"MIK" (space) message & send to 7575

… سَر ہے کہ نہیں!

اِس دنیا میں کون سا ایسا شادی شدہ مرد ہے جو اپنی دکھ بھری داستان کسی کو سنانا نہیں چاہتا؟ اور کون سی ایسی شادی شدہ عورت ہے جو اپنے دکھڑوں سے دوسری خواتین کو ''مستفید‘‘ کرنے پر بضد نہیں رہتی؟ گھریلو زندگی میں مرد اور زن دونوں ہی ایک دوسرے سے نالاں اور مرد تو ترساں بھی رہتے ہیں! ایک طرف مظلومیت کا راگ الاپا جارہا ہوتا ہے اور دوسری طرف بھرپور کوشش جاری رہتی ہے کہ موقع ملتے ہی مظلوم کا منصب ترک کرکے ظالم کا درجہ اختیار کیا جائے! 
شادی شدہ زندگی تو ہم بھی گزار رہے ہیں اور دنیا آکر دیکھے کہ ہم کس ''شان‘‘ سے یہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اِس کیفیت کو جون ایلیا نے یوں بیان کیا ہے ؎ 
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے 
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے! 
بہت سے لوگوں کا گمان ہے کہ ہم نے کالم نگاری اور مطالعے کی عادت شاید گھریلو زندگی کی پریشانیوں سے بچنے کے لیے پروان چڑھائی ہے! کسی کو کسی بھی طرح کا گمان پروان چڑھانے سے روکا تو نہیں جاسکتا۔ اور ویسے بھی بعض گمان اچھے ہوتے ہیں! ہم خود کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ جو جیسا سمجھے بس وہی ٹھیک۔ اب آپ سے کیا پردہ؟ ازدواجی یا گھریلو زندگی کے رنگ ڈھنگ کے بارے میں لوگ جو اندازے قائم کرتے ہیں کبھی کبھی اُن سے ہمیں بھی بہت کچھ سیکھنے کو مل جاتا ہے! 
گزشتہ دنوں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ اٹلی میں کسی کو شوق چَر آیا کہ شادی کے لیے دلہن کے گھر اُسی طرح جایا جائے جس طرح نیو کراچی کے بہت سے دولہا جایا کرتے ہیں یعنی بگھی کی جائے۔ اِسے کہتے ہیں ایک پنتھ دو کاج یعنی ایک تیر میں دو نشانے۔ شہر کی سیر بھی ہو جائے گی اور دلہن کے گھر ایک نئے انداز سے پہنچنے کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہوجائے گا! 
بگھی تیار کرائی گئی۔ اُس میں گھوڑا جوتا گیا۔ راستے میں خدا جانے کیا ہوا کہ گھوڑے کی حالت بگڑ گئی۔ اچھی خاصی دُلکی چال چلتے چلتے گھوڑے نروس بریک ڈاؤن کی زد میں آیا اور نڈھال ہوکر سڑک پر گِر پڑا۔ 
بارات رک گئی۔ سب اپنی اپنی گاڑیوں سے نکل آئے۔ دولہا میاں بھی بگھی سے نکلے اور (دلہن سے پہلے) گھوڑے کی دل جُوئی میں لگ گئے! دیکھتے ہی دیکھتے سڑک پر تماشا لگ گیا۔ لوگ حیران تھے کہ گھوڑے کو کیا ہوا؟ کیا وہ دولہا میاں کی ممکنہ و متوقع گھریلو زندگی کے بارے میں سوچ کر پریشانی کا شکار ہوگیا؟ آخری ایسی کون سی ٹینشن تھی جو گھوڑے کے دماغ پر سوار ہوئی اور اُسے سڑک کی دُھول چاٹنے پر مجبور کردیا! 
طرفہ تماشا یہ ہوا کہ کسی نے اس واقعے کی تصاویر اور وڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیں۔ بس، جانوروں کے حقوق کے علم بردار اٹھ کھڑے ہوئے اور گھوڑے سے بدسلوکی پر دولہا اور اس کے ساتھیوں کے خلاف قانونی کارروائی کی تیاری شروع کردی۔ بڑی مشکل سے معاملہ ٹھنڈا ہوا ... یا کیا گیا! 
ہم نے یہ خبر مرزا تنقید بیگ کے گوش گزار کی تو انہوں نے ''حسبِ روایت‘‘ اُن تمام لوگوں پر چند لفظی تبرّا بھیجا جو دوسروں کے انجام سے کوئی سبق نہ سیکھتے ہوئے گھر بسانے کے فراق میں رہتے ہیں بلکہ اُتاؤلے ہوئے جاتے ہیں! پھر قدرے سنجیدہ لہجے میں کہا ''بندر کی بلا طویلے کے سَر والی بات تو تم نے بھی سُنی ہوگی۔ یہ بات یکسر غلط بیان کی جاتی ہے۔ درست یوں ہے کہ طویلے کی بلا بندر کے سَر۔ معاملہ یہ ہے کہ اصطبل میں ایک بندر باندھ کر رکھا جاتا ہے۔ اگر کوئی بیماری گھوڑوں کو لگنے والی ہو تو وہ پہلے بندر کو لگتی ہے اور اصطبل کا نگران خبردار ہو جاتا ہے۔ یعنی بلا ہوتی تو ہے گھوڑوں کے لیے مگر بے چارے بندر کے گلے پڑ جاتی ہے۔ کچھ کچھ ایسا ہی معاملہ اِس گھوڑے کے ساتھ بھی ہوا۔ جسے شادی کے بعد ایک بڑی اور سو چھوٹی موٹی بلاؤں کا سامنا کرنا تھا وہ تو بگھی کے اندر سُکون سے بیٹھا رہا۔ بے ہوش اُسے ہونا چاہیے تھا مگر غش کھاکر گِر پڑا گھوڑا! گویا انسان کی بلا گھوڑے کے سَر! ایک زمانے سے دنیا بھر میں گھوڑوں کو گدھوں سے برتر اور بہتر تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ گھوڑا یہ سوچ کر بے ہوش ہوگیا ہو کہ اُسے ایک سجے سجائے گدھے کو لے جانے پر مامور کردیا گیا ہے!‘‘ 
ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ہاں یعنی پاکستانی معاشرے میں بارات سڑک پر مٹر گشت کرتی جاتی تھی۔ بینڈ باجے والے ساتھ ہوتے تھے اور جہاں سے گزرتے تھے لوگوں کی نیند خراب کرنے اور کانوں کے پردے پھاڑنے کا خوب اہتمام کرتے تھے! یہ اہتمام شاید اس لیے کیا جاتا تھا کہ جب ایک آدمی کا سارا سکون غارت ہونے ہی والا ہے تو دوسرے کیوں سکون سے رہیں، اُنہیں بھی تو کچھ پتا چلے کہ سکون کا غارت ہو جانا کیا ہوتا ہے! 
اُس زمانے میں دولہا سب سے آگے ہوتا تھا۔ کاریں کرائے پر لینے کا رواج تب تک پروان نہیں چڑھا تھا۔ دولہا گھوڑے پر ہوتا تھا اور گھوڑے کی پُشت پر اُس کے پیچھے چھوٹا بھانجا یا بھتیجا بھی بیٹھتا تھا۔ یہ گویا بچے کو اس مرحلے کے لیے ذہنی اور اعصابی طور پر تیار کرنے کی خاطر تھا! 
دولہا کو گھوڑے پر بٹھاکر لے جانے کا ایک بنیادی مقصد (شاید) یہ بھی تھا کہ باراتیوں اور لڑکی والوں کو گھوڑے اور گدھے کا فرق اچھی طرح معلوم ہوسکے! بعد میں جب ''ٹیکنالوجی‘‘ نے ترقی کی تب گدھوں کو کچھ ہوش آیا اور وہ سجی ہوئی کار میں بیٹھنے کو ترجیح دینے لگے! 
کراچی کی ایک قدیم بستی نیو کراچی بھی ہے جس میں کئی برادریاں رہتی ہیں۔ ان میں قصاب اور راجپوت برادری کی شادی بیاہ کی رسوم کچھ اِس انداز کی ہیں کہ کہیں شادی ہو رہی ہو تو صرف اُس محلّے کے لوگ ہی نہیں، پورے علاقے بلکہ کئی علاقوںکے لوگ جان جاتے ہیں۔ دونوں برادری کے لڑکے آج بھی بارات لے کر ایسی شان سے دلہن کے گھر کی طرف روانہ ہوتے ہیں گویا کوئی شہنشاہ عظیم لشکر لے کر کسی ملک کو فتح کرنے نکلا ہو! 
سکیورٹی کے نقطۂ نظر سے بعض وی وی آئی پیز کے قافلے میں تین تین بڑی اور شاندار کاریں شامل ہوتی ہیں اور کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اہم ترین شخصیت کس کار میں ہے۔ کچھ کچھ ایسا ہی معاملہ نیو کراچی کی قصاب یا راجپوت برادری کی باراتوں میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ پندرہ بیس کاریں برقی قمقموں سے یوں سجی ہوتی ہیں کہ اندازہ نہیں ہو پاتا کہ دولہا کس کار میں ہے! لڑکی والے پریشان ہو جاتے ہیں کہ کس کار پر صدقے جائیں، واری جائیں! 
ایک رواج کھلی گھوڑا گاڑی کو ٹیوب لائٹس اور قمقموں سے سجاکر اس میں دولہا کو بٹھا لے جانے کا بھی ہے۔ شادی ایک تماشا ہوگی مگر ایسی بارات بجائے خود ایک تماشا ہے! 
خیر، اب باراتوں سے گھوڑے غائب ہوچکے ہیں کیونکہ سیانوں کی رائے میں ایک بارات کے لیے ایک گدھا ہی کافی ہوتا ہے، باقی سب تو زیبِ داستاں کے لیے ساتھ چلتے ہیں! اٹلی میں گھوڑے نے بے ہوش ہوکر ایک بار پھر سب کو خبردار کیا ہے کہ سوچ لیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ سَر منڈاتے ہی اولے پڑیں اور کوئی بچانے والا بھی نہ ہو۔ شادی کو موتی چُور کا لڈو بھی کہا جاتا ہے کہ جو کھائے وہ پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے۔ شادی دستار بھی ہے مگر کبھی کبھی دستار سَر کو لے اُڑتی ہے! شاید اِسی حوالے سے کہنہ مشق شاعر لیاقت علی عاصمؔ نے کہا ہے ؎ 
ایسی دستار سے کیا فائدہ ہے، تم ہی بتاؤ 
دیکھتے رہتے ہو ہر وقت کہ سَر ہے کہ نہیں! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں