"MIK" (space) message & send to 7575

’’کہاں ہے تیری بارش؟‘‘

کراچی کے موسم کے بارے میں لوگوں نے پتا نہیں کیا کیا اڑا رکھا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ معاملہ اب ''بد اچھا، بدنام برا‘‘ کے مرحلے تک پہنچ چکا ہے۔ کراچی کے موسم کو اس قدر غیر یقینی بتایا جاتا رہا ہے کہ اس معاملے میں اردو شاعری کا روایتی محبوب ہی اُس کے مقابل کھڑا ہو سکتا ہے! 
''جگنو‘‘ میں نور جہاں نے محمد رفیع کے ساتھ ایک گانا گایا تھا جس میں ایک شعر یہ بھی تھا ؎ 
کبھی سکھ ہے، کبھی دکھ ہے، ابھی کیا تھا، ابھی کیا ہے 
یونہی دنیا بدلتی ہے اِسی کا نام دنیا ہے 
بس کچھ ایسا ہی معاملہ کراچی کے موسم کا بھی ہے۔ لوگ گھر سے شدید گرمی کا سوچ کر نکلتے ہیں اور منزل تک پہنچتے پہنچتے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے نہال ہوچکے ہوتے ہیں۔ اور واپسی پر بھی ایسی ہی ٹھنڈک متوقع ہوتی ہے مگر پسینے میں شرابور ہوتے ہوئے گھر میں داخل ہوتے ہیں! گویا ؎ 
مَے خانے میں زاہد سے کوئی چُوک ہوئی ہے
جانے کے قدم اور تھے، آنے کے قدم اور!
کراچی میں جو لوگ موسم کے حوالے سے اٹکل کے گھوڑے دوڑانے کا شوق رکھتے ہیں وہ اکثر ع
گِرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
کی جیتی جاگتی مثال بن کر رہ جاتے ہیں! ایک تو موسم کے مزاج کا تلوّن اور اُس پر پیش گوئی کی جسارت! یہ تو مرے کو مارے شاہ مدار والا معاملہ ہوا۔ ایک طرف موسم متحرّک رہتا ہے اور دوسری طرف محکمۂ موسمیات... اور اِن دونوں کے درمیان رسّا کشی کا نتیجہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کچھ کا کچھ ثابت ہونے کے معاملے میں کراچی کا موسم اور اُس کے بارے میں کی جانے والی پیش گوئیاں... دونوں ایک پیج پر براجمان ہیں! محکمۂ موسمیات کی فرضِ منصبی کے درجے میں کی جانے والی پیش گوئیوں پر بھروسہ کرنے والوں کو لوگوں نے اکثر ع 
غضب کیا تِرے وعدے پہ اعتبار کیا
گنگناتے ہوئے (اپنی) عقل کا پیار بھرا، ادبیت سے مُزیّن ماتم کرتے دیکھا ہے!
محکمۂ موسمیات کی بیشتر پیش گوئیاں عین موقع پر یوں دھوکا دے جاتی ہیں کہ لوگوں کے پاس دہائی دینے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچتا۔ ایسے مواقع پر میر تقی میرؔ یاد آئے بغیر نہیں رہتے ع 
کیا کروں گر نہ کروں چاک گریباں اپنا
کراچی کے چیف میٹرولوجسٹ عبدالرشید کا شِکوہ ہے کہ لوگ موسم سے متعلق پیش گوئی کو حرفِ آخر کے درجے میں رکھ کر دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔ روزنامہ دنیا سے خصوصی انٹرویو میں عبدالرشید نے دل کی باتیں کھل کر بیان کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے ''موسم کی پیش گوئی جدید ترین آلات کی مدد سے جمع کیے جانے والے ڈیٹا کو بنیاد بناکر کی جاتی ہے۔ پیش گوئی غلط بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر ہوا کا رخ تبدیل ہو جائے تو موسم بدل جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے یعنی ہوا بے وفائی کر جاتی ہے مگر بات کا بتنگڑ نہیں بنایا جاتا۔ ہمارے ہاں، معاملہ یہ ہے کہ پیش گوئی سے ہٹ کر کچھ ہو جائے تو یار لوگ ڈھول پیٹنا شروع کر دیتے ہیں‘‘۔
عبدالرشید صاحب کا شِکوہ کچھ ایسا بے جا بھی نہیں۔ غلطی کی تھوڑی بہت گنجائش تو ہونی ہی چاہیے۔ اکثر ایسا ہوا ہے کہ پیش گوئی اور اصل موسم ایک دوسرے کی بالکل مخالف سمت سفر کر رہے ہوتے ہیں۔
محکمۂ موسمیات کراچی کے ایک اعلیٰ افسر نے ایک بار آف دی ریکارڈ شِکوہ کیا تھا کہ موسم سے متعلق کسی پیش گوئی کے غلط ثابت ہونے یا مکمل طور پر درست ثابت نہ ہونے پر لوگ انتہائی ہتک آمیز رویہ اپناتے ہیں۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ایک بار کسی میڈیا آؤٹ لیٹ سے فون آیا اور جیسے ہی ریسور اٹھایا، دوسری طرف سے آواز آئی ''کہاں ہے تیری بارش؟‘‘
یہ تو انتہا ہو گئی۔ موسمیات کے ماہرین بھی انسان ہی ہوتے ہیں، اُن سے بھی غلطی سرزد ہو سکتی ہے۔ وہ جدید ترین آلات کی بنیاد پر جمع کیے جانے والے ڈیٹا ہی کی بنیاد پر کوئی رائے قائم کرتے ہیں۔ ایسے میں بات کچھ اِدھر اُدھر بھی ہو سکتی ہے۔ اب یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ پیش گوئی کو ناکام تو بنائے قدرت اور لوگ فون کرکے ''کہاں ہے تیری بارش؟‘‘ جیسے الفاظ میں طعن و تشنیع کے تیر برسائیں محکمۂ موسمیات پر! غلطی کی تھوڑی بہت گنجائش چھوڑتے ہوئے کچھ نہ کچھ رعایت تو دی جانی ہی چاہیے۔
بات صرف اتنی ہے کہ کراچی کا موسم ستم ظریف ہے۔ اور یہ ستم ظریفی بھی موسم کے مزاج میں پائی جانے والی کسی ٹیڑھ کا نتیجہ نہیں۔ قصہ یوں ہے کہ کراچی سمندر کے کنارے آباد ہے۔ سمندر رنگ بدلے نہ بدلے، موڈ تو بدلتا ہی رہتا ہے۔ سمندر کے مزاج میں پایا جانے والا تلوّن کراچی کے موسم پر اثر انداز نہ ہو یہ تو ممکن ہی نہیں۔ اتنی سی بات ہے اور بدنامی جھیلنا پڑتی ہے محکمۂ موسمیات کو۔ کوئی سمندر کے کنارے پہنچ کر اُسے للکارتے ہوئے نہیں پوچھتا کہ اوئے سمندرا! کیوں روک دی بارش!
کبھی کبھی کراچی کا موسم ایسا سماں بھی پیدا کر دیتا ہے کہ لوگ محکمۂ موسمیات کو دعائیں دیتے ہیں۔ دعائیں اس لیے کہ اُس نے کوئی پیش گوئی نہیں کی ہوئی ہوتی! یعنی سرپرائز کا مزا آ جاتا ہے۔ بقول غالبؔ ؎
نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں 
شکایت ہائے رنگیں کا گلہ کیا
محکمۂ موسمیات اور موسم کے درمیان چونکہ عام طور پر ''چھتیس کا آنکڑا‘‘ رہتا ہے اس لیے ہوتا یہ ہے کہ بارش کی پیش گوئی کی گئی ہو تو بادل چھٹ جاتے ہیں، تیز دھوپ نکل آتی ہے اور اگر تیز دھوپ کے حوالے سے انتباہ کیا گیا ہو تو گھنگھور گھٹا چھا جاتی ہے اور بے موسم کی بوندیں برس کر محکمۂ موسمیات کی کارکردگی پر پانی پھیر دیتی ہیں! ایسی ہی کیفیت کے حوالے سے خاقانیٔ ہند شیخ ابراہیم ذوقؔ نے کہا ہے ؎
ایک آنسو نے ڈبویا مجھ کو اُن کی بزم میں 
بوند بھر پانی سے ساری آبرو پانی ہوئی!
کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک دن کی بارش کو بنیاد بناکر محکمۂ موسمیات پیش گوئی کرتا ہے کہ ہفتہ بھر مطلع ابر آلود رہے گا اور پھر یوں ہوتا ہے کہ اگلے ہی دن سارے بادل دکان بڑھا جاتے ہیں! ع
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا!
انٹرویو میں عبدالرشید نے یہ بھی بتایا کہ موسم کے بارے میں پیش گوئی محض اپنے ملک یا چند علاقوں کا ڈیٹا جمع کرکے نہیں کی جا سکتی۔ ڈیٹا ہمسایا ممالک سے بھی شیئر کرنا پڑتا ہے۔ اِس سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ پیش گوئی غلط نکلنے یا ناکام ثابت ہونے پر محض اپنے محکمۂ موسمیات کو موردِ الزام ٹھہرانا درست نہیں، الزام تراشی کے دائرے کو وسعت دے کر پڑوسیوں کے متعلقہ حکام کو کو بھی مطعون و معتوب کیا جا سکتا ہے اور اُن کے گریبان تھام کر بھی ''کہاں ہے تیری بارش؟‘‘ کا نعرۂ مستانہ لگایا جا سکتا ہے! عبدالرشید صاحب کو ہم یہ مشورہ ضرور دیں گے کہ موسم کا ڈیٹا پڑوسیوں سے شیئر کرتے وقت محتاط رہا کریں۔ ع 
غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
محکمۂ موسمیات اور بالخصوص عبدالرشید صاحب سے ہم یہی کہنا چاہیں گے کہ جب سب کچھ اپنے کہے کے برعکس ہو رہا ہو تو وہی کرنا چاہیے جو مومن خاں مومنؔ نے کیا۔ مومنؔ نے طے کیا تھا ؎ 
مانگا کریں گے اب سے دعا ہجرِ یار کی 
آخر تو دشمنی ہے اثر کو دعا کے ساتھ!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں