14 سال کی عمر ہوتی ہی کیا ہے۔ یہ تو کھیلنے کودنے کے دن ہوتے ہیں۔ بچے جب لڑکپن کی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو کتابیں بغل میں داب کر سکول کی راہ لیتے ہیں، پڑھنے اور کھیلنے کے ساتھ ساتھ لڑتے جھگڑتے بھی ہیں۔ دوستی بھی ہوتی ہے اور دھینگا مشتی بھی۔ پڑھنے کی عمر میں پڑھانے کا کون سوچتا ہے؟ آپ نے بھی اِس عمر میں پڑھانے کا تو نہیں سوچا ہوگا۔ مگر دنیا میں ہر طرح کے باصلاحیت اور عجیب لوگ پائے جاتے ہیں۔ ان میں غیر معمولی صلاحیت کے حامل ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو دوسروں کے لیے روشن مثال ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے لیے اچھا خاصا دردِ سر بھی ہوتے ہیں۔
انگلینڈ کے 14 سالہ یشا ایسلے کا شمار اُُن لڑکوں میں ہوتا ہے جن میں علم حاصل کرنے اور اُسے دوسروں تک پہنچانے کی غیر معمولی صلاحیت اور سکت پائی جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ اپنی جگہ ایک روشن مثال سہی مگر بہت سوں کے لیے دردِ سر کی حیثیت بھی اختیار کرگیا ہے۔ یشا ایسلے نے شاید ٹھان لی ہے کہ پس ماندہ ممالک کے بڑے بڑوں کو شرمندہ کرکے مار ڈالے گا۔
یشا ایسلے ریاضی میں غیر معمولی مہارت رکھتا ہے۔ وہ ملک کے ذہین ترین طلباء میں سے ہے اور اب یونیورسٹی آف لیسٹر میں ٹیوشن دینے پر بھی مامور ہے۔ اس نے بہت چھوٹی عمر میں ریاضی کے حوالے سے مثالی مہارت کا مظاہرہ کیا اور یونیورسٹی آف لیسٹر سے ریاضی کی اعلیٰ سند حاصل کی۔ یونیورسٹی آف لیسٹر میں جب ریاضی کے ٹیوٹرز کی جابز آئیں تو یشا ایسلے نے بھی اپنی لیاقت آزمانے کی ٹھانی اور انٹرویو پینل کے سامنے پیش ہوا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس نے کئی مضبوط امیدواروں کو شکست دے کر اپنے لیے راہ بنائی یعنی ٹیوٹر منتخب ہوا۔ لیسٹر سٹی کونسل نے اسے کم عمر ترین سرکاری ملازم کی حیثیت سے کام کرنے کی خصوصی اجازت دی ہے۔ وہ یونیورسٹی آف لیسٹر میں پی ایچ ڈی کی تیاری بھی کر رہا ہے اور ریاضی میں مشکلات محسوس کرنے والے طلبہ کی معاونت بھی کرتا ہے۔یشا کا تعلیمی کیریئر انتہائی شاندار رہا ہے۔ سکولنگ کے صرف 6 سال مکمل کرکے وہ یونیورسٹی گیا۔ اس نے 8 سال کی عمر میں ریاضی اور شماریات میں بالترتیب 100 اور 99 مارکس لیے۔ اسے پیار سے انسانی کیلکیولیٹر کہا جاتا ہے۔ یشا ایسلے میں علم حاصل کرنے کی لگن غیر معمولی ہے۔ وہ دوسروں کے لیے ایک مثال بن گیا ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ دوسروں کے لیے مثال بننے والا اپنے لیے کیا ہے؟
مرزا تنقید بیگ کا تعلق معاشرے کے سوادِ اعظم سے ہے یعنی علم حاصل کرنے میں اُن کی کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ وہ عمر بھر علم کی خاطر خواہ ضرورت محسوس کیے بغیر اپنی مرضی کی زندگی بسر کرتے آئے ہیں۔ آج بھی وہ باقاعدگی سے اخبار پڑھنے تک کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں ایسے لوگ کیا کرتے ہیں۔ جی ہاں، دوسروں پر تنقید... اور اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر، صرف تنقیص۔
کل شام کی ملاقات میں ہم نے جب یشا ایسلے کا کیس مرزا کے سامنے رکھا اور ساتھ ہی اِس بات پر قدرے افسوس کا اظہار کیا کہ غیر معمولی ذہن نے یشا ایسلے سے بہت کچھ چھین لیا ہے۔
مرزا نے حیران ہوکر پوچھا ''اس قدر باصلاحیت لڑکے نے چھوٹی سی عمر میں وہ پالیا ہے جو ہمارے ہاں لوگ خیر سے پوری زندگی حاصل نہیں کر پاتے۔ تم کس بات پر افسوس کا اظہار کر رہے ہو؟ پاکستانی معاشرے میں لوگ زندگی بھر یعنی مرتے دم تک ڈھنگ سے علم حاصل کرنے کے قابل نہیں ہو پاتے اور ریاضی سے تو خیر ہم ویسے ہی الرجک رہتے ہیں! ایسے میں یشا ایسلے کا ریاضی میں مہارت حاصل کرنے کے بعد محض 14 سال کی عمر میں پڑھانے کے قابل بھی ہو جانا بجائے خود ایک انتہائی حیرت انگیز امر ہے۔ ذرا ہمیں بھی تو معلوم ہو کہ غیر معمولی ذہن نے یشا ایسلے سے ایسا کیا چھین لیا ہے جس کا تمہیں بھی افسوس ہے‘‘
ہم نے مرزا کی اِس بات سے مکمل اتفاق کیا کہ ہمارے ہاں بہت سے لوگ زندگی بھر ڈھنگ سے علم حاصل کرنے کے قابل بھی نہیں ہو پاتے... اور اِتنا کہہ کر ہم نے اُنہیں تھوڑا سا گھورا۔ مرزا اچھے خاصے جھینپ گئے۔ ہم نے بات جاری رکھتے ہوئے مرزا کے گوش گزار کیا کہ ہر کام وقت پر اچھا لگتا ہے۔ بچپن گیا اور لڑکپن آیا مگر لڑکپن آتے ہی یشا ایسلے پر بڑھاپا آگیا۔
بڑھاپا؟ مرزا نے حیران ہوکر پوچھا ''اِس میں بڑھاپا کہاں سے آگیا؟‘‘
ہم نے عرض کیا کہ یشا ایسلے لڑکپن کے دور ہی میں جوانی کو یکسر skip کرتے ہوئے اُس جاب کی طرف چلا گیا ہے جو اُسے کم از کم ڈیڑھ عشرے بعد کرنا چاہیے تھی!‘‘
''کیوں بھئی، ڈیڑھ عشرے بعد کیوں؟ اِس وقت یعنی 14 سال کی عمر میں یونیورسٹی کی سطح پر پڑھانا کوئی کم اعزاز کی بات ہے کیا؟‘‘ مرزا نے خاصی طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ استفسار کیا۔ ہم نے مرزا کو سمجھانے کی کوشش کی کہ بے چارے یشا ایسلے سے زندگی کا اچھا خاصا مزا چِھن گیا ہے۔ جو عمر دوست بنانے، ہنستے گاتے ہوئے دن گزارنے اور زندگی کے ہر معاملے کو بہت ہی ہلکے پھلکے انداز سے لینے کی ہوتی ہے اُس عمر میں بے چارہ علمی گتھیاں سلجھانے کی دلدل میں دھنس گیا ہے۔
ہمارا نقطۂ نظر سن کر مرزا نے ہتھے سے اکھڑتے ہوئے کہا ''بس بس، اپنا فلسفہ اپنے پاس رکھو اور مضبوطی سے پکڑ کر رکھو تاکہ یہ کسی اور کے ہاتھ لگ کر اُسے بھی تمہاری طرح ناکارہ نہ بنادے۔ تم تو چاہوگے کہ یشا ایسلے وہی کرے جو تم اِس عمر میں کیا کرتے تھے۔ تمہیں تو وہ برا لگے گا ہی کیونکہ تمہاری طرح وہ 14 سال کی عمر میں سکول سے بھاگر کر فلمیں نہیں دیکھتا، مٹر گشت نہیں کرتا، اجڑے ہوئے سرکاری پارکس میں دوستوں کے ساتھ دھینگا مشتی نہیں کرتا!‘‘
مرزا کی تنقید کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ہم نے عرض کیا کہ کبھی کبھی تیزی سے پنپتی ہوئی لیاقت انسان سے زندگی کا اچھا خاصا لطف چھین بھی لیتی ہے۔ یشا ایسلے کو شاید 30 سال کا ہو جانے کے بعد یہ احساس ستائے کہ وہ زندگی کے بہت سے خوشگوار لمحات پیچھے نہیں چھوڑ آیا بلکہ وہ لمحات اُسے میسر ہی نہ ہوسکے۔ جس عمر میں دوستوں کے ساتھ جی بھر کے خوش گپیاں کی جاتی ہیں اُس عمر میں وہ ریاضی اور شماریات کی گتھیاں سلجھا رہا ہے۔ ذہنِِ رسا نے تو غریب کو زیرِ دام کرلیا! مرزا نے ہماری بات سن کر کہا ''میاں‘ پسماندہ معاشرے کے افراد والی ذہنیت کے دائرے سے نکلو اور ایسے باصلاحیت لڑکے سے حسد کرنے کے بجائے کچھ سیکھو۔ اور کچھ نہ سہی، یہی سیکھ لو کہ جس عمر میں تم اپنا وقت زمانے بھر کے لاحاصل مشاغل پر ضائع کرتے تھے، یشا ایسلے ایک وقیع یونیورسٹی میں پڑھا رہا ہے!‘‘ ہم تو اِس قدر عرض کرنا چاہتے تھے کہ ہر چیز کا ایک معیاری اور موزوں وقت ہوتا ہے۔ جس طرح بہت تاخیر سے ملنے والی کامیابی زیادہ مزا نہیں دیتی اُسی طرح کبھی کبھی وقت سے بہت پہلے مل جانے والی کامیابی بھی زندگی کے بہت سے مزے چھین لیتی ہے، عدم توازن پیدا کردیتی ہے۔ موزوں وقت سے بہت پہلے ملنے والی کامیابی کا ریلا اپنے ساتھ بہت کچھ بہا لے جاتا ہے! جو لوگ اپنے بچوں کو وقت سے بہت پہلے کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں وہ اُنہیں زندگی کے حقیقی اور فطری لطف سے محروم کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یشا ایسلے جیسی مثالیں دلکش تو ہوتی ہیں مگر اپنے بچوں کو ایسا بنانے کی کوشش اُن سے دشمنی نکالنے کا تاثر دیئے بغیر نہیں رہتی۔