سب سے مشکل کام کیا ہے؟ ہر انسان اس سوال کا جواب اپنے طور پر دینا چاہے گا۔ اور دینا بھی چاہیے۔ جو کام ہمارے، آپ کے لیے بہت مشکل ہو وہ کسی کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل بھی ہو سکتا ہے۔ اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جو کام ہمارے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو‘ وہ کسی کے لیے ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرنے جیسا ہو۔
ہمارے نزدیک سب سے مشکل کام یا مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے: حواس کو قابو میں رکھنا۔ جس نے حواس کے معاملے میں میدان مار لیا اُس کے لیے بہت سے مراحل آسان ہو جاتے ہیں۔ اور جو اس مرحلے میں چلا ہوا کارتوس ثابت ہوا، بس یہ سمجھ لیجیے کہ اس نے اپنی تباہی کا سامان کر لیا۔ غالبؔ نے کہا تھا ع
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
انسان جب حواس پر قابو پانے میں ناکام رہے تو ہوس کا غلام ہو جاتا ہے۔ اور ہوس کا غلام ہو جانے کے بعد وہ ہر خواہش کے در پر سجدہ ریز دکھائی دیتا ہے۔ انسان اگر ہوس کے شکنجے میں پھنس جائے تو کسی اور کا تو کیا، اپنا بھی نہیں رہتا۔ چھوٹی چھوٹی خواہشات بھی پورے وجود سے کِھلواڑ کرنے لگتی ہیں۔
1985ء سے 1990ء کے دوران کراچی سمیت ملک بھر میں ''سرمایا کار‘‘ ادارے اچانک، مشروم کی طرح، اگ آئے تھے۔ انسان مزاجاً سہل پسند واقع ہوا ہے۔ لوگ ہاتھ پیر ہلائے بغیر بہت کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کائنات کے اصول کچھ اور ہیں مگر ہوس کے بچھائے ہوئے دام میں پھنسنے کے بعد انسان کو کائنات کے تو کیا، اپنے اصول بھی یاد نہیں رہتے! صرف ایک بات یاد رہتی ہے... پیتل کو سونے میں تبدیل کرنے کی خواہش۔ ایسے میں کیا ہوتا ہے؟ صرف تباہی اور بربادی۔ اور تب یعنی تین عشرے قبل سوچے سمجھے بغیر مختلف اداروں میں سرمایا لگانے والوں کا بھی ایسا ہی انجام ہوا۔ ایک ادارے نے لوگوں کو ایک لاکھ روپے کی سرمایا کاری پر ہر ماہ سات ہزار روپے منافع دینے کا اعلان کیا۔ لوگوں نے قطار بند ہوکر جمع پونجی لگا دی۔ کسی نے نہ سوچا کہ محض ایک لاکھ روپے پر سات ہزار روپے ماہانہ یعنی سالانہ 84 فیصد منافع کوئی کیسے دے سکتا ہے۔ ایسے اداروں کا عام طریقِ واردات یہ ہے کہ چار سے آٹھ ماہ تک باقاعدگی سے ''منافع‘‘ دیتے رہتے ہیں۔ اور سیدھی سی بات ہے کہ یہ منافع لوگوں کی لگائی ہوئی رقوم ہی میں سے دیا جاتا ہے۔ یعنی میاں کی جُوتی میاں کے سَر! ہر ماہ باقاعدگی سے ''منافع‘‘ کی ''آمد‘‘ دیکھ کر دوسروں کو بھی ''تحریک‘‘ ملتی ہے اور وہ اثاثے بیچ کر بھی سرمایا کاری پر تُل جاتے ہیں۔ ایسے عالم میں جو اُنہیں سمجھائے وہ بے وقوف کہلائے۔
عام آدمی ہوس کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایسا کرے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ ہم نے تو انتہائی تعلیم یافتہ افراد (انجینئرز، کالجز کے اساتذہ اور اکاؤنٹنٹس وغیرہ) کو بھی اس مایا جال، بلکہ سرمایا جال میں میں پھنستے دیکھا۔ اور پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ بعض ادارے بھاگ گئے۔ بعض نے کاروبار میں نقصان کا رونا روتے ہوئے منافع ادا کرنا بند کر دیا۔ لوگوں کے کروڑوں روپے پھنس گئے۔ ہوس کی کار فرمائی ایسی تھی کہ بعض افراد نے مکان بیچ کر بھی سرمایا لگایا تھا! زندگی بھر کی کمائی ہوس کے نالے میں بہہ گئی۔
لالچ کو موت نہیں آتی۔ شکل بدل بدل کر منظرِ عام پر آنا اِس کا مزاج ہے۔ سرمایا کار ادارے بیسویں صدی کے اواخر کا نمونہ تھے۔ اکیسویں صدی میں لالچ نے شکل تبدیل کر لی اور ''چائنا کٹنگ‘‘ بن کر جلوے بکھیرے۔
سرکاری زمین ڈکار جانا ہمارے ہاں اس قدر عام ہے کہ اب تو اسے فیشن کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔ بعض طبقات میں عیاشی تفاخر کا ذریعہ ہے۔ اِسی طور اب سرکاری زمین ہڑپ کر لینا بھی تفاخر کی علامت سا بن گیا ہے۔ جو کسی کا اور خاص طور پر سرکار کا مال ببانگِ دہل ہڑپ کر جائے اُسے لوگ جھک کر سلام کرتے ہیں۔
کراچی میں کم و بیش دو عشروں تک سرکاری زمین کسی نہ کسی بہانے سے یا کسی نہ کسی شکل میں ڈکار جانا اس قدر عام رہا کہ کوئی حیرت کا اظہار کرتا تھا نہ تاسّف کا۔ گویا یہ روشِ زندگی یا طرزِ زندگی کا لازمی جُز ہو! جس کا بس چلا اُس نے سرکاری زمین پر بڑے قطعات گھیرے، پلاٹس کی شکل دی اور بیچ ڈالے۔ ایسے ہزاروں افراد نے یہ پلاٹس خریدے جو اپنے سَروں پر کسی نہ کسی طور اپنی چھت دیکھنے کی آرزو میں مرے جا رہے تھے۔ بات پھر وہی آ گئی کہ ہوس کی غلامی اختیار کرنے کے بعد انسان حواس پر قابو پانے میں یکسر ناکام رہتا ہے۔ کوئی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ کرتا تھا کہ مارکیٹ ویلیو کے مقابلے میں نمایاں حد تک معمولی قیمت پر ملنے والے یہ پلاٹس قانونی کیسے ہو سکتے ہیں۔ یا پھر یہ کہ حقیقت کا اندازہ تو تھا مگر لالچ کے ہاتھوں جُوا کھیلنا مناسب جانا گیا کہ شاید لاٹری نکل آئے اور کوڑیوں کے دام ملنے والا پلاٹ قانونی شکل اختیار کرکے بہت کچھ دے جائے!
جن لوگوں نے ایک مدت تک کرائے کے مکانوں میں زندگی گزاری ہو یعنی کرائے کا عذاب بھگت بھگت کر جینے سے عاجز آ گئے ہوں‘ وہ اگر اپنے سَروں پر اپنی چھت کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنے نکلیں تو بات کچھ سمجھ میں آتی ہے۔ چائنا کٹنگ نے زور پکڑا تو یاروں نے اپنے اچھے خاصے مکانات بیچ کر بھی سستے پلاٹس خریدے! ثابت ہوا کہ لالچ کی کوئی حد ہوتی ہے نہ حساب۔ نیت یہ تھی کہ ذرا زیادہ قیمت ملے گی تو بیچ دیں گے۔ ایسا بے عقل تو کوئی بھی نہیں ہوتا معاملات کی اصلیت نہ جانتا ہو۔ کسی مصلحت یا پھر لالچ کے باعث دیکھے کو ان دیکھا کر دینا اور بات ہے۔ ذرا سوچیے! اپنی جائز چھت بیچ کر ناجائز پلاٹس کی خریداری! اِسے عاقبت نا اندیشی کی انتہا نہ کہیے تو اور کیا کہیے؟ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں نے ایسا کیا۔ اور ایسا نہیں ہے کہ کوئی سمجھانے والا نہ تھا۔ مگر ؎
لوگ سمجھاتے رہ گئے دل کو
ہوش جاتے رہے تو ہوش آیا!
اب کراچی بھر میں سرکاری زمینوں پر سے قبضے ختم کرانے کی مہم تیز تر ہوئی جاتی ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق چائنا کٹنگ کے پلاٹس پر بسے ہوئے گھرانوں کی تعداد پچیس ہزار تک ہے۔ اور ان میں سے ہزاروں سڑک پر آ چکے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر خرم شیر زمان نے چائنا کٹنگ کے متاثرین کو معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ خریدے جانے والے پلاٹس سراسر غیر قانونی تھے اِس لیے کسی عدالت سے رجوع کرنا بھی ممکن نہیں۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیے‘ متاثرین جن سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ اس معاملے پر آواز اٹھائیں گے اُنہی نے تو یہ ''رونق میلہ‘‘ لگایا تھا! ستم بالائے ستم یہ کہ جن کے ہاتھوں چائنا کٹنگ واقع ہوئی تھی‘ اُنہی کو ڈیمولیشن آپریشن اور اُس کی نگرانی کی ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے! یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی کسی کی اچھی خاصی چلتی ہوئی ملازمت ختم کرا کے اُسے اپنے ادارے میں لائے، اپائنٹ منٹ لیٹر دلائے اور پھر کچھ مدت کے بعد ٹرمِنیشن لیٹر بھی تھما دے! گویا ؎
ہمیں نے بے وفائی کی، ہمیں نے یہ دعا مانگی
ہماری بے وفائی کا نہ تم کو اعتبار آئے!