ویسے تو خیر اب پوری میڈیا انڈسٹری ہی قدم قدم پر کامیڈی پیدا کرنے پر تُلی ہوئی ہے مگر ہم نے ذاتی مشاہدے اور تجربے (یعنی بھگتنے) کی روشنی میں محسوس کیا ہے کہ اخباری رپورٹرز اپنی خبروں کے ذریعے جو لافانی مزاح تخلیق کرتے ہیں وہ اگر سب ایڈیٹرز کی کتر بیونت سے بچ کر قارئین تک پہنچ جائے تو وہ اپنے سَر دُھننے تک محدود رہیں اور اہلِ صحافت کے سَر پیٹنے پر تُل جائیں!
صحافت کی دنیا میں کم و بیش 33 سال گزارنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شدید بلکہ انتہائی متشدّد یعنی ستم ظریف قسم کا مزاح اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی رپورٹر (اپنے فطری میلان و مزاج سے خاصا ہٹ کر) معیاری اردو لکھنے یعنی اردو دانی کے معاملے میں اپنی ''مہارت‘‘ دکھانے کی ٹھان لے اور کسی کے مانے نہ مانے!
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ رپورٹر کوئی محاورہ استعمال کرنے کے چکر میں کچھ ایسا کر جاتا ہے کہ خبر اور خبر کے پڑھنے والے ... دونوں ہی کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں! کبھی کبھی کوئی ایک لفظ ایسی ''معنویت‘‘ پیدا کردیتا ہے کہ انسان صرف سوچتا اور (اپنا) سَر پیٹتا رہ جاتا ہے! اور اگر متعلقہ فرد سے اُس لفظ کے استعمال کی غایت کے بارے میں استفسار کیجیے تو وضاحت کے نام پر اونگیاں بونگیاں ہانکنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
ٹی وی پر نیوز اینکرز بھی کسی صورت حال پر رواں تبصرے یعنی آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے کے معاملے میں ایسے ایسے گُل کھلاتے ہیں کہ اُن کی ''خوشبو‘‘ سے دل و دماغ بے حال سے ہو جاتے ہیں! مگر خیر، نیوز اینکرز اردو کو نئے مفاہیم سے آشنا کرنے کے فن میں اخباری رپورٹرز کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ع
یہ رُتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
ایک بار ایک ٹی وی چینل پر ٹِکر چلایا گیا ''شہنشاہِ غزل مہدی حسن طویل علالت کے بعد ... ہسپتال سے گھر منتقل ہوگئے!‘‘ ہم نے ٹِکر لکھنے والے سے کہا کہ بھائی، تم نے تو پتا نہیں کتنوں کے دل دہلا دیئے۔ جو اسکرین پر آدھے ٹِکر تک پہنچا ہوگا اُس کے دماغ پر تو ہتھوڑا برس گیا ہوگا۔ اُس نے غلطی تسلیم کرنے کے بجائے وضاحت پیش کی ''دیکھیے، اگر کوئی صحت یاب ہو جائے تو یہ دراصل علالت کے بعد ہی کی تو حالت ہوتی ہے۔ اور علالت گزر جائے یعنی صحت یاب ہوجائے تو انسان ہسپتال سے گھر منتقل ہو جاتا ہے۔ ضروری تو نہیں ہے کہ طویل علالت کے بعد کوئی انتقال ہی کر جائے۔ وہ طویل علالت کے بعد صحت یاب ہوکر گھر بھی تو منتقل ہوسکتا ہے!‘‘
اِسے کہتے ہیں عذرِ گناہ بدتر از گناہ! یعنی نئے ڈھنگ کی اردو لکھنی ہے، خواہ اس کے نتیجے میں کسی کی جان پر بن آئے۔
ایک ٹی وی اینکر نے ''بہ بانگِ دہل‘‘ کچھ اس انداز سے استعمال کیا کہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ڈونگرے داد کے برسائیں یا تنقید کے۔ جب عالمی برادری کا دباؤ پڑا اور سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے خود لیبیا جاکر جاکر اُس وقت کے لیبیائی حکمران معمر قذافی سے بات کی تو وہ اپنا جوہری پروگرام بند کرنے پر رضامند ہوگئے۔ اِس بات کو اینکر نے جذبات کے عالم میں یوں بیان کیا ''ایک طرف تو افغانستان اور افغانستان کی صورتِ حال نازک سے نازک تر ہوتی جارہی ہے اور دوسری طرف لیبیا کے حکمران معمر قذافی نے بہ بانگِ دُہل (!) اعلان کیا ہے کہ وہ اپنا جوہری پروگرام بند کر رہے ہیں!‘‘ اِسے کہتے ہیں اللہ دے اور بندہ لے! بڑی طاقتوں کی طرف سے ملک کو تاراج کرنے کی دھمکی پر معمر قذافی نے پسپائی اختیار کی اور اِسے ''بہ بانگِ دُہل‘‘ کے استعمال سے سجایا، سنوارا گیا!
کچھ ایسا ہی معاملہ بغداد کا تھا۔ جب امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں نے عراقی دارالحکومت پر جی بھر کے بمباری کی تو اُس کی لائیو کمنٹری میں کہا گیا کہ بم دھڑا دھڑ برس رہے ہیں اور بغداد ''بقعۂ نور‘‘ بنا ہوا ہے!
ہم نے ایک ساتھی سے کہا کہ سالا یا بہنوئی لکھنے کے بجائے برادرِ نسبتی لکھنا چاہیے اور ساس کے بجائے خوش دامن لکھنا فصیح اور بلیغ ہے۔ کچھ دن بعد اُنہوں نے ایک خبر تیار کی جس میں کسی خاتون جج کی ساس کا ذکر تھا۔ خبر میں لکھا گیا کہ جج صاحبہ کی خوش دامن امریکا سے آرہی ہیں۔ ہم نے پوچھا کہ بھائی، یہاں خوش دامن کیوں استعمال کیا ہے۔ جواب ملا ''آپ ہی نے تو کہا تھا کہ ساس کی جگہ خوش دامن کہنا اچھی اردو کی علامت ہے۔‘‘ ہم نے عرض کیا کہ بھائی صاحب، خوش دامن کا لفظ مرد کی ساس کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عورت کی ساس تو ساس ہی رہتی ہے۔ اُنہوں نے تنک کر جواب دیا ''آپ اپنی اردو اپنے پاس رکھیں۔ ہم جو لکھ رہے ہیں بس وہی لکھنے دیں۔ اب یہ حساب کون رکھے گا کہ کون سی ساس محض ساس ہے اور کون سی ساس خوش دامن کہلاتی ہے!‘‘
گزشتہ دنوں ایک خبر نظر سے گزری۔ اِس خبر میں ایک لفظ کا استعمال کچھ اس انداز سے کیا گیا کہ ہم نے خبر پڑھتے ہی (ظاہر ہے، اپنا) سر تھام لیا۔ خبر ملاحظہ فرمائیے۔ ''جامعہ کراچی میں شعبہ ابلاغ عامہ کے طالب علم اچانک (!) انتقال کرگئے۔ وہ عید سے دو دن قبل اپنے دوست کے ساتھ مویشی منڈی گئے تھے جہاں بے ہوش ہوگئے تھے۔ ڈاکٹرز نے برین ہیمرج کی تصدیق کردی تھی۔ چار دن زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد اسد منگل کو چل بسے۔‘‘
بہت کوشش کے باوجود ہم یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ اس خبر میں ''اچانک‘‘ کی گنجائش کیونکر نکالی گئی؟ اسد جمال کے انتقال پر جس قدر بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ ایک تو موت ... اور پھر جوان موت! ایک نوجوان یوں دنیا سے چلا جائے تو دکھ ہی ہونا چاہیے۔ مگر اس بے چارے کی حالت تو 6 دن سے ڈانوا ڈول تھی۔ وہ کم از کم چار دن تو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہا۔
غور کرنے پر اندازہ ہوا کہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ''اچانک‘‘ کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔ تمام معاملات میں یہ ''اچانک‘‘ فیکٹر یوں در آیا ہے کہ نکالے نہیں بنتی۔ ہم زندگی بھر پتا نہیں کیا کیا کرتے رہتے ہیں اور جب ہمارے اپنے اعمال و معاملات کسی منطقی نتیجے کی راہ ہموار کرتے ہیں تو ہم پریشان ہو اُٹھتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جو کچھ ہوا وہ اچانک کیونکر ہوگیا!
دور کیوں جائیے، امریکا اور اُس کے مغربی ہم نواؤں ہی کا معاملہ لیجیے۔ ایک مدت سے ہم اُن کے زیرِ اثر ہیں اور معاملات کو درست کرنے پر ذرا بھی توجہ نہیں دے رہے۔ جب معاملات بہت زیادہ الجھ جاتے ہیں اور خرابیاں بڑھ جاتی ہیں تب ''اچانک‘‘ ہمیں احساس ہوتا ہے کہ امریکا اور کے ہم نواؤں کی کاسہ لیسی ہمیں بربادی کی طرف لے جارہی ہے! اچانک ہم اپنی پالیسیاں تبدیل (!) کرنے پر تُل جاتے ہیں اور اچانک ہی پرنالے پھر وہیں بہنے لگتے ہیں جہاں ایک زمانے سے بہتے آئے ہیں! صحافت یا سیاست، ہماری زندگی سے یہ ''اچانک‘‘ فیکٹر نکل نہیں پارہا۔