"MIK" (space) message & send to 7575

کھانا پینا بھی ہوگیا دشوار

ایک زمانہ تھا جب دنیا بھر میں میڈیا کا ایسا غلغلہ نہ تھا۔ تب بھی ماہرین بہت کچھ سوچتے رہتے تھے اور تحقیق کرنے والے ہر طرح کے معقول و نامعقول معاملات پر تحقیق کرتے رہتے تھے مگر لوگ تحقیق اور ماہرانہ رائے سے محفوظ رہا کرتے تھے۔ رابطے کے ذرائع محدود تھے۔ میڈیا پر ہر چیز آسانی سے آ نہیں پاتی تھی۔ اخبارات و جرائد کا زور تھا۔ ریڈیو اور ٹی وی چینلز محدود تھے۔ اور اُن پر کسی بھی چیز کو پیش کرنے کا معیار بھی بہت سخت تھا۔ 
اب خیر سے ٹی وی چینلز اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ دیکھنے والوں کے لیے سانس لینا محال ہوگیا ہے۔ ایک طرف سیاست اور دوسری طرف مختلف موضوعات پر کی جانے والی انٹ شنٹ تحقیق۔ یعنی اِدھر کھائی تو اُدھر پہاڑ۔ ع 
خداوندا! یہ تیرے سادہ دل بندے کہاں جائیں؟ 
آج کے انسان کے کے لیے سب سے بڑی آزمائش یہ ہے کہ وہ کسی بھی معاملے پر ماہرین میں سے کس کی بات مانے اور کس کی رائے کو ردی کی ٹوکری میں ڈالے۔ ایک ہی موضوع پر بہت سے افراد اور ادارے بیک وقت ''دادِ تحقیق‘‘ دے رہے ہوتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں صرف خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ خرابیاں اِس لیے کہ رائے میں اچھا خاصا فرق پایا جاتا ہے۔ کوئی گروپ کسی چیز کے زیادہ استعمال کو نقصان دہ بتاتا ہے اور کوئی گروپ اُسی چیز کا استعمال گھٹانے کو بے عقلی کی دلیل قرار دیتا ہے! 
ماہرین اور محققین کو اللہ ہی سمجھے کہ اُنہوں نے کھانے پینے کے معاملات کو سب سے زیادہ بگاڑا ہے۔ لوگ الجھ کر رہ گئے ہیں کہ کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں۔ ایک ایک لقمے پر نفع و ضرر کا خیال جان کھاتا جاتا ہے! لوگوں کو سبز باغ دکھاتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ دن بھر میں اِتنی سبز چائے پینے سے جسم متوازن رہتا ہے اور مختلف بیماریاں بھی دور رہتی ہیں۔ کچھ دن بعد خبر آتی ہے کہ ماہرین ہی کہہ رہے ہیں کہ سبز چائے بہت زیادہ پینے سے فلاں فلاں پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں! کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا پئیں اور کیسے جئیں؟ 
کسی پھل کے بارے میں تحقیق کرکے بتایا جاتا ہے کہ اس کے کھانے سے بیماریوں کی روک تھام ہوتی ہیں۔ مگر کچھ ہی دنوں میں کسی اور تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پھل کے کھانے سے تو کئی بیماریاں بھی لاحق ہوتی ہیں! اب اگر پہلی والی تحقیق پڑھ کر بازار سے وہ پھل لے آئے ہیں تو مارے گئے! سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ پھل کھائیں یا کچرا کنڈی میں پھینک آئیں۔ اگر کھاتے ہیں تو ذہن میں سو طرح کے وسوسے جنم لیتے ہیں اور اگر کچرا کنڈی کی نذر کیجیے تو دل جلتا ہے کہ خُون پسینے کی کمائی سے خریدی ہوئی چیز پھینکنے میں آرہی ہے! 
ماہرین نے ''نوید‘‘ سنائی ہے کہ دن بھر میں پانچ کپ کافی پینے سے کینسر کے خطرے کو 40 فیصد کی حد تک ٹالا جاسکتا ہے۔ سیکڑوں افراد پر تجربہ کرنے کے بعد اس کے نتائج نوٹ کرکے ماہرین نے جو کچھ کشید کیا اُسے ایک تحقیقی مقالے کی شکل میں پیش کیا ہے۔ کافی پینے والے، بلکہ کافی کے دَھتّی بہت خوش ہیں۔ انہیں کینسر سے محفوظ رہنے کی خوش خبری کی خوشی ضرور ہے مگر اس سے بڑھ کر خوشی ایک اور بات کی ہے۔ دن بھر کافی پیتے رہنے سے منہ میں تلخی سی رہا کرتی ہے اور لوگ بھی باتیں بناتے رہتے ہیں کہ کیا ہر وقت ایسی کڑوی چیز پیتے رہتے ہو۔ ماہرین کی سُنائی ہوئی ''نوید‘‘ نے اُن کے منہ کا ذائقہ کچھ بہتر کردیا ہے اور وہ کافی پہلے سے بھی زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ پی رہے ہیں اور کافی کی تلخی کو بھی شیرینی سمجھ رہے ہیں! 
کافی کے فوائد کے بارے میں ماہرین نے جو کچھ کہا ہے وہ پڑھ کر ہمیں سال بھر پہلے خشک میوہ جات کے فوائد سے متعلق ماہرین کی رائے یاد آگئی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بادام، پستے اور چلغوزے میں انسان کے لیے کئی طرح کے فوائد پائے جاتے ہیں۔ چلغوزے کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جسم کو متوازن اور دل کو مستحکم و متحرک رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ چلغوزے کی تقریباً سو گرام گری روزانہ کھانے سے جسم و جاں میں فرحت و تازگی کا احساس برقرار رہتا ہے اور اعضائے رئیسہ کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ 
جو کچھ ماہرین نے کہا وہ یقینی طور پر درست ہی ہوگا مگر یہ سب کچھ پڑھ کر ذہن میں یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ پاکستان جیسے ملک میں یومیہ 100 گرام چلغوزے کھانے کا مطلب ہے مہینے بھر میں تقریباً تین کلو گرام چلغوزے چبا جانا۔ یعنی کم و بیش پندرہ ہزار روپے کا اضافی خرچ! اگر دل کو مستحکم رکھنے کے لیے ماہانہ پندرہ ہزار روپے کے چلغوزے کھانا درست ٹھہرا تو پیٹ میں کیا ڈالیے گا! کیا روزانہ کا کھانا پینا کسی اور زمانے کے لیے اٹھا رکھیں؟ پندرہ ہزار روپے میں تو کسی چھوٹے گھرانے کا مہینے بھر کا خشک راشن آتا ہے۔ یعنی مہینے بھر کا راشن ایک طرف اور چلغوزہ بہادر کی ناز برداری ایک طرف! 
ماہرین جب بھی کوئی ''سجیشن‘‘ دیتے ہیں اُس میں سے ''ڈپریشن‘‘ کا پہلو برآمد ہو ہی جاتا ہے! اور اگر آسانی سے نہ ہو رہا ہو تو ماہرین خود کوئی جگاڑ کرکے برآمد کرلیتے ہیں۔ پاکستان میں روزانہ پانچ کپ کافی پینے کا مطلب ہے گھر کا ہر فرد یومیہ کم و بیش 125 روپے کی کافی پیے۔ بہت خوب۔ اگر گھرانہ پانچ افراد پر مشتمل ہے تو یومیہ 600 روپے تو کینسر سے محفوظ رہنے ہی پر لگ جائیں گے! اِس کے نتیجے میں گھر بھر کے بجٹ کو جو کینسر لاحق ہوگا ماہرین اُس کا کوئی علاج تجویز کرنا پسند کریں گے؟ 
بہت سے پھل ہیں جو آسانی سے اور وافر مقدار میں دستیاب ہیں اور اُن کے فوائد سے بھی کسی کو انکار نہیں مگر ماہرین اُن کے بارے میں کوئی رائے کیوں دینے لگے؟ جو چیز آسانی سے اور ارزاں مل جائے اُس میں محققین کو کم ہی خوبیاں دکھائی دیتی ہیں۔ تحقیق کا شوق کمیاب اور مہنگی اشیاء کے حوالے سے پورا کیا جاتا ہے تاکہ لوگ ماہرانہ رائے سُنیں اور دنگ رہ جائیں۔ عام دکانوں میں فروخت کیا جانے والا دلیہ بھی خوبیوں کا خزانہ ہے مگر ماہرین آپ کو تقویتِ قلب و ذہن کے لیے بادام، پستے، اخروٹ، کاجو وغیرہ کھانے کا مشورہ دیں گے تاکہ آپ مشورے پر عمل کریں اور گھر میں ہنگامہ برپا ہو۔ اس وقت انجیر اور کشمش کے دام بھی 600 روپے فی کلو سے زائد ہوچکے ہیں۔ ایسے میں بادام پستے، کاجو، اخروٹ، چلغوزے وغیرہ کھانے سے زندگی کے کتنے معاملات ادھورے رہ جائیںگے اِس کا اندازہ لگانے کے لیے آپ کا آئن اسٹائن ہونا لازم نہیں! 
کھانے پینے کے معاملات میں اگر آپ ماہرین کے مشوروں پر عمل کرنے کی راہ پر گامزن رہے تو کچھ بعید نہیں کہ یہ مشورے ہی آپ کو کھا جائیں!

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں