ہم نے جب بھی ماہرین اور محققین کے حوالے سے کچھ لکھنے کی کوشش کی ہے ایک نکتہ ضرور اپنے قارئین کے کے سامنے رکھا ہے ... یہ کہ وہ منیرؔ نیازی کے کچھ زیادہ ہی نیاز مند واقع ہوئے ہیں۔ عرض یہ کرنا ہے کہ ماہرین اور محققین عام طور پر کوئی پامال موضوع ہی منتخب کرتے ہیں اور جدید ترین طریق سے کی جانے والی تحقیق کا سہارا لے کر بھرپور اعتماد کے ساتھ وہ بات بیان کرتے ہیں جو پوری دنیا پہلے ہی جان چکی ہوتی ہے۔ یعنی کہ منیرؔ نیازی کے نقوشِ قدم پر چل کر ''ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں‘‘ کا مصداق ثابت ہوتے ہوئے ماہرین کی ٹرین دیر سے آتی ہے۔ جس بات کو ساری دنیا اچھی طرح جان چکی ہو اُسے ماہرین ایسے بھولپن سے بیان کرتے ہیں جیسے اُس بات نے ابھی ابھی جنم لیا ہو اور ستم بالائے ستم یہ کہ نشاندہی کیے جانے پر ماہرین و محققین اپنی بات کا دفاع اِس قدر پُراعتماد ڈھٹائی سے کرتے ہیں کہ معترضین اپنے سے منہ لے کر رہ جاتے ہیں!
امریکا میں کم و بیش ایک سال سے ایک عجیب ہنگامہ برپا ہے۔ ''ٹاپ ٹو باٹم‘‘ سبھی حیران و پریشان ہیں کہ ہم نے یہ کیا تو کیوں کیا اور اگر خود بخود ہوا ہے تو کیونکر ہوا ہے۔ امریکی معاشرہ بہت سے معاملات میں الل ٹپ واقع ہوا ہے۔ وہاں کے بیشتر معاملات میں معقولیت تلاش کرنے نکلیے تو سِرا ہاتھ آتا نہیں۔ اور ہاتھ تو تب آئے جب کسی سِرے کا وجود ہو! اس وقت امریکی جس نامعقولیت سے دوچار، بلکہ متصادم ہیں وہ ہے ڈونلڈ ٹرمپ کا صدر کی مسند پر متمکن ہونا۔ 20 جنوری 2017 سے اب تک کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا یعنی ڈونلڈ ٹرمپ نے ایوانِ صدر تک جست کیسے لگالی۔ اور یہ بھی سمجھ میں نہیں آرہا کہ امریکی ایوانِ صدر پر اُن کے متصرّف ہونے پر صبر کے گھونٹ پیے جائیں یا ضمیر کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے عملی سطح پر کچھ کیا جائے!
ہم نے ماہرین و محققین کی ''تاخیر پسندی‘‘ کا ذکر اِس لیے کیا کہ اُنہوں نے ایک بار پھر ٹرین مِس کردی ہے۔ جو بات صرف امریکا میں نہیں بلکہ باقی دنیا میں بھی عوام و خواص کی اکثریت اچھی طرح جانتی ہے اُس کے لیے کم و بیش فتوے کا انداز اختیار کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا گیا ہے۔ امریکا میں یہ بیان 27 سرکردہ ماہرینِ نفسیات نے جاری کیا ہے۔ بیان میں انتہائی ٹھوس انداز سے یہ ''حقیقت‘‘ طشت از بام کی گئی ہے کہ صدر ٹرمپ ذہنی مریض ہیں!
لو، کرلو بات۔ ع
کون ہے جس نے مے نہیں چکّھی؟
کون جھوٹی قسم اٹھاتا ہے؟
اب کون ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کو ذہنی مریض سمجھنے کے معاملے میں کسی بھی سطح کے تذبذب کا شکار ہے؟ یہ تو ایسا معاملہ ہے جس میں سبھی شرحِ صدر کی منزل میں ہیں۔ سبھی جانتے ہیں ؎
ناوک نے تیرے صَید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں
امریکا میں سال بھر سے سوشل میڈیا پر صدر ٹرمپ کے حوالے سے اتنا کچھ پوسٹ کیا جارہا ہے کہ اب اُن کی شخصیت ایک باضابطہ موضوع میں تبدیل ہوچکی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ٹرمپ کا کیس ''اے بُل اِن دی چائنا شاپ‘‘ والا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ وہ ایک ایسے مست ہاتھی کے مانند ہیں جو کسی بڑے گھر میں گُھس آیا ہو اور سب کچھ تہس نہس کرنے پر تُلا ہو! کسی کے خیال میں ٹرمپ کا امریکی صدر کے منصب پر فائز ہونا قربِ قیامت کی نشانیوں میں سے سمجھا جانا چاہیے! کچھ لوگ یہ ثابت کرنے پر کمر بستہ ہیں کہ امریکا اور باقی دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ٹرمپ ہیں۔
نفسیاتی امور کے ماہرین نے دن رات ایک کرکے ڈونلڈ ٹرمپ کو موضوع میں تبدیل کرلیا ہے۔ ان پر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں اور دوسری بہت سی تیاری کے مراحل میں ہیں۔ ییل یونیورسٹی کی لا اینڈ سائیکیاٹری ڈویژن میں اسسٹنٹ کلینیکل پروفیسر بینڈی ایکس لی نے ''ڈیوٹی ٹو وارن‘‘ کے ورکنگ ٹائٹل کے ساتھ ٹرمپ پر کتاب لکھی ہے۔ بینڈی لی یہ سمجھتی ہیں کہ ٹرمپ کے بارے میں امریکا اور باقی دنیا کو بتانا اُن کے لیے فرض کا درجہ رکھتا ہے! بینڈی لی ماہرین نفسیات کے اُس گروپ سے تعلق رکھتی ہیں جو ساری توجہ ڈونلڈ ٹرمپ پر مرکوز کیے ہوئے ہے اور اُن کی طرزِ فکر و عمل پر ہمہ وقت تحقیق کو اپنے آپ پر فرض گردانتا ہے۔
اسرار الحق مجازؔ نے کہا تھا ؎
آپ کی مخمور آنکھوں کی قسم
میری مے خواری ابھی تک راز ہے!
ٹرمپ کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ سب کچھ اتنا واضح ہے کہ کسی بھی نکتے کو کھل کر اور کھول کر بیان کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ امریکا کے 27 سرکردہ سائیکیاٹرسٹ اور مینٹل ہیلتھ ایکسپرٹس نے مل کر امریکی صدر کے ذہن کو پڑھنے کی کوشش کی ہے اور اپنی آراء کو ''دی ڈینجرس کیس آف ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ کے عنوان سے شائع کی جانے والی کتاب میں سمویا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اب تک امریکی سیاست اور ریاستی امور کے امور کے معاملے میں جو رویہ اختیار کیا ہے اُس کا تجزیہ کرنے بیٹھیے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ''دی ٹرمپ فیکٹر‘‘ کو اب ایک الگ اور باضابطہ موضوعِ بحث کا درجہ حاصل ہونا ہی چاہیے۔ ہم تو اپنی سادہ لوحی کے پنجرے میں قید رہتے ہیں اور سمجھ میں نہ آنے والے کسی بھی معاملے کو الل ٹپ یا اوٹ پٹانگ قرار دینے میں دیر نہیں لگاتے مگر حق یہ ہے کہ ٹرمپ نے ہمیں بتایا اور سمجھایا ہے کہ الل ٹپ حرکتیں ہوتی کیا ہیں۔ اب ہمیں کسی بھی معاملے کو الل ٹپ قرار دیتے وقت ٹرمپ کے طے اور عطا کردہ ''معیار‘‘ کو ذہن نشین رکھنا ہوگا!
معاملہ صرف یہ نہیں ہے کہ ماہرین کی نظر میں ڈونلڈ ٹرمپ ذہنی مریض ہیں بلکہ اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر خود ماہرین میں بھی اختلافِ آراء پایا جاتا ہے۔ وائٹ ہاؤس ایک سال سے صدر ٹرمپ کے کرتوتوں کی زد میں رہا ہے۔ ابھی ماہرین اُن کی کسی حرکت کا تجزیہ کر ہی رہے ہوتے ہیں کہ وہ کچھ اور ایسا کر گزرتے ہیں کہ ماہرین کو سب کچھ سمیٹ کر نئے سِرے سے غور و فکر کے دریا میں ڈبکیاں لگانے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ ماہرین کسی معاملے کا تجزیہ کرکے فارغ ہوتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی اہم پوائنٹ بہت بُری طرح مِس ہوگیا ہے۔ اور پھر وہ (اپنے) سَر پیٹنے لگتے ہیں۔ ؎
یوں سمجھنے کو تو سب کچھ این و آں سمجھا تھا میں
جو سمجھنا چاہیے تھا وہ کہاں سمجھا تھا میں!
امریکا اور باقی دنیا کے ماہرین نفسیات اور تجزیہ نگار و تجزیہ کار خاطر جمع اور حوصلہ بلند رکھیں۔ صدر ٹرمپ کی ''عنایاتِ بے جا‘‘ کا محض ایک سال پورا ہونے کو ہے۔ مینڈیٹ کے تین سال ابھی باقی ہیں۔ گویا ع
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
ایسی کیفیت یا کیفیات کے لیے ہمارے استاد شعراء تمام جزئیات کے ساتھ بہت کچھ کہہ گئے ہیں۔ حسرتؔ موہانی نے کہا تھا ؎
اب دیکھیے کیا حال ہمارا ہو سَحر تک
بھڑکی ہوئی اِک آگ سی ہے دِل سے جگر تک
اِس شعر میں تو پھر بھی کچھ نہ کچھ اُمید جھلکتی ہے۔ غالبؔ نے شدید مایوسی ظاہر کرتے ہوئے بات ہی ختم کردی ؎
آہ کو چاہیے اِک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تِری زلف کے سَر ہونے تک