"MIK" (space) message & send to 7575

وہی کرو جو کیرل نے کیا

سفر کے ذرائع میں ریلوے کا انوکھا مقام ہے۔ ریلوے کی بوگی چلتے پھرتے گھر کے مانند ہوتی ہے۔ پندرہ بیس گھنٹے کے سفر میں بوگی گھر جیسی لگنے لگتی ہے۔ ایک روزہ سفر کو لوگ ہفتوں یاد رکھتے ہیں۔ اتنے لمبے سفر میں تین چار مرتبہ کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لوگ بوگی کے محض ایک حصے میں بیس بائیس گھنٹوں کے قیام کی بنیاد پر ایسا لطف پاتے ہیں کہ بوگی کا وہ حصہ اُنہیں گھر جیسا محسوس ہونے لگتا ہے۔
ریل کے سفر میں ایک مزا یہ بھی ہے کہ طرح طرح کے لوگوں سے ملاقات کا موقع ملتا ہے۔ مختلف زبانیں بولنے اور مختلف ثقافتی پس منظر رکھنے والے ملتے ہیں تو زمانے بھر کی باتیں ہوتی ہیں۔ اور دیکھا گیا ہے کہ ریل کے بارہ پندرہ گھنٹوں کے سفر میں پروان چڑھنے والی دوستی برسوں برقرار رہتی ہے۔
جنہیں ریل کے ذریعے بہت زیادہ سفر کرنا پڑتا ہے وہ بالآخر ریل کی بوگی سے ایسا بھرپور انس محسوس کرنے لگتے ہیں کہ سفر کیے بغیر اُنہیں قرار نہیں آتا۔ کبھی کبھی یہ انس شدید جذباتی وابستگی کا معاملہ ٹھہرتا ہے۔ ایسے میں لوگ ریل کی بوگی اور ریلوے اسٹیشن کو اپنی زندگی کا ایسا حصہ سمجھنے لگتے ہیں جسے آسانی سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔
امریکا میں 45 سالہ کیرل کا یہی کیس ہے۔ وہ کم و بیش 36 سال سے ریل کے ذریعے سفر کر رہی ہے۔ اتنی طویل رفاقت نے اُس کے دل میں ریل کی بوگیوں اور ریلوے اسٹیشن کے لیے ایسا اُنس پیدا کردیا ہے وہ اِن کے بغیر زندگی بسر کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ ریلوے سے اپنے رشتے کو کیرل نے ایک ایسی شکل دی ہے جس کے بارے میں سُن کر آپ بھی حیران رہ جائیں گے۔ سانتا فے ریلوے اسٹیشن سے اُس کا تعلق تین عشروں پر محیط ہے۔ اِس طویل تعلق کو اُس نے باضابطہ رشتے کی شکل دے دی ہے۔ جی ہاں، کیرل نے سانتا فے ریلوے اسٹیشن سے شادی کرلی ہے!
شادی اور ریلوے اسٹیشن سے؟ یہ کوئی ایسی بات نہیں جو آسانی سے ہضم ہوسکے مگر کیا کیجیے کہ کیرل نے ایسا ہی کیا ہے۔ وہ سانتا فے ریلوے اسٹیشن کی محبت میں ایسی گرفتار ہوئی کہ جذبات اور حواس پر قابو نہ رہا اور اس جذباتی وابستگی کو اُس نے رشتے میں تبدیل کرلیا۔ ؎
اب آگے جو بھی ہو انجام، دیکھا جائے گا
خدا تراش لیا اور بندگی کر لی!
ہمارے ذہن یہ تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر نہیں کر رہے کہ ریلوے اسٹیشن سے بھی محبت اور شادی کی جاسکتی ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ جب ہم ایسی کوئی بات سنتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں اپنے ریلوے اسٹیشن اور اپنی بوگیاں ابھرتی ہیں! اگر آپ ایک بار کسی ترقی یافتہ ملک جاکر وہاں ریل کا سفر کرلیں تو کیرل کا جذبات سے مغلوب ہو جانا آپ کی سمجھ میں آجائے گا۔ ریلوے کے محکمے کا جو اعلٰی معیار ہمیں تمام ترقی یافتہ اور چند ترقی پذیر ممالک میں دکھائی دیتا ہے اُسے دیکھتے ہوئے لوگوں کا غیر معمولی جذباتیت سے مغلوب ہو جانا نہ صرف یہ کہ حیرت انگیز نہیں لگتا بلکہ قرینِ عقل معلوم ہوتا ہے!
آب آئیے اپنی ریل اور ریلوے اسٹیشنز کی طرف۔ ایک زمانہ تھا کہ گل سڑ جانے والی بوگیوں کو کھڈے لائن لگادیا جاتا تھا۔ اب خیر سے اِس اہتمام کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ ریلوے کے پورے شعبے یا محکمے ہی کو کھڈے لائن لگایا جاچکا ہے!
ایک کیرل ہے کہ جس نے 36 سالہ وابستگی کو شادی کے بندھن میں تبدیل کرکے دنیا کو حیران کردیا اور یہاں یہ حال ہے کہ اگر کوئی اتنی طویل مدت تک ریلوے سے سفر کرنے پر مجبور ہو تو شادی رہی ایک طرف، وہ طلاق کے قابل بھی نہ رہے گا!
دنیا بھر میں ریلوے کو یومیہ سفر کے اہم ذریعے میں تبدیل کرلیا گیا ہے۔ ممبئی اور دہلی جیسے شہر ہم سے زیادہ دور نہیں۔ وہاں بھی ریلوے کو ماس ٹرانزٹ سسٹم میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ حاصل ہے۔ روزانہ لاکھوں افراد لوکل ٹرینوں کے ذریعے کام پر جاتے ہیں اور گھر واپس آتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں سڑکوں پر دباؤ کو قابو میں رکھنا ممکن ہوسکا ہے۔ ہمارے ہاں اب تک اس طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ کراچی میں سرکلر ریلوے سے بڑھ کر کیا مثال ہوسکتی ہے؟ روٹ اور ٹریک مارکنگ موجود ہے۔ اب صرف نئے ٹریک ڈالنے ہیں۔ مگر یہ کام نہیں ہو پارہا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ ٹرانسپورٹ مافیا ماس ٹرانزٹ سسٹم کے اِس حصے کو کسی طور بحال نہیں ہونے دے رہی۔
بھارت اور خطے کے دوسرے بہت سے ممالک میں مرکزی ریلوے ٹریک سے اپ اینڈ ڈاؤن سروس بھی لی جارہی ہے یعنی قریب کے شہروں میں کام کرنے والے ریل کے ذریعے یومیہ سفر کرتے ہیں۔ مثلاً ریلوے کی عمدہ کارکردگی کی بدولت سوا سو، ڈیڑھ سو کلو میٹر سے بھی زیادہ سفر کرکے روزانہ ہزاروں افراد کام پر دہلی جاتے ہیں۔ یہی حال ممبئی کا بھی ہے۔ لوگ پونا تک سے روزانہ ممبئی آتے ہیں۔ اگر ہمارا ریلوے سسٹم وہاں ہو تو آئے دن ہزاروں کی نوکریاں جاتی رہیں!
کیرل نے تو اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے سانتا فے ریلوے اسٹیشن سے شادی رچالی۔ ہمارے حکمرانوں کو اب تک خیال نہیں آیا کہ ریلوے کے ذریعے پورے ملک کو بہت آسانی سے ایک لڑی میں پرونا انتہائی آسان ہے۔ اگر ریلوے کا محکمہ یا وزارت فعال ہو تو تجارتی اموال کی ترسیل بھی ایک آسان مرحلے میں تبدیل ہوجائے۔ جتنی محبت کیرل نے ایک ریلوے اسٹیشن کے لیے دکھائی ہے اُتنی ہی اور ویسی ہی محبت ہمارے حکمرانوں کو بھی ریلوے سسٹم کے لیے دکھانا پڑے گی۔ ریلوے سے بلا جواز ناراضی دور کرنے اُنہیں اِس اہم ذریعۂ آمد و رفت کو گلے لگانا پڑے گا، اپنا بنانا پڑے گا۔ اِس راہ میں مصلحتیں بھی آئیں تو آتی رہیں، انہیں گھاس نہیں ڈالنی۔ کرنا وہی ہے جو کیرل نے کیا۔ کیا اُس نے سوچا کہ ایک ریلوے اسٹیشن سے شادی کرنے پر لوگ کیا کہیں گے؟ معاشرے کی چنداں پروا نہ کرتے ہوئے اُس نے وہی کیا جو اُس کے دل نے کہا۔ وقت آگیا ہے کہ ہماری ریاستی مشینری اپنے دل میں ریلوے کے لیے بھرپور محبت محسوس کرے اور اِس کی ابتری دور کرنے پر کمر بستہ ہو۔ ملک بھر میں لاکھوں افراد کو سفر کے اچھے اور سستے ذریعے کی تلاش ہے۔ اگر ریلوے اسٹیشنز معقول دکھائی دیں گے تو ہمارے ہاں بھی لوگ ان سے شادی بھلے ہی نہ کریں، دوستی کرنے میں تو یقیناً کوئی قباحت محسوس نہیں کریں گے۔
کیرل نے سانتا فے ریلوے اسٹیشن سے شادی کرکے دراصل یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر شہر یا ملک کا بنیادی ڈھانچا شاندار ہو تو اُس سے مثالی انداز کی محبت بھی کی جاسکتی ہے اور شادی جیسے مقدس رشتے کو بیچ میں لاکر دوسروں کو بھی ریاستی مشینری کی فراہم کردہ اعلٰی بنیادی سہولتوں اور اُن کے ڈھانچے سے محبت کی تحریک دی جاسکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں