سندھ بھر میں تعلیم کا جو حال ہے وہ ہرگز ایسا ڈھکا چھپا نہیں کہ کسی کو دکھائی نہ دے اور دکھائی دے تو سمجھ میں نہ آسکے۔ سرکاری شعبے میں تدریس کا معیار ایسا گیا گزرا ہے کہ اب تو اس عمل کو تدریس کہتے بھی شرم سی محسوس ہوتی ہے۔ وہ زمانہ کب کا جاچکا جب سرکاری اسکولز کے اساتذہ نئی نسل میں اعلیٰ تعلیم کی بنیاد ڈالتے تھے، بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے علم کو اپنا سب سے بڑا سہارا بنانے کی تحریک دیا کرتے تھے۔ ایک دور تھا کہ کراچی میں اسکولز کے سرکاری اساتذہ اپنی ذمہ داری سے بڑھ کر پڑھانے اور بالخصوص امتحانات کی تیاری کرانے کو فرض کے مساوی گردانتے تھے۔ امتحانات کے زمانے میں معاملہ یہ ہوتا تھا کہ اسکول سے چھٹی کے بعد طلباء شام کے اوقات میں اساتذہ کے گھر جاتے تھے اور وہ دو ڈھائی گھنٹے تک الگ سے، اضافی تیاری کراتے تھے تاکہ امتحان کی گھڑی میں کوئی الجھن ذہن کو نہ گھیرے۔ اور اس اضافی تدریس و امتحانی تیاری کا وہ کوئی معاوضہ بھی وصول نہیں کرتے تھے۔ پورا کا پورا معاملہ نئی نسل کو سیدھی راہ پر گامزن ہونے میں دلچسپی لینے کی تحریک دینے کا تھا۔ اور قوم نے اس خلوص اور لگن کے نتیجے کا مشاہدہ بھی کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی تین عشروں کے دوران ہر شعبے میں انتہائی باکمال افراد ابھر کر سامنے آئے اور ایک دنیا سے اپنی صلاحیتوں اور محنت کا لوہا منوایا۔
وہ زمانہ تو گیا اور یقیناً کسی طور واپس بھی نہیں آنے کا۔ اب عالم یہ ہے کہ سرکاری اسکولز کو دیکھیے تو غالبؔ بے ساختہ یاد آ جاتے ہیں ؎
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
روزنامہ دنیا میں پنجاب کے شہر لیہ کے نواح میں واقع ایک اسکول سے متعلق خبر پڑھی تو انتہائی افسوس ہوا۔ خبر یہ ہے کہ 33 کنال پر بنے ہوئے سرکاری اسکول میں ایک استاد ہے اور ایک طالب علم۔ علاقے کے لوگوں نے یہ کہتے ہوئے اپنے بچوں کو اسکول سے نکال لیا ہے کہ جنہیں اساتذہ کے کھاتے میں بھرتی کیا گیا ہے وہ پڑھانا نہیں جانتے۔ یہ خبر پڑھ کر افسوس تو ہونا ہی تھا مگر زیادہ یا اضافی افسوس اس لیے ہوا کہ پنجاب میں تو سرکاری اسکولز کا معیار بلند کرنے پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ وہاں ایک اسکول اس حالت میں ہے کہ کوئی اس میں اپنے بچوں کی انرولمنٹ کرانے کو تیار نہیں؟ اور یہ کہ اسکول میں صرف ایک استاد متعین ہے!
غور کرنے پر بات کچھ کچھ سمجھ میں آئی۔ کرپشن تو خیر سے پورے ملک میں ہے۔ پنجاب بھی اِس سے مکمل طور پر آزاد و بے نیاز نہیں۔ ایسے میں سرکاری اسکولز کا بھی کرپشن کی زد میں آنا سمجھ میں آتا ہے۔ ہاں، پنجاب بھر میں سرکاری اسکولز کی مجموعی حالت دیکھتے ہوئے یہ خبر حیرت انگیز ہی محسوس ہونی چاہیے تھی‘ سو ہوئی۔ وسطی و بالائی پنجاب میں سرکاری اسکولز کے معاملات قدرے بہتر اور قابلِ ذکر تک اطمینان بخش ہیں۔ بچے پڑھائی میں اُسی وقت دلچسپی لیتے ہیں جب اساتذہ اُن میں علم کے حصول کی لگن پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری طرف والدین بھی اُنہیں علم کی راہ پر گامزن رکھنے کے لیے تگ و دَو کرتے ہیں۔ اساتذہ اور والدین بھرپور دلچسپی نہ لیں تو بچوں میں علم کے حصول کی سچّی بمشکل پیدا ہو پاتی ہے۔ یہ عمل مستقل تحریک کا متقاضی ہوتا ہے۔
سندھ کے بیشتر سرکاری اسکولز کا حال خاصی شدت کے ساتھ ناگفتہ بہ ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اِن اسکولز کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ناگفتہ بہ کسے کہتے ہیں! سندھ میں ایسے اسکول عام ہیں جو ع
ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے
کی عملی تصویر ہیں۔ یعنی یہ اسکول کاغذات پر تو ہیں، عملاً کہیں باضابطہ وجود نہیں رکھتے۔ ایسے تمام اسکولز عرفِ عام میں ''گھوسٹ اسکولز‘‘ کہلاتے ہیں۔ گھوسٹ یعنی بھوت اس لیے کہ یہ دکھائی نہیں دیتے۔ تلخ تر حقیقت یہ ہے کہ ''نان گھوسٹ‘‘ یعنی باضابطہ وجود رکھنے والے اسکولز بھی دکھائی ضرور دیتے ہیں مگر عملی سطح پر اُن کا کوئی وجود نہیں! اسکولز تعلیم و تدریس کے لیے ہوتے ہیں۔ اگر اُن میں یہی ایک کام نہ ہو رہا ہو تو پھر اُن کے ہونے نہ ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ؎
جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
تم بادِ صبا کہلاؤ تو کیا!
سندھ کے دیہی علاقوں میں سرکاری اسکولز تعلیم دینے کے اداروں سے زیادہ تماشا گاہ نظر آتے ہیں۔ اسکولز کے نام پر قائم کی جانے والی چار دیواری میں زمانے بھر کے تماشے جلوہ فرما دکھائی دیتے ہیں، اور اگر نہیں دکھائی دیتی تو ایک بس تعلیم! چراغ لے کر چاند سی بہو تلاش کرنے کا زمانہ تو اب نہیں رہا، ہاں چراغ لے کر تعلیم کو تلاش کرنے کا مرحلہ ضرور درپیش ہے۔
اندرون سندھ بہت سے سرکاری اسکولز مختلف سرگرمیوں کے مراکز، بلکہ آماجگاہ دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں کوئی با اثر وڈیرا کسی اسکول کی عمارت کو نئی ''لُک‘‘ دینے کی غرض سے اپنی ذاتی اوطاق میں تبدیل کرلیتا ہے۔ ایسے میں تعلیم ایک طرف رہ جاتی ہے اور دنیا بھر کے موضوعات پر گرما گرم بحث کے ذریعے اسکول کی عمارت کو ''علمی تازگی‘‘ عطا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے! خیر، یہ بھی کچھ زیادہ خسارے کا سودا نہیں کیونکہ کرنٹ افیئرز پر بحث کی روایت کو پروان چڑھاکر ان اوطاقوں سے ملکی میڈیا کو درکار تازہ دم تجزیہ کار اور اینکرز میسر ہوسکتے ہیں!
پنجاب میں ایک طالب علم اور ایک استاد والا معاملہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ توازن برقرار ہے، معاملہ برابری کا ہے۔ سندھ میں ایسے سرکاری اسکول بھی پائے جاتے ہیں جن میں اساتذہ کی تعداد زیادہ ہے۔ ہم ایک ایسے سرکاری اسکول سے واقف ہیں جن میں اساتذہ تین ہیں اور طلباء صرف دو!
کسی اسکول میں بھینسیں بندھی ملتی ہیں تو کسی میں بکریاں۔ اور کسی میں گدھے ڈیرا ڈالے رہتے ہیں۔ کہیں نشے کے عادی افراد اجڑے ہوئے سرکاری اسکول کو ''آباد‘‘ کرنے کی نیت سے اپنے مسکن میں تبدیل کرلیتے ہیں! لوگ اِس عمل پر محض یہ سوچ کر زیادہ جُزبُز نہیں ہوتے کہ اچھا ہے اسکول کی خالی عمارت کو نشے کے عادی افراد آباد رکھیں کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت جنات اور بھوتوں کے قیام کا خدشہ پنپتا رہتا ہے۔ بزرگ کہتے ہیں خانۂ خالی را دیو می گیرد یعنی خالی مکان کو جن بھوت گھیر لیتے ہیں۔ اسکول کی عمارت بے مصرف پڑی رہے تو قومی وسائل ہی ضائع ہوں گے۔ اس میں علم نہ بس سکے تو لاعلمی کو ڈیرے ڈالنے سے روکنے کے لیے انسانوں کا قیام مستحسن ہے، خواہ وہ انسان نشے کے عادی ہی کیوں نہ ہوں!
تمسخر برطرف، کیا وقت نہیں آگیا کہ ہم تعلیم جیسی انتہائی بنیادی ضرورت کے حوالے سے سنجیدہ ہوں، غیرت کا مظاہرہ کریں اور آنے والی نسلوں کو تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے لیے بہتر انداز سے تیار کریں؟ ''ابھی نہیں یا کبھی نہیں‘‘ کے مرحلے میں ہم محض داخل نہیں ہوئے بلکہ گزر رہے ہیں۔ دنیا دوڑ رہی ہے اور ہم ابھی صرف سوچ رہے ہیں اور وہ بھی چہل قدمی کے بارے میں! ؎
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا