محبت ہو یا نفرت، انتہا تو انتہا ہی ہوتی ہے۔ انسان جب کسی کو ٹوٹ کر چاہتا ہے تو اپنا آپ بھی بھول جاتا ہے اور جب نفرت کرنے پر آتا ہے تب بھی اپنے ہر مفاد کو بھول کر صرف اتنا یاد رکھتا ہے کہ جس سے نفرت ہے اُسے کسی نہ کسی طور مکمل بربادی اور تباہی سے دوچار کردیا جائے۔ یہ معاملہ محض آج کا یعنی اکیسویں صدی کا نہیں۔ ہر دور کا انسان ایسا ہی رہا ہے۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کو اپنوں سے یعنی انسانوں سے محبت نہیں مل پاتی۔ تب وہ دیگر مخلوق میں دلچسپی لینا شروع کردیتا ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ جو لوگ کتا، بلی، بکری، مرغی وغیرہ پالتے ہیں وہ خوش رہتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بے زبان جانور یہ بات انسانوں سے زیادہ اور بہتر طور پر جانتے ہیں کہ کسی کی محبت کا جواب محبت سے دینا چاہیے اور یوں ''جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلاؤ ہے‘‘ والی کیفیت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے!
جو لوگ جانور پالتے ہیں وہ محبت کے جواب میں ملنے والی محبت ہی کی بدولت دل کا سکون پاتے ہیں، خوش رہتے ہیں۔ محبت کا جواب محبت سے دینا حیوان کی جبلّت میں لکھ دیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں ایسی ہزاروں مثالیں بکھری ہوئی ہیں کہ گھر کے پلے ہوئے جانوروں نے محبت نبھانے میں جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اس معاملے میں انسان تو چند لمحات کے لیے تذبذب میں مبتلا ہو رہتا ہے، جانور سُود و زیاںکے پھیر میں نہیں پڑتے۔
جن حیوانات کے بارے میں ہماری عمومی رائے یہ ہے کہ اُنہیں اللہ نے عقل سے نہیں نوازا وہ بھی بعض مواقع پر اخلاص کا ایسا مظاہرہ کرتے ہیں کہ جنہیں اللہ توفیق دے وہ شرمندہ ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے۔ ایسا ہی ایک واقعہ دو ڈھائی ماہ قبل بھارت کی مشرقی ریاست مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکتہ میں رونما ہوا تھا جب ریلوے اسٹیشن پر کسی نے نومولود کو کپڑے میں لپیٹ کر ایک کونے میں رکھ دیا تھا اور چند آوارہ کتوں نے مل کر نہ صرف یہ کہ اُس کی حفاظت کی بلکہ کسی نہ کسی طور اُسے گھسیٹ کر باہر لائے تاکہ لوگ دیکھیں اور اٹھالیں!
اب آپ ہی بتائیے کہ کولکتہ کے اِن آوارہ کتوں کے مقابلے میں اُس انسان کو انسانیت کے کس درجے میں رکھا جائے گا جس نے نومولود کو کپڑے میں لپیٹ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا!
بھارت کی ریاست چھتیس گڑھ میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا ہے جس نے انسان اور حیوان کی محبت کی نئی مثال قائم کی ہے۔ بھٹ گاؤں کا رہنے والا شیو منگل سائے ایک سال قبل گلیوں میں بھٹکتے ہوئے ایک پِلّے کو گھر لایا اور بہت ہی پیار سے اُسے پالنا شروع کیا۔ وفاداری تو ویسے بھی کتے کی سرشت میں لکھی ہے۔ پِلّے کو پیار ملا تو اُس نے بھی شیو منگل سائے پر پیار نچھاور کرنا شروع کیا۔ شیو منگل کو پِلّے سے ایسا اور اتنا پیار تھا گویا وہ اپنی اولاد ہو۔ اِن دونوں کا تعلّق مثالی حیثیت اختیار کرگیا۔
مگر اِس پریم کہانی میں ایک ولن کو بھی انٹری دینی تھی۔ یہ تھا گھریلو ولن یعنی شیو منگل کا بیٹا سَندھاری۔ سَندھاری کو یہ بات بہت بُری لگتی تھی کہ اُس کے ہوتے ہوئے اُس کا باپ ایک پِلّے پر پیار نچھاور کرے۔ باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ایک بے زبان سے محبت کی راہ پر گامزن ہونے کے بجائے اُس نے مخالف سمت کا سفر شروع کیا یعنی اُسے پِلّے سے نفرت ہوگئی۔ اور آپ جانتے ہی ہیں کہ محبت کی طرح نفرت میں بھی انسان کو کب کوئی حد یاد رہتی ہے۔ اِدھر شیو منگل کے دل میں پِلّے کے لیے ایسا پیار تھا کہ دنیا دیکھ کر حیران تھی اور اُدھر سَندھاری کے دل میں پِلّے کے لیے نفرت پروان چڑھتی گئی۔ اِس صورتِ حال کا جو منطقی نتیجہ برآمد ہوسکتا تھا وہ بالآخر برآمد ہوکر رہا۔
ایک دن شیو منگل کسی کام سے گیا تو سَندھاری کو موقع مل گیا۔ اُس نے اپنے دل میں پنپنے والا سارا خار پِلّے پر اُتار دیا۔ پہلے تو اُس نے موٹی رسّی کا کوڑا بناکر پِلّے کو خوب مارا۔ پھر تیز دھار والے آلے سے اُسے ختم کردیا!
شام کو شیو منگل گھر واپس آیا تو دل و جان سے پیارے پِلّے کو مردہ دیکھ کر اُس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاگیا۔ چند لمحات کے لیے اُس کا ذہن معطّل ہوگیا۔ پھر جب حواس بحال ہوئے تو اُس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اور جب اُسے یہ معلوم ہوا کہ اُس کے پیارے پِلّے کو خود اُس کے بیٹے نے ہلاک کیا ہے تو اُس نے دل تھام لیا۔ تھوڑی دیر تک تو کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد شیو منگل نے ایک انوکھا فیصلہ کیا۔ اُس نے کتے کی لاش کو سائیکل کے کیریئر پر ڈالا اور آٹھ کلو میٹر فاصلہ طے کرکے بھٹ گاؤں پولیس اسٹیشن پہنچ گیا۔ پولیس اسٹیشن کا عملہ ایک شخص کو کتے کی لاش کے ساتھ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اور عملے کو مزید حیرانی اُس وقت ہوئی جب شیو منگل نے اپنے بیٹے سَندھاری کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی۔ ہیڈ محرّر اور دیگر اہلکاروں نے شیو منگل کو سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ نہ مانا اور سَندھاری کے خلاف تعذیراتِ ہند کی دفعہ 429 کے تحت مقدمہ درج کرادیا!
شیو منگل نے ثابت کیا کہ جس سے بے لوث محبت ہو اُس کے لیے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔ اُس نے ایک بے زبان کو بڑے چاؤ سے، بہت ہی پیار سے پالا۔ یہ پیار اِتنا بڑھا کہ وہ اپنے بیٹے کو بھی معاف نہ کرسکا۔ بہت سوں کی نظر میں شیو منگل سَنکی یا ابنارمل ٹھہرے گا۔ سرسری طور پر جائزہ لینے سے تو ایسا ہی لگے گا مگر اِس حقیقت سے انکار کیونکر ممکن ہے کہ پیار کا جواب صرف پیار سے دیا جاسکتا ہے۔ شیو منگل سے برداشت نہ ہوا کہ جو جانور اُس سے پیار کرتا تھا اُسے موت کے منہ میں دھکیلنے والے کو معاف کیا جائے۔ اُس نے یہ بھی نہ دیکھا کہ مجرم اُس کا بیٹا ہے! بیٹا نفرت کی ہر حد پار گیا تو باپ نے بھی ایک بے زبان سے محبت میں انتہا کردی۔
آج کی انتہائی مادّہ پرست دنیا میں بے لوث محبت کے نتیجے میں پیدا ہونے والا دل کا سکون ایسی دولت ہے جس کے لیے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا چاہیے۔ آج کا عمومی فکری ڈھانچا صرف مفادات کی بنیادوں پر استوار دکھائی دیتا ہے۔ سب کو اپنی پڑی ہے۔ بے لوث محبت تو رہی ایک طرف، یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ کسی کی محبت کا جواب بھی محبت سے دینا نَفس پر بھاری پڑنے لگا ہے! کسی کے لیے ذرا سے اخلاص کا مظاہرہ کرنے میں جان جاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ایسے میں محبت کے متلاشی ہر فرد کے لیے ایک ہی آپشن رہ جاتا ہے ... یہ کہ حیوانات کو اپنائے جو محبت کا جواب محبت سے دینے میں لمحہ بھر کی بھی تاخیر روا نہیں رکھتے۔