بھائی شعیب پاکستانی ہونے کا حق اور فرض خوب ادا کر رہے ہیں یعنی بہت زیادہ پریشان رہنے لگے ہیں اور وہ بھی بلا ضرورت، کسی جواز کے بغیر۔ عام پاکستانی کی طرح بھائی شعیب نے بھی طے کر لیا ہے کہ جن باتوں سے بظاہر کوئی خاص تعلق نہ ہو اُن کے بارے میں بھی سوچ سوچ کر پریشان ہونا ہے، بلکہ پریشان ہونے کا حق ادا کرنا ہے! کل ملاقات ہوئی تو وہ بنیادی مسائل کے بارے میں بہت سے بے بنیاد مفروضوں کو مکمل ''شرحِ صدر‘‘ کے ساتھ بیان کرنے پر تُل گئے۔ اِس سے پہلے کہ ہم اُنہیں روکنے کا سوچتے، وہ بہت آگے نکل گئے بلکہ یوں کہیے کہ پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ گئے۔ اور اس کے بعد تو، ظاہر ہے، اُنہیں اپنا ''منجن‘‘ پورا کا پورا بیچنا تھا جو اُنہوں نے بیچا!
بھائی شعیب شہد کا کاروبارکرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ عرقِ گلاب بھی کشید کرکے فروخت کرتے ہیں۔ ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ شہد بیچنے والے نے اپنے مزاج میں خواہ مخواہ زمانے کی تلخی کو در اندازی کا موقع فراہم کر رکھا ہے! ہم پاکستانی بھی عجیب مزاج کے واقع ہوئے ہیں۔ جن اُمور پر سوچنا ہے اُن کے سِوا تمام اُمور پر سوچتے ہیں۔ پرائم ٹائم میں تین چار گھنٹے ٹی وی سکرین کے سامنے دست بستہ بیٹھنے کے بعد لوگ گھروں سے نکلتے ہیں اور پھر ہوٹلوں کی کرسیوں پر نیم دراز ہو کر اُن تمام حکومتی اور ریاستی معاملات پر سیر حاصل اظہارِ خیال فرماتے ہیں‘ جن کا زندگی کی عمومی روش سے بظاہر کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ حد یہ ہے کہ پرچون کی دکان چلانے والے بھی وزیر اعظم اور آرمی چیف کو ''گراں قدر‘‘ اور ''تیر بہ ہدف‘‘ مشوروں سے نواز رہے ہوتے ہیں! قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کارروائی سے متعلق رپورٹس پڑھ اور سُن کر لوگ اپنے طور پر طے کرنے لگتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو فلاں سمت میں جانا چاہیے اور امریکا سمیت تمام بڑی طاقتوں سے تعلقات میں فلاں طرزِ عمل اپنانا چاہیے!
یہ خالص پاکستانی مرض ہے۔ لوگ اپنے اصل اور بنیادی معاملات کو بھول کر تمام غیر ضروری اور غیر متعلق معاملات کو گلے لگائے ہوئے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ جو کچھ سوچنا ہے بس وہی نہیں سوچا جا رہا۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
یوں سمجھنے کو تو سب کچھ این و آں سمجھا تھا میں
جو سمجھنا چاہیے تھا وہ کہاں سمجھا تھا میں!
ہم اٹک کر رہ گئے ہیں۔ اس حقیقت سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ ہماری زندگی میں مسائل ہی مسائل ہیں؟ اِن میں سے کچھ تو سسٹم کی خرابی کے پیدا کردہ ہیں اور کچھ ہم نے خود بھی پیدا کیے ہیں یا مزید پروان چڑھائے ہیں۔ گویا ؎
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں!
پرائم ٹائم میں کرنٹ افیئرز کے پروگرام دیکھ دیکھ کر جو لوگ اپنے ''اشہبِ تفکّر‘‘ کو بے لگام چھوڑنے پر تُلے رہتے ہیں وہ رفتہ رفتہ از کار رفتہ ہوتے جاتے ہیں یعنی اپنی زندگی اور حالات کے بنیادی معاملات پر اُن کی نظر نہیں رہتی۔ ذہن میں پورا جہان بسا ہوا ہو تو انسان اپنے معاملات پر معمولی سی توجہ دینے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ ٹی وی اینکرز اور ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے سیاسی و سٹریٹیجک بزرجمہر یعنی تجزیہ کار تو انگلی سے دیوار پر شہد لگا کر ایک طرف ہٹ جاتے ہیں اور اس کے بعد تماشا شروع ہو جاتا ہے یعنی ملک بھر میں لوگ سوچنے کی راہ پر گامزن ہو جاتے ہیں، تجزیوں کا بازار گرم کر دیتے ہیں۔ گویا ع
کمال اُس نے کیا اور میں نے حد کر دی!
بات بھائی شعیب سے شروع ہوئی تھی۔ اُن کا استدلال یہ تھا کہ ہم سے بہت زیادہ ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ پھر اُنہوں نے معاشی امور کے خالص پروفیشنل تجزیہ کار کا انداز اختیار کرتے ہوئے گِنوانا شروع کیا کہ کس چیز پر کون کس مرحلے میںکس حد تک ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ اُنہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بلاواسطہ (کم) اور بالواسطہ (زیادہ) محصولات کے ذریعے ہماری آمدن کا 70 فیصد سے زائد حصہ حکومتی مشینری چھین لیتی ہے! ابتدائی چند لمحات تک تو اُن کے تجزیے کا کچھ ایسا اثر مرتب ہوا کہ ہمیں اپنی روح قبض ہوتی ہوئی محسوس ہوئی! اللہ کا شکر ہے کہ ذرا سی دیر میں ہمارے حواس بحال ہوئے اور اپنی کھال میں واپس آ گئے۔ دل و دماغ مکمل بحال ہوئے تو ہم نے بھائی شعیب کو سمجھانے کی کوشش کی کہ معیشتیں اِسی طور کام کرتی ہیں۔ کرپشن اپنی جگہ مگر جو محصولات ہم سے لیے جاتے ہیں اُن سے حکومتی و ریاستی مشینری کام کرتی ہے۔ اور ایسا نہیں ہے کہ جو کچھ ہم سے لیا جاتا ہے وہ سب کا سب کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ بھائی شعیب کی طرح کروڑوں پاکستانی کا خیال یا گمان ہے کہ محصولات کا عشر عشیر بھی بہبودِ عامہ پر خرچ نہیں کیا جاتا۔ ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیںکہ ایسا نہیں ہے۔ عشرِ عشیر والی بات کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم سے لیے جانے والے محصولات کا 95 فیصد سے زائد کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ 95 فیصد کو تو ایک طرف رکھیے، اگر ہم سے وصول کیے جانے والے محصولات کا نصف یعنی 50 فیصد بھی کرپشن کی نذر ہو جائے تو پورے سسٹم کا بھٹّہ مکمل طور پر بیٹھ جائے!
ہر شعبہ کرپشن کی زد میں ہے۔ سرکاری مشینری میں کرپٹ عناصر کا تناسب پریشان کن حد تک زیادہ ہے۔ مگر کرپشن کو سرکاری مشینری یا ریاستی معاملات تک محدود رکھنا درست نہ ہو گا۔ پورا معاشرہ کرپٹ ہے۔ لوگ پانچ روپے کی لاگت سے پچاس روپے کا منافع کمانا چاہتے ہیں۔ دن چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے۔ بیشتر پاکستانی محض پانچ سات گھنٹے کام کرکے وہ سب کچھ پانے کی خواہش رکھتے ہیں جس کے لیے بہت سے لوگ کم و بیش اٹھارہ گھنٹے مصروفِ کار رہتے ہیں۔ کوئی شخص اگر رکشا یا ٹیکسی لے کر سڑک پر آتا ہے تو چاہتا ہے کہ تین چار گھنٹے میں ڈیڑھ دو ہزار روپے لے کر گھر واپس چلا جائے۔ برسوں فارغ بیٹھے رہنے کے بعد لوگ محض دو چار ماہ میں اُن تمام گزرے ہوئے یعنی ضائع کیے ہوئے برسوں کے نقصان کا ازالہ کرنے پر بضد رہتے ہیں۔
بھائی شعیب جیسے لوگ مالیاتی کرپشن کو رو رہے ہیں، یہاں تو فکری اور اخلاقی کرپشن نے معاشرے کی چُولیں ہلا رکھی ہیں۔ ہم، من حیث القوم، جہاں کھڑے ہیں وہاں اب ترجیحات کا نئے سِرے سے اور بالکل واضح تعین کرنا ہے۔ ہمیں اجتماعیت میں گم ہو کر انفرادیت یعنی شخصی معاملات کو نظر انداز نہیں کرنا ہے۔ اب طے کرنا ہے کہ خبروں اور تجزیوں کی لہر میں بہتے ہوئے اِتنا دور نہیں نکلنا ہے کہ واپسی کی گنجائش نہ رہے۔ جن باتوں سے بظاہر کوئی خاص تعلق نہ ہو اُن میں دلچسپی لے کر اپنے حالات کو مزید بگاڑنے سے ہمیں بچنا ہے۔ بھائی شعیب جیسے کروڑوں پاکستانیوں کو یہ یاد رکھنا ہے کہ بنیادی مسائل کے حوالے سے پریشان کن صورتِ حال اپنی جگہ مگر ہم بہرحال پاکستان میں رہتے ہیں اور یہ ملک اب تک اپنے بنیادی نظام یا میکنزم کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ یہ پاکستان ہے، اِسے صومالیہ، کانگو یا روانڈا پر محمول نہ کیا جائے! یہ سوچنا انتہائے حماقت ہے کہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ بیشتر پاکستانی اصلاحِ نفس کے ذریعے اب بھی معاشرے کی بہت سی خرابیوں کو دور کر سکتے ہیں۔ غیر متعلق اور انتہا پسند سوچ پریشانی کا گراف بلند کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی۔