"MIK" (space) message & send to 7575

گوشت خوری نے یہ دِن دِکھلائے ہیں

مہنگائی کہاں پہنچی ہے اِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہم کہاں رہ گئے ہیں! جن اشیاء میں جان برائے نام بھی نہیں ہوتی اُن کی قیمت ادا کرتے کرتے ہم ایسے جاندار اَدھ مُوئے ہو جاتے ہیں اور حق پھر بھی ادا نہیںکر پاتے۔ بہت کچھ پاکر بھی یہ دکھ برقرار رہتا ہے کہ بہت کچھ نہ پاسکے۔ ماحول کو دیکھیے اور پھر اپنی جیب پر نظر ڈالیے تو احساس ہوتا ہے کہ عمر چاہے جتنی ہو، زندگی بہت چھوٹی سی رہ گئی ہے! 
ایک زمانہ تھا کہ انسان کی کچھ قدروقیمت تھی۔ اب تو ٹھیک سے یاد بھی نہیں کہ اُس زمانے کو گزرے ہوئے کتنے زمانے گزر گئے۔ ہم اُس زمانے کی بات کر رہے ہیں جب بازار میں سجی ہوئی اشیاء نے ابھی انسان کو حقارت کی نظر سے دیکھنا شروع نہیں کیا تھا۔ یہ اُس دور کا تذکرہ ہے جب لوگ پتّھر کو خدا مان لیا کرتے تھے۔ ایسے میں انسان کے مقام و مرتبے کا اندازہ آپ خود لگا لیجیے۔ اور اب؟ ؎ 
اب تو انسان کی عظمت بھی کوئی چیز نہیں 
لوگ پتّھر کو خدا مان لیا کرتے تھے! 
فی زمانہ انسان کا حال کچھ ایسا گیا گزرا ہوگیا ہے کہ رات دن تماشا ہی لگا رہتا ہے۔ انسان اپنے ماحول کو دیکھتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے، حالانکہ حیران ہونے کی گنجائش نہیں کیونکہ یہ پورا ماحول اُس کا اپنا پیدا کردہ ہے! سب کچھ مہنگا ہوگیا ہے، اگر قیمت نہیں بڑھی تو بس انسان کی نہیں بڑھی۔ اور قیمت کو چھوڑیے، سوال قدر کا بھی ہے۔ قیمت تو جو تھوڑی بہت ہے سو ہے، قدر برائے نام بھی نہیں رہی۔ ایک دور تھا کہ کردار وغیرہ کی توقیر تھی۔ اب صرف زر کا احترام باقی رہ گیا ہے۔ جیب میں کچھ ہے تو آپ کچھ ہیں، ورنہ کوئی اور در کھٹکھٹائیے۔ 
گوشت کی دکان پر ہنگامہ برپا تھا۔ قصائی بھی پریشان دکھائی دے رہا تھا اور تمام گاہک بھی۔ استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ ایک صاحب نے گوشت کے دام پوچھے اور دام سُنتے ہی ہتّھے سے اُکھڑ گئے۔ بکرے اور گائے کے گوشت کی قیمت سے اپنا تقابل کیا اور قصائی سے فرمائش کرنے لگے کہ مجھے ذبح کردو! یہ صاحب سرکاری ملازم ہیں۔ اچھا خاصا کما لیتے ہیں مگر پھر بھی اِنہیں گائے اور بکرے کے سامنے اپنا وجود بے قیمت سا محسوس ہوا۔ کہنے لگے ''ایسے جینے کا کیا فائدہ کہ مجھ سے زیادہ قدر و قیمت تو گائے اور بکرے کی ہے!‘‘ 
ایک زمانہ تھا کہ غریب آدمی کسی نہ کسی طور تھوڑا بہت گوشت کھالیا کرتا تھا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ بہت سوں کو عیدالاضحی ہی پر گوشت کی بوٹیوں کے درشن نصیب ہوتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ غریب آدمی اب گوشت کے دام پوچھتے ہوئے بھی ڈرتا ہے۔ قصائی بھی چاہتے ہیں کہ ہر شخص گوشت کے دام نہ پوچھا کرے کیونکہ کبھی کبھی بیٹھے بٹھائے ایمرجنسی ہو جاتی ہے۔ کچھ لوگ گوشت کے دام کی تاب نہیں لا پاتے اور دکان کے سامنے ہی ڈھیر ہوجاتے ہیں! اور قصائی سمیت وہاں موجود تمام افراد یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ؎ 
شاعری کرتے مگر سوچ تو لیتے پہلے 
دردِ دل ہے کہ نہیں، زخمِ جگر ہے کہ نہیں! 
بعضے ایسے بھی ہیں جنہیں گائے اور بکرے کے گوشت کے دام مفکّر اور دانشور بناکر دم لیتے ہیں کیونکہ یہ لوگ دام سُنتے ہی ''چشمِ تصوّر کی آنکھ‘‘ سے پتا نہیں کیا کیا دیکھنے لگتے ہیں اور ایک کونے میں کھڑے ہوکر دنیا و ما فیہا سے بے نیاز ہوکر سوچوں میں گم ہو جاتے ہیں! اپنی کم مائیگی کا احساس انسان کو کس قدر دبوچتا ہے اِس کا کچھ کچھ اندازہ گوشت کے دام پوچھنے کے بعد ہوتا ہے! گائے اور بکرے کے سامنے پوری کائنات ہیچ معلوم ہونے لگتی ہے! ایسے میں اگر کوئی تین چار کلو گوشت اور اِتنا ہی قیمہ تیار کروا رہا ہو تو جی چاہتا ہے اُسے غور سے اور جی بھر کے دیکھیے۔ ایک ڈیڑھ پاؤ گوشت خریدنے والے کے سامنے اگر آٹھ دس کلو گوشت خریدنے والا آجائے تو کسی اور سیّارے کا باشندہ معلوم ہوتا ہے اور خواہ مخواہ مرعوب ہونے کو جی چاہتا ہے! 
اب تو یہ بھی ہونے لگا ہے کہ کوئی اگر بکرے کے گوشت کے دام پوچھے تو قصائی پوچھتا ہے آپ کی آمدن کتنی ہے۔ جب اُسے معلوم ہوتا ہے کہ صاحب مہینے بھر میں پندرہ بیس ہزار روپے کما پاتے ہیں تو وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں انتباہ کرتا ہے ؎ 
کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں 
تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو! 
اِس پر بھی کوئی نہ مانے اور گوشت کے دام جاننے پر بضد ہو تو قصائی تقریباً گھورتے ہوئے خاموشی کی زبان سے کہتا ہے ؎ 
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ! 
ہم سمجھتے ہیں وہ زمانہ زیادہ دور نہیں جب گوشت کی دکان پر بورڈ لگائے جائیں گے کہ کمزور دل والے حضرات گوشت کے دام پوچھنے سے گریز کریں! اور کوئی قصائی سے گوشت کے دام پوچھے گا تو خریدے بغیر آگے بڑھنے کی صورت میں مشین سے چٹ نکلے گی کہ دام پوچھنے کے دس روپے دیتے جائیے! 
یہ ہماری گوشت خوری ہی تو ہے جس کے باعث اب گوشت ہمارے سَر پر چڑھ کر ناچ رہا ہے۔ مُرغی جیسی ناتواں مخلوق بھی ذبح ہوکر ہماری مالی حیثیت کی پیمائش کرنے پر تُل جاتی ہے! اِنسان کو جانچنے اور تولنے کے لیے یہ دیکھا جارہا ہے کہ وہ کتنا اور کیسا گوشت کھاتا ہے! حالت یہ ہوگئی ہے کہ کسی بینک سے قرضہ لینے کا سوچیے تو بینک کا نمائندہ مالی حیثیت چیک کرنے کے لیے پڑوسیوں سے پوچھتا پھرتا ہے کہ جناب کا لائف اسٹائل کیا ہے، کپڑے کیسے پہنتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مہینے میں کتنی بار گھر میں گوشت پکتا ہے! ایک ماہ کے دوران گوشت خریدنے کی صلاحیت کی بنیاد پر اندازہ لگایا جاتا ہے کہ صاحب ماہانہ اقساط کے تحت قرضہ واپس کر بھی سکیں گے یا نہیں! 
عیدِ قرباں کا فیضان ہے کہ ہم عزتِ نفس محفوظ رکھنے میں کسی حد تک کامیاب ہو پاتے ہیں۔ وہ ایسے کہ بے زبان جانور اللہ کی راہ میں ذبیحے کی منزل سے گزر کر ہمارے شکم تک پہنچتے ہیں اور ہم یہ کہنے کی پوزیشن میں آجاتے ہیں کہ ہم بھی جی بھر کے گوشت کھاتے ہیں۔ دو چار دن ہی سہی، یہ رتبۂ بلند ملتا تو ہے نا! اب آپ ہی سوچیے کہ جو اہلِ خانہ کی خاطر ڈھنگ سے دو روٹی کا اہتمام بھی نہ کر پاتا ہو وہ بھلا ساڑھے سات سو روپے کلو کے دام والا بکرے کا گوشت کیسے خریدے گا؟ اگر کبھی ایسا کرنا پڑ جائے تو عجیب کیفیت ہو جاتی ہے۔ مہینے بھر کا بجٹ یوں بگڑ جاتا ہے جیسے کسی نے بستر کی چادر کو بھینچ دیا ہو! ایک آدھ کلو بکرے کے گوشت کا اہتمام کرنے میں کئی اور چیزیں راستے ہی میں رہ جاتی ہیں۔ بہ قول بشیر بدرؔ ؎ 
زندگی! تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے جگہ 
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سَر لگتا ہے! 
کم مائیگی کے اِس ماحول میں عیدِ قرباں کو غنیمت سمجھا جائے کہ سُنّتِ ابراہمی پر عمل کی صورت میں جی بھر کے گوشت کھانا تو نصیب ہوتا ہے وگرنہ یہ سفید پوشی تو ہمیں آلو پالک کے قابل بھی نہ چھوڑنے پر تُلی ہوئی ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں