"MIK" (space) message & send to 7575

آواز لگتی رہنی چاہیے

بدھ کو کراچی پریس کلب میں پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال کے ساتھ پریس کانفرنس کے بعد‘ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے جمعرات کو اپنے گھر پر جو پریس کانفرنس کی تھی اُس کے جواب میں پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال نے ہفتے کو دن کے دو بجے پریس کانفرنس کی۔ اگرچہ وہ پُرانی باتوں اور عزائم کے اعادے پر مشتمل تھی مگر یہ بات قابلِ ستائش ہے کہ اُن کا زور تبدیلی پر ہے۔
مصطفی کمال نے الزامات کا جواب بھی دیا اور کہیں کہیں لہجہ تیز، بلند اور تلخ بھی ہوا مگر اِن ساری باتوں کے باوجود یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ وہ مل کر کام کرنے، ساتھ چلنے والی بات سے اب تک تک دست بردار نہیں ہوئے۔ 
مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں کا بیانیہ منفی سے مثبت برآمد کرنے کا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ چاہتی تھی کہ ایم کیو ایم مائنس الطاف ہو۔ یہ ہوگیا۔ مصطفی کمال چاہتے ہیں کہ کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں واضح اکثریت رکھنے والا اردو سپیکنگ طبقہ اپنی سیاست سے لفظ ''مہاجر‘‘ کو منہا کر دے۔ اُن کا استدلال ہے کہ اِس ایک لفظ کی بنیاد پر سیاست کرتے کرتے شہری سندھ کا اکثریتی طبقہ مرکزی دھارے کی سیاست سے الگ ہوکر بہت محدود، بلکہ کنویں کا مینڈک ہوکر رہ گیا ہے۔
مصطفی کمال نے تازہ ترین پریس کانفرنس میں یہ بات زور دے کر کہی کہ ہر معاملہ بات چیت سے طے ہوگا، کوئی تصادم نہیں ہوگا۔ شہرِ قائد اور سندھ میں اردو بولنے والے طبقے کو نئی سیاسی راہ پر ڈالنے کے لیے لازم ہے کہ بات کی جائے، معاملات مل بیٹھ کر طے کیے جائیں۔ اُن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ کراچی پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران جو کچھ بھی کہا گیا وہ فی البدیہہ، unplanned یا random نہیں تھا۔ پاک سرزمین پارٹی چونکہ ایم کیو ایم میں ضم ہونے کو تیار نہیں تھی اس لیے طے پایا تھا کہ کسی نئے نام سے سیاسی پلیٹ فارم بناکر مشترکہ جدوجہد کی جائے گی۔ اس حوالے سے آٹھ ماہ تک بات چیت ہوتی رہی تھی جس میں فاروق ستار کے ساتھ عامر خان، خالد مقبول صدیقی اور کامران ٹیسوری بھی شریک ہوتے رہے۔ اور اب تک ان رہنماؤں کی طرف سے کوئی تردیدی بیان بھی نہیں دیا گیا ہے۔
کراچی، حیدر آباد، شہداد پور، میر پور خاص، ٹنڈو الٰہ یار اور سندھ کے دوسرے بہت سے شہری علاقوں میں اردو بولنے والے طبقے کی واضح اکثریت ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ تنے ہوئے رسّے پر چلنے کے چیلنج سے دوچار رہے ہیں۔ اگر یہ مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ نہیں چلتے تو سندھی بولنے والوں کی اکثریت اِنہیں شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اور ''اپنوں‘‘ کو ووٹ دیتے ہیں تو ایسا کرنا نیکی کر دریا میں ڈال والا معاملہ معلوم ہوتا ہے۔ اِن لوگوں نے محدود ''نظریے‘‘ کی بنیاد پر جنہیں ووٹ دیا اُنہیں نے کبھی کماحقہٗ ڈلیور نہیں کیا۔ دعوے کرنے پر کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ سوال تو یہ ہے کہ ترقی و استحکام کی زمینی حقیقت کہاں ہے۔ 
مصطفی کمال کہتے ہیں کہ اردو بولنے والوں کو اب سیاسی میدان میں لفظ مہاجر کا ٹیگ ختم کرنا ہوگا۔ یہ ایک لفظ سیاست اور گورننس کے حوالے سے بہت کچھ یاد دلاتا رہتا ہے۔ شہداء قبرستان کا دروازہ کھلوانے پر بھی مصطفی کمال نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اب قبرستان بند ہی رہنے چاہئیں۔ جن کے جگر گوشے چلے گئے‘ وہ مائیں رُل گئی ہیں۔ یہ سلسلہ اب ختم ہو جانا چاہیے۔ 
اس وقت ایم کیو ایم پاکستان سے جو لوگ جڑے ہوئے ہیں‘ وہ جانتے ہیں کہ شہری سندھ کے عوام کی اکثریت کے ذہنوں میں صرف ایک لفظ ٹُھنسا ہوا ہے اور وہ ہے مہاجر۔ اُنہیں معلوم ہے کہ یہ ایک لفظ اُنہیں ووٹ دلائے گا۔ ٹھیک ہے، مگر پھر پرنالے بھی وہیں بہتے رہیں گے۔ اگر کچھ نیا چاہیے تو تھوڑا بہت رسک بھی لینا پڑے گا۔ اور پھر اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیںکرسکتا کہ تین عشروں کے دوران ایم کیو ایم نے لفظ مہاجر کی راہ پر گامزن ہوکر کئی منزلیں پائیں مگر عوام اب تک مخمصے میںہیں۔ ایم کیو ایم کو اقتدار کا مزا چکھنے کے کئی مواقع مل چکے ہیں اور کون نہیں جانتا کہ شناخت سمیت اردو بولنے والوں کے تمام مسائل ایک طرف رہ گئے اور انفرادی سطح پر مفادات کو زیادہ سے زیادہ تقویت بہم پہنچانے کی کوششیں جی جان سے جاری رہیں۔
مصطفی کمال کا تعلق بھی ایم کیو ایم ہی سے رہا ہے۔ الطاف حسین اُن کے بھی قائد تھے اور وہ اپنے قائد کے خلاف ایک لفظ سُننے کو تیار نہ ہوتے تھے۔ مگر خیر، اب تبدیلی کی ہوا چلی ہے تو حافظے سے بہت کچھ نکالنا بھی پڑے گا۔ گندے کپڑے چوراہے پر لاکر دھونے سے کہیں بہتر ہے کہ سندھ میں آباد تقریباً ڈیڑھ کروڑ اردو بولنے والوں کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے اور صوبے کی سیاست میں حقیقی ہم آہنگی و استحکام پیدا کرنے کے لیے مل جل کر کچھ کیا جائے۔ بات چیت کے ذریعے اختلافات کو یوں دور کیا جائے کہ لوگ مخمصے سے نکلیں، تیقن کی منزل تک پہنچیں۔ مصطفی کمال اس نکتے پر زور دے رہے ہیں کہ صرف مہاجر بن کر نہ سوچا جائے بلکہ پاکستانی بن کر وسیع تر تناظر میں کام کرنے کی گنجائش پیدا کی جائے۔ ایسے عالم میں 22 اگست اور اُس کے فوری بعد رونما ہونے والے واقعات کے اعادے سے حتی الوسع گریز کیا جانا چاہیے۔ مصطفی کمال نے یاد دلایا کہ الطاف حسین کی 22 اگست کی تقریر کے بعد فاروق ستار ملزم کی حیثیت سے گرفتار کیے گئے اور ایک دن بعد چھوڑے گئے تو وہ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ تھے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ یہ فاروق ستار ہی تھے‘ جنہوں نے رینجرز کی حراست کے دوران اُن خواتین کی نشاندہی کی (یعنی نام اور پتے بتائے) جنہوں نے الطاف حسین کی طرف سے اکسائے جانے پر توڑ پھوڑ کی اور میڈیا ہاؤس کو نشانہ بنایا۔ اور ابھی وہ یہ بات کر ہی رہے تھے کہ عزیز آباد میں شہداء قبرستان آمد پر خواتین کے ایک گروہ نے فاروق ستار کو غدار قرار دیتے ہوئے اُن پر لعن طعن کی۔کراچی سمیت سندھ بھر کے شہری علاقوں کے اردو بولنے والے ایک بار پھر شدید مخمصے کے عالم میں ہیں۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی ہو تب بھی اِنہیں حبس محسوس ہوتا ہے ؎ 
نظر میں الجھنیں، دل میں ہے عالم بے قراری کا 
سمجھ میں کچھ نہیں آتا‘ سکوں پانے کہاں جائیں
اردو بولنے والوں نے جنہیں تین عشروں کے دوران بھرپور مینڈیٹ سے نوازا ہے‘ اُنہوں نے ڈلیورنس کے معاملے میں کھل کر ڈنڈیاں، بلکہ ڈنڈے مارے ہیں۔ کراچی میں جغرافیے، آبادی کی نوعیت اور عمومی اندازِ کار کے حوالے سے بہت کچھ بدل چکا ہے مگر اِس کی سیاست تبدیل ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ سندھ کے سابق وزیر بلدیات شرجیل میمن نے خوب کہا ہے کہ ایم کیو ایم نے یوٹرن نہیں لیا بلکہ یہ جماعت تو اب چورنگی پر گھوم رہی ہے۔
چورنگی پر گھومتے رہنے کا سفر ختم کرنے کے لیے ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت کو چند ایک معاملات میں وسیع النظری اور بالغ نظری کا ثبوت دینا ہوگا۔ پاک سرزمین پارٹی اور دیگر سیاسی سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر اِسے کوئی ایسی راہ نکالنا پڑے گی جو منزل تک رسائی کی ضمانت بھی دیتی ہو اور سب کے لیے قابلِ قبول بھی ہو۔ مصطفی کمال کہتے ہیں کہ وہ آواز لگاتے رہیں گے۔ آواز لگتی رہنی چاہیے۔ آخر میں جملہ معترضہ کے طور پر ایک سوال... تین عشروں کے دوران جنہوں نے قدم قدم پر ''گھور انیائے‘‘ کیا ہے اُن کا معاملہ کیا محشر پر اُٹھا رکھنا چاہیے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں