گاڑی والا کتنے پیسے لیتا ہے۔ جواب ملا ساڑھے چھ ہزار روپے۔ اور اسکول؟ اسکول کی فیس ساڑھے پانچ ہزار تھی۔ یعنی تین سالہ بچی کو پلے گروپ میں ''پڑھانے‘‘ کے ماہانہ بارہ ہزار روپے خرچ ہو رہے ہیں! اللہ ہی جانے اب یہ خرچہ کہاں تک پہنچ چکا ہوگا۔ 
دو دن قبل ہمارے علم میں یہ بات آئی کہ ایک صاحب نے اپنے تین سالہ بچے کو ایک بڑے اسکول کے پلے گروپ میں داخل کرایا ہے۔ ہم خوش ہوئے کہ چلو، بچے کو مستقبل کے لیے بہتر انداز سے تیار کرنے میں مدد ملے گی۔ تفصیل معلوم ہوئی تو ہمارے پیروں تلے سے زمین سرک گئی۔ بچے کو مشہور اسکول کے جس کیمپس میں داخل کرایا گیا ہے وہ گھر سے تقریباً 50، جی ہاں 50 کلو میٹر دور واقع ہے! بچے کو صبح پونے سات بجے گاڑی میں کرایا جاتا ہے اور واپسی دن کے پونے تین بجے تک ہوتی ہے! 
جو لوگ روزانہ کام پر جانے کے لیے 15 سے 20 کلومیٹر تک کا سفر کرتے ہیں وہ بھی اِس یومیہ جھنجھٹ سے تنگ آجاتے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ یومیہ 50 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے پر تین سالہ بچے کا کیا حال ہوتا ہوگا! مگر خیر، والدین کے لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ بچہ اُن کی پریشانی میں اضافہ نہیں کر رہا کیونکہ وہ معصوم تو کچھ بتانے کی پوزیشن میں بھی نہیں! 
معاملہ تعلیم کے حوالے سے بچوں پر تجربے کرنے تک محدود نہیں۔ بچوں میں اعتماد پیدا کرنے اور اُنہیں معاشرتی دھارے میں اچھی طرح بہنے کے قابل بنانے کے لیے بہت چھوٹی عمر سے خاصے بڑے کام کرانے کی ابتداء کردی جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ شہروں میں دس گیارہ سال کے لڑکے موٹر سائیکل دوڑاتے دکھائی دیتے ہیں۔ والدین چھوٹے موٹے کاموں کے لیے بیٹوں کو موٹر سائیکل کی چابی تھمانے میں تاخیر سے کام لیتے ہیں نہ تساہل سے۔ دس گیارہ سال کے لڑکے لیے موٹر سائیکل پر سوار ہونے سے زیادہ سنسنی خیز کام بھلا کیا ہوسکتا ہے؟ والدین کو ذرا بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ لڑکپن کی حدود میں بھٹکنے والی اولاد جب موٹر سائیکل جیسے شیطانی چرخے پر سوار ہوکر اُڑتی پھرتی ہے تو کیا گل کِھلاتی ہے، کہاں کہاں ٹکراتی ہے یا ٹکرانے سے بال بال بچتی ہے۔ 
اب مسئلہ یہ ہے کہ معاملہ بھلائی کا ہو یا خرابی کا، لوگ ذہن کا استعمال ترک کرچکے ہیں۔ اگر کوئی کسی بُری عادت کا اسیر ہو جائے مثلاً نشہ کرے، جُوا کھیلنے لگے یا بڑے پیمانے پر اُدھار کے ذریعے زندگی بسر کرے تو پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ سوچنے کی طرف مائل نہیں ہو رہا، ذہن کو بروئے کار لانے کا ذرا بھی شوقین نہیں۔ مگر صاحب، جو لوگ اپنا بھلا چاہتے ہیں وہ بھی کب ذہن کو زحمتِ کار دیتے ہیں؟ لوگ اولاد کی تعلیم و تربیت کے معاملے میں بھی سوچے سمجھے بغیر من کی مرضی کر بیٹھتے ہیں اور یوں اپنی اولاد کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ اگر کوئی سمجھائے تو بُرا مانتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ اولاد ہماری ہے تو ہم جو کر رہے ہیں وہ ٹھیک ہی ہوگا۔ ایسا نہیں ہے۔ تعلیم اور تربیت دونوں ہی معاملات میں متعلقہ شعبے کے ماہرین سے مشاورت ناگزیر ہے تاکہ بچوں کو مستقبل کے لیے ڈھنگ سے تیار کرنا ممکن ہو۔ لوگوں کے پاس دنیا بھر کے الل ٹپ معاملات پر غور کرنے کی فرصت ہے، اولاد سمیت تمام اہل خانہ کا بھلا سوچنے کا وقت نہیں۔ اس معاملے میں مشاورت کو توہین سمجھ لیا گیا ہے۔ ذہن میں یہ تصور راسخ ہوتا جارہا ہے کہ کیا ہمیں سوچنا نہیں آتا جو کوئی ہمیں سِکھائے، سمجھائے اور مشوروں سے نوازے! بچوں کو مستقبل کے لیے ڈھنگ سے تیار کرنے کے معاملے میں پیشہ ورانہ سطح کی مشاورت ناگزیر ہے۔ یہ حقیقت ہمارے معاشرے کے والدین جس قدر جلد سمجھ لیں اُن کی اولاد کے لیے اُتنا ہی اچھا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں