مثل مشہور ہے مرے کو ماریں شاہ مدار۔ حالات کی سختی نے جنہیں پہلے ہی ادھ مُوا کر رکھا ہو اُنہیں مزید مارنے کی ''ہمت‘‘ واقعی قابل داد ہے! جن کی زندگی پہلے ہی مشکلات سے دوچار ہو اُنہیں مزید مسائل کے آگے ڈال دینا کہاں کی دانش مندی ہے؟ ملک بھر میں مہنگائی کی نئی لہر سر اٹھاتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایسے میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھانا! شاید ایسی ہی حرکات سے منتخب حکومتیں بھی شدید عدم مقبولیت کا شکار ہوتی ہیں۔
ڈیڑھ دو ماہ سے مملکتِ خدا داد کی حالت یہ ہے کہ کھانے پینے کی بیشتر اشیاء عام آدمی کی دسترس سے باہر ہیں۔ دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا بھی جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا جارہا ہے۔ کیا دال چاول، کیا سبزی ترکاری اور کیا دودھ دہی ... ہر چیز کو آگ لگی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ریاستی مشینری کو چلانے والے کس ذہنیت یا مزاج کے حامل ہیں کہ زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو بھی خواب و خیال کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ عوام جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے ہی کو زندگی کا ارفع ترین مقصد سمجھنے پر مجبور ہیں۔ اُنہیں اِس گورکھ دھندے میں اِس بُری طرح الجھادیا گیا ہے کہ اِس سے آگے کچھ سُجھائی ہی نہیں دیتا۔ پاکستانیوں میں صلاحیت کی کمی ہے نہ سکت کی مگر اِن دونوں اوصاف کو دو وقت کی روٹی میں کھپانے کی سازش پر عمل کیا جارہا ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ لوگ گھر کا چولھا جلتا رکھنے کی فکر ہی سے آزاد نہ ہوں۔ اگر وہ اس فکر سے آزاد ہوں گے تو کچھ اور کرنے کے بارے میں سوچیں گے اور جو سوچیں گے اُس پر عمل بھی کر گزریںگے۔ حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی کو ایک لایعنی جدوجہد میں یوں الجھادیا گیا ہے کہ اب وہ اِس مایا جال سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ تلاش کرنے کے بارے میں بھی نہیں سوچ پارہا۔
ایک ذرا سے ٹماٹر کی اوقات کیا ہے مگر ستم دیکھیے کہ یہ ذرا سا ٹماٹر ایک ماہ سے آنکھیں دکھا رہا ہے۔ خواتینِ خانہ کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ جن کھانوں میں ٹماٹر تقریباً لازم ہوتا ہے اُنہیں کھٹاس سے ہم کنار کرنے کے لیے دہی کو کب تک زحمت دیں! بہت سے لوگ کھانے میں ٹماٹر کی جگہ دہی کے استعمال سے بے مزا ہوکر رہ گئے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی بھی کھانے میں اصل کی جگہ کوئی متبادل چیز ڈالنا محض ''جگاڑ‘‘ ہے، حل نہیں۔ مگر کیا کیجیے کہ اب اِسی کا نام زندگی ہے۔ دنیا پتا نہیں کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم اب تک ٹماٹر، بھنڈی اور کریلے میں الجھے ہوئے ہیں!
کئی سال سے ہم بھی مشاہدہ کرتے آئے ہیں کہ ملک بھر میں چند سبزیاں نارمل نرخ پر فروخت کی جاتی ہیں اور چند ایک کی قیمت انتہائی بلند رکھی جاتی ہے۔ مثلاً آلو اور پیاز میں سے ایک کا نرخ جان بوجھ کر بلند رکھا جاتا ہے۔ دونوں ہی چیزیں کھانوں کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ دونوں ہی کو خریدنا پڑتا ہے۔ گویا نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن!
میڈیا اور دوسرے بہت سے عوامل کی مہربانی سے عوام کی ذہنی ساخت بھی ایسی الجھ کر رہ گئی ہے کہ اُن کی بیشتر باتیں سمجھ میں آتی ہیں نہ اُنہیں کوئی کام کی بات آسانی سے سمجھائی جاسکتی ہے۔ یہ عجیب گورکھ دھندا ہے کہ لوگ اپنے مطلب کی کسی بھی بات کو سمجھنے سے دور بھاگتے ہیں اور جن باتوں سے زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے اُسے گلے لگانے کو لپکتے ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ بازار میں جو چیز کمیاب ہو اُس کے پانے کی ہوس بڑھتی جاتی ہے اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اُس چیز کو دگنے یا تگنے داموں خریدنے کو بھی ترجیح دی جاتی ہے۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ علاقے کی سطح پر قائم سبزی بازار میں لوگ ہر اُس چیز کے بارے میں پوچھ رہے ہوتے ہیں جس کی پیداوار کم ہوئی ہو۔ گوار پھلی، اروی اور توری کے ڈھیر لگے ہوں توکم ہی لوگ ایک نظر دیکھنا گوارا کرتے ہیں اور اگر بھنڈی کم کم دکھائی دے رہی ہو تو لوگ اُسے خریدنے کے لیے بے تاب و بے قرار دکھائی دیتے ہیں!
کچھ مدت سے چکن کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ پونے دو سو سے سوا دو سو روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہونے والا مرغی کا گوشت تین سو اور ساڑھے تین سو روپے فی کلو تک پہنچا اور لوگ خریدتے رہے! حقیقت یہ ہے کہ فارمی مرغی کا گوشت کسی بھی اعتبار سے اس قابل نہیں کہ اُسے سوا دو سو روپے فی کلو سے زائد نرخ پر خریدا جائے۔ اب اُس میں سے غذائیت ہی نہیں، لذت بھی ختم ہوچکی ہے۔ پُھسپُھسے گوشت کو بھی بلند نرخ پر خریدنا اہلِ پاکستان ہی کا کمال ہے!
پاکستانی معاشرہ اصلاً صارف معاشرہ ہوکر رہ گیا ہے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ صرف کرنا چاہتے ہیں۔ عام آدمی کی نفسی ساخت کو بُری طرح مسخ کرکے اُسے زیادہ سے زیادہ صرف کے رجحان کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ میڈیا کے ذریعے ذہنوں پر یہ بات بم کی طرح برسائی گئی ہے کہ زندگی کا مزا صرف اِس بات میں ہے کہ ہم خوب کمائیں اور خوب خرچ کریں۔ یعنی اِن دو اعمال کے درمیان شعور کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ معاشرے پر ایک اُچٹتی سی نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ زندگی کے بنیادی افعال کے حوالے سے بھی انتہائی بے شعوری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ دن رات محنت کرکے جو کچھ کمایا جاتا ہے اُسے انتہائی بے دِلی، بے ذہنی اور بے دردی سے لٹادیا جاتا ہے۔ انسان کو اپنی خرچ کی ہوئی رقم کا قریب ترین نعم البدل تو ملنا ہی چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہو تو زندگی کا معیار بلند کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت اِس کیفیت سے دوچار ہے مگر تھوڑا بہت سوچ بچار کرکے معاملات کو درست کرنے کی طرف مائل ہونے پر تیار نہیں۔
ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ جو لوگ حالات کے ہاتھوں پریشان بلکہ تنگ ہیں وہی ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچنے کے لیے بھی بے تاب رہتے ہیں۔ جو شخص گھر سے رکشہ لے کر سڑک پر آتا ہے وہ تین چار گھنٹے میں دو ڈھائی ہزار روپے لے کر گھر واپس جانے کے فراق میں رہتا ہے! اور اگر تین چار گھنٹے میں دو ڈھائی ہزار روپے کمانے میں کامیاب ہوجائے تو اِس رقم کو یوں بے دردی سے خرچ کر بیٹھتا ہے گویا کاغذ کے ڈھیر میں آگ لگائی جارہی ہو!
لالچ، ہوس، بے تابی، بے حواسی ... یہ تمام معاملات مل کر ہماری ذہنی ساخت کو جام کرچکے ہیں اور ہم لاحاصل اعمال کی کال کوٹھڑی میں بند ہوکر رہ گئے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اِس کال کوٹھڑی سے نکلنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا جائے، بھرپور کوشش کی جائے۔ جو کچھ وافر مقدار میں دستیاب ہو اُس کے نرخ مناسب ہوتے ہیں۔ جو کچھ بازار سے غائب کردیا گیا ہو اُسی کو دیکھنے کے لیے ہم بے تاب رہتے ہیں۔ سوداگری اِسی چالاکی کا نام ہے۔ چیز کو غائب کرکے بلند نرخ پر بیچو۔ اور ساتھ ہی ساتھ صرف کا رجحان بھی سرگرمِ عمل ہے۔ یعنی سوچے سمجھے بغیر کماؤ اور سوچے سمجھے بغیر خرچ کرو یا اُڑاؤ! اِس قید سے نکلنے کی سبیل نہ کی گئی تو زندگی سی نعمت کو رائیگاں سمجھیے!