"MIK" (space) message & send to 7575

یہ ہے اللہ کی تدبیر

اہلِ اسلام و ایمان کئی بار ادوارِ ادبار سے گزرے ہیں۔ کوئی صدی ایسی نہیں گزری جب کہیں نہ کہیں سے کوئی بڑی ابتلاء اہلِ ایمان کے سَروں پر نہ آن پڑی ہو، زندگی اور موت کا مسئلہ اٹھ کھڑا نہ ہوا ہو۔ اسلام جس مزاج کا حامل ہے اُسے لوگ دین کی حیثیت سے یا دین کے لبادے میں قبول و برداشت کرنے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتے۔ دنیا بھر میں لوگ دینی تعلیم کو اپنانے کے نام پر محض رسوم (rituals) کو اپنانے پر بضد رہتے ہیں۔ اسلام محض رسوم کو دین کی اساس کی حیثیت سے تسلیم کرنے کے بجائے ایمان کی پختگی اور کردار کی بالیدگی پر زیادہ زور دیتا ہے۔ دنیا بھر میں لوگ مذہب کے نام پر محض اجتماعات منعقد کرنے اور دل بستگی کا سامان یقینی بنانے کے فراق میں رہتے ہیں۔ معاملات بالعموم ع 
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست 
کی منزل میں رہتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلام چاہتا ہے کہ انسان دین کے معاملے میں فیصلہ کن حد تک سنجیدہ ہو، اِس دنیا کو عارضی قیام گاہ سمجھے اور آخرت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ سوچے۔ آخرت میں جواب دہی کا تصور ذہن میں راسخ ہو تو انسان دُنیوی زندگی کو سب کچھ سمجھنے سے حذر کرتے ہوئے ہر وقت اپنے رب سے ملاقات کا تصور ذہن میں زندہ رکھتا ہے اور یہ تصور جس قدر زندہ و توانا ہوگا، آخرت کے لیے تیاری کرنے پر پورا وجود اُسی قدر آمادہ ہوگا۔ 
بعض مذاہب میں یوں بھی ہے کہ تقوٰی اختیار کرنے کے نام پر زندگی کا سارا رَس ہی نچوڑ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ ترکِ دنیا کو زندگی کے بنیادی مقصد کی حیثیت سے قبول کرنے پر انسان کے لیے جینے میں کوئی لطف باقی نہیں رہتا۔ اس معاملے میں بدھ اِزم اور جین مت والے بہت نمایاں ہیں۔ جین دھرم میں ترکِ دنیا بنیادی قدر ہے۔ اسلام ایسی کسی انتہا کو پسند نہیں کرتا۔ دُنیوی زندگی میں سبھی کو معاملات سے لطف اندوز ہونے کا بھی حق ہے مگر بنیادی شرط لہو و لعب سے گریز اور سنجیدگی کا اطلاق ہے۔ 
بات ہو رہی تھی اسلام کے مزاج کی۔ اسلام جو کچھ چاہتا ہے اُس کی بنیاد ہی پر دنیا بھر میں ہر معاملے میں مسلمانوں کے خلاف جانے کا بازار ہر وقت گرم رہتا ہے۔ اہلِ دنیا اِسی دنیا کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور اہلِ اسلام چاہتے ہیں کہ خود بھی آخرت کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ تیاری کریں اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی تحریک دیں۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ آسانی سے ہضم کرلی جائے۔ لہو و لعب میں تو مسلمان بھی مبتلا ہیں مگر اِس کے باوجود مجموعی طور پر کیفیت یہ ہے کہ غیر مسلمین میں سے بہت سے جب اہلِ اسلام کی زندگی کا عمومی رنگ اور مزاج دیکھتے ہیں تو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے اور دینِ حق کی طرف آتے ہیں۔ 
سب اپنی اپنی چالیں چلتے رہتے ہیں اور ظاہری کامیابیوں کے نشے میں چُور ہوکر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ حُجّت تمام ہوجانے پر جب اللہ جل شانہ‘ اپنی تدبیر بروئے کار لاتے ہیں تب دنیا پر حق واضح ہوکر غالب بھی آتا ہے۔ بھارت کی ریاست ہریانہ سے آبائی تعلق رکھنے والے محمد عامر کا معاملہ اِس حوالے سے ایک روشن مثال اور بَیّن دلیل کا درجہ رکھتا ہے۔ محمد عامر کی زندگی پر نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوگا کہ اسلام کے نزدیک کامیابی اور ناکامی کا مفہوم بالکل الگ ہے اور حق کے ظاہر و غالب ہونے کے پیمانے اور معیارات بالکل الگ ہیں۔ 
محمد عامر کسی زمانے میں بلبیر سنگھ تھے۔ ان کا تعلق پڑھے لکھے گھرانے سے تھا۔ انہوں نے تاریخ، انگریزی اور سیاسیات میں ایم اے کیا۔ اُن کے والد معلم تھے۔ اس گھرانے کا تعلق ہریانہ کے شہر پانی پت کے ایک نواحی گاؤں سے تھا۔ بہتر معاشی امکانات کی تلاش میں یہ گھرانہ نقلِ مکانی کرکے بھارت کے تجارتی دارالحکومت ممبئی چلا گیا تھا۔ ممبئی میں سکونت اختیار کرتے وقت بلبیر سنگھ پر شباب کی آمد آمد کا عالم تھا۔ انہوں نے بنیاد پرست و انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) میں شمولیت اختیار کی۔ اور پھر آں جہانی بال ٹھاکرے کی انتہا پسند تنظیم شیو سینا سے وابستہ ہوئے۔ 
دسمبر 1992 میں جب انتہا پسند ہندوؤں کے قافلے کیل کانٹوں سے لیس ہوکر ایودھیا (فیض آباد) میں واقع بابری مسجد کی طرف بڑھے تو بلبیر سنگھ بھی اُن کا حصہ بنے۔ بابری مسجد پر کدال چلانے والوں میں بلبیر سنگھ اور ان کے ساتھی بھی نمایاں تھے۔ مسجد کے شہادت کے بعد بلبیر سنگھ دو اینٹیں بھی یادگار کے طور پر ساتھ لے آئے۔ 
معاملہ بابری مسجد کی شہادت اور اس میں بلبیر سنگھ کے کردار پر ختم نہیں ہوگیا۔ گھر واپسی کے بعد بلبیر سنگھ کے ضمیر نے خلش محسوس کی کہ اُنہوں نے کوئی بہت ہی غلط کام کر ڈالا ہے۔ جب اُن کے والد کو معلوم ہوا کہ کہ بیٹا بابری مسجد کو شہید کرنے والوں میں شامل تھا تو اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے گھر کے دروازے بلبیر پر بند کردیئے کہ ایک معلم کا بیٹا ہوتے ہوئے اُنہوں نے یہ گندی حرکت کیوں کی۔ 
بلبیر کے دل و دماغ میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ بابری مسجد کی شہادت میں عملی کردار ادا کرنے پر اُنہیں اپنے آپ سے شرم محسوس ہونے لگی۔ دل بے چین رہنے لگا۔ ہر گزرتا ہوا لمحہ اُنہیں ضمیر کا قیدی بنا رہا تھا۔ پھر اُنہوں نے نفسیاتی امور کے ایک ماہر سے رابطہ کیا اور اُسے پوری بات بتائی تو اُس نے کہا کہ یہ بے چینی موت کا سبب بھی بن سکتی ہے! 
بلبیر سنگھ پر شدید مایوسی طاری ہوئی۔ ایسے میں اُنہوں نے اللہ کے حضور صدقِ دل سے توبہ کی، اپنے گناہِ عظیم پر معافی کے خواستگار ہوئے۔ اللہ نے ضمیر کی آواز پر اُن کا لبیک کہنا قبول کیا اور ایمان کی دولت سے نوازا۔ یُوں بلبیر سندھ انقلابِ ایمانی کے نتیجے میں محمد عامر ہوکر نئی اور، یقینی طور پر، بہترین راہ پر گامزن ہوئے۔ انہوں نے بابری مسجد کی شہادت میں حصہ لینے کا کفارہ ادا کرنے کی خاطر 100 مساجد تعمیر کرنے کا عزم کیا اور اب تک 20 مساجد کی تعمیر اور 13 کی تزئین نو کا شرف حاصل کرچکے ہیں۔ ان کا مشن ہے کہ ہر سال 6 دسمبر تک ایک مسجد تعمیر کی جائے اور ایک کو تزئین نو کے مرحلے سے گزارا جائے۔ یہی نہیں، عامر کی تحریک پر اُن کے 27 ساتھی (یعنی سابق انتہا پسند ہندو) اسلام کا دامنِ عافیت تھام چکے ہیں۔ 
علامہ اقبالؔ نے کہا تھا ؎ 
ہے عیاں یُورشِ تاتار کے افسانے سے 
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے 
یہ بات محمد عامر پر بھی صادق آتی ہے۔ کہاں تو ہندو اور وہ بھی انتہا پسند ... اور کہاں اسلام کے دامن سے وابستگی اور وہ بھی تعمیرِ مسجد کے عزمِ صمیم کے ساتھ! 
ایودھیا میں انتہا پسند ہندو تنظیم بجرنگ دل کے سابق لیڈر شیو پرساد کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ رہا۔ ضمیر کی خلش سے مجبور ہوکر شیو پرساد نے بھی توبہ کی اور ایمان کی دولت سے سرفراز ہوکر اب محمد مصطفی ہوچکے ہیں۔ 
اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں اُسے منتخب کرکے کام لیتے ہیں۔ جس ملک میں مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت کو پروان چڑھایا جارہا ہے وہیں انتہائی پختہ فکر کے حامل اور فعال ہندوؤں کا حلقہ بگوشِ اسلام ہونا اِس امر کی دلیل ہے کہ حق کا پیغام اپنے وجود کو تمام سختیوں اور جبر کے باوجود منواکر دم لیتا ہے۔ اس نوع کا قبولِ اسلام باقی مسلمانوں کے لیے ایک روشن مثال اور دلیل کے درجے میں ہے۔ ایک طرف دنیا بھر میں اسلام کے پیغام کو دبانے کے لیے مسلمانوں کو بدنام اور مطعون کیا جارہا ہے اور دوسری طرف اللہ کی تدبیر ملاحظہ فرمائیے کہ گھٹاٹوپ اندھیرے کے بطن سے امید و ہدایت کی کرن ابھار کر دکھاتے ہیں۔ تو کوئی ہے جو ہدایت پائے؟

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں