امریکا کو بات بات پر غصہ آتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ بات بات پر بھڑک اٹھنے کو امریکی قیادت نے عادت کیوں بنالیا ہے؟ جس کسی نے تھوڑی سی بھی نفسیات پڑھ رکھی ہو اُسے یہ سمجھنے میں ذرا سی بھی الجھن محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطح پر ایسا اُسی وقت ہوتا ہے جب اپنی جیب میں کھوٹے سِکّے ہوں! جو اپنے دہی کو کھٹّا قرار دینے سے بھاگنے کی ذہنیت رکھتا ہو وہ ہر تلخ حقیقت کا سامنا ہونے پر وہی کرے گا جو اِس وقت امریکی پالیسی میکرز کر رہے ہیں۔
معاملہ فرد کا ہو یا معاشرے کا، بات بات پر سیخ پا ہونے کی روش پر پر اُسی وقت گامزن ہوا جاتا ہے جب خرابیاں حد سے بڑھ گئی ہوں اور بیشتر خرابیوں کا کوئی ٹھوس جواز پیش کرنے کی اخلاقی سکت بھی باقی نہ رہی ہو۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا واحد سپر پاور رہ گیا۔ یہ منفرد حیثیت اُسے بے لگام کرنے کے لیے کافی تھی۔ برطانوی معاشرے کے برعکس امریکی معاشرہ باضابطہ تربیت کے منطقی مرحلے سے نہیں گزرا تھا۔ یورپ کے دیگر معاشروں کی طرح امریکا نے بڑھتی ہوئی طاقت کو ہضم کرنے کا ہنر نہیں سیکھا تھا۔ امریکا دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگوں کا معاشرہ ہے اس لیے اُس میں ثقافتی و تہذیبی وحدت کبھی پیدا نہیں ہوسکی۔ بیسویں صدی کے دوران جب بدلتے ہوئے حالات نے یورپ کو کمزور کیا اور بیشتر یورپی طاقتیں اپنے اثرات سے نمایاں حد تک محروم ہوئیں تو امریکا تیزی سے ابھرا۔ یہ تیزی سے ابھرنا ہی امریکی معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک تھا کیونکہ پیالہ بہت تیزی سے بھرا ہی نہیں بلکہ چھلک بھی گیا!
محض چند عشروں کے دوران حاصل ہو جانے والی غیر معمولی طاقت نے امریکی معاشرے اور قیادت دونوں کو آپے سے باہر کردیا۔ اور پھر پالیسیوں کا غیر متوازن اور جابرانہ و ظالمانہ ہوجانا تو فطری امر تھا۔ اور اب یہ حالت ہے کہ امریکا عسکری سطح پر بے لگام گھوڑے کے مانند سرپٹ دوڑ رہا ہے۔ کہیں کہیں یہ گھوڑا مست ہاتھی کا انداز بھی اختیار کرلیتا ہے۔ اور مست ہاتھی کی راہ میں آنے والوں کا جو انجام ہوا کرتا ہے وہی انجام ان سب کا ہوتا ہے جو امریکا کی راہ میں آجاتے ہیں یا لائے جاتے ہیں۔
امریکا نے بیسویں صدی کے بیشتر عشروں کے دوران اپنی طاقت میں غیر معمولی رفتار سے اضافہ کرتے رہنے پر اس قدر توجہ دی کہ باقی دنیا ایک طرف رہ گئی یعنی اچھا خاصا عدم توازن پیدا ہوگیا۔ یہ صورت حال یورپ کے لیے بھی پریشان کن تھی۔ صدیوں تک کئی دور افتادہ خطوں پر راج کرنے والی یورپی طاقتیں بھی امریکی پالیسیوں سے بد حواس ہوئیں اور انہوں نے پالیسیوںکا عدم توازن دور کرنے کے لیے امریکی قیادت سے مختلف مراحل میں بات کرتے رہنے کو بھی اپنی ترجیحات کا حصہ بنایا۔
امریکی فوج نے غیر معمولی طاقت کے نشے میں وہ سب کچھ کیا ہے جو تاریخ کے مختلف ادوار میں بھرپور طاقت کی حامل افواج عمومی سطح پر کرتی آئی ہیں۔ اور اس کے جو بھیانک نتائج برآمد ہوا کرتے ہیں وہی برآمد ہو رہے ہیں۔ طاقت کے بے محابا استعمال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لرزہ خیز خرابیوں کے تناظر میں امریکا کو اس وقت غیر مقبول ترین ریاست قرار دیا جاسکتا ہے۔
امریکی فوج نے دنیا بھر میں جو کچھ کیا ہے اس کا خمیازہ اب امریکی عوام کو دنیا بھر سے امنڈنے والی شدید نفرت کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ، جنوب مشرقی ایشیا اور جنوبی امریکا میں امریکی فوجیوں نے جو کچھ کیا ہے وہ ہر اعتبار سے ایسا ہے کہ انسانیت کو عار آئے۔ گوانتا ناموبے جیل میں قیدیوں سے جو سلوک روا رکھا جاتا رہا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے قابل معافی نہیں۔ دنیا بھر میں یہ عمومی رائے پائی جاتی ہے کہ امریکا کو حساب دینا ہی پڑے گا۔
امریکی فوج کے حوالے سے ناپسندیدگی کے جذبات خود امریکی سرزمین پر بھی محض ابھر نہیں رہے بلکہ توانا ہوچکے ہیں۔ سابق امریکی فوجی (ویٹرنز) کو امریکی معاشرے میں احترام کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ امریکی فوج کے مظالم کو کھل کر بیان کرنا اور انہیں تنقید کا نشانہ بنانا اب امریکا میں عام سی بات کہیے۔ بعض اسکولز میں اساتذہ جب بین الاقوامی امور سے متعلق پڑھا رہے ہوتے ہیں تب امریکی پالیسیوں کی خامیاں اور خرابیاںبیان کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ سابق امریکی فوجیوں کو نشانہ بنانے میں شرمندگی سے کام لیا جاتا ہے نہ بخل سے۔
18 جنوری کو امریکی ریاست کیلی فورنیا کے علاقے پیکو ریویرا میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے امریکی سسٹم کے حوالے سے نیا ہنگامہ کھڑا کردیا ہے۔ ایل رینچو ہائی اسکول کے ٹیچر گریگری سالسیڈو نے کلاس روم میں کسی نکتے کی وضاحت کے دوران مشتعل ہوکر امریکی فوج کو شدید تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔ گریگری سالسیڈو نے کہا ''امریکی معاشرے میں سو طرح کے برے کردار پائے جاتے ہیں۔ سب سے برے انسان نہ تو بینکرز ہیں نہ۔ اور نہ ہی شوبز کے لوگ۔ بدترین لوگ تلاش کرنے ہیں تو سابق فوجیوں میں تلاش کیجیے۔‘‘
سالسیڈو نے سابق فوجیوں کے خلاف یہ رائے دراصل ویتنام، نکارا گوا، عراق، افغانستان اور دیگر ممالک میں ان کی کارکردگی اور ریکارڈ کی بنیاد پر دی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا نے دوسری عالمی جنگ میں فتح فوج کی عمدہ کارکردگی کی بدولت نہیں بلکہ محض ایٹم بم کی بدولت حاصل کی تھی۔
فوج کے خلاف گریگری سالسیڈو کی رائے پر مبنی وڈیو کمبرلن فلاٹو نے پوسٹ کی ہے۔ اب تک ساڑھے چار لاکھ سے زائد افراد یہ وڈیو دیکھ چکے ہیں۔ سالسیڈو کو اس وڈیو میں یہ کہتے بھی سنا جاسکتا ہے کہ ہماری فوج اچھی اس لیے نہیں کہ اِسے لوگوں کے دل جیتنے کا ہنر نہیں آتا۔ ویتنامیوں کو ہم ہرا نہیں سکے جو ہماری طرف چاول پھینک رہے تھے اور انہیں بھی ہرایا نہ جاسکا جو ''رسیوں‘‘ میں تھے۔ یہ اشارا غالباً اہلِ عرب کی طرف تھا۔
سالسیڈو نے کوئی ایسی بات نہیں کہی جس پر بہت زیادہ سیخ پا ہوا جائے۔ امریکی فوجیوں نے دنیا بھر میں قیدیوں پر جو مظالم ڈھائے ہیں اور سی آئی اے کے عقوبت خانوں میں مخالفین پر جو مظالم روا رکھے جاتے رہے ہیں وہ ہر اعتبار سے اس قابل ہیں کہ ان کی شدید مذمت کی جائے۔ جن ممالک کو امریکا نے تاراج کیا ہے وہاں کے لوگ تمام مظالم بیان کرچکے ہیں۔ جنوبی امریکا ہو یا جنوبی و جنوب مشرقی ایشیا، امریکی پالیسیوں نے بے حساب خرابیاں پیدا کی ہیں۔ مشرق وسطٰی بھی امریکی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھتا آیا ہے۔ سوشل میڈیا کے فروغ نے معاملات کو زیادہ اور آسانی سے طشت از بام کردیا ہے۔ امریکی پالیسیوں کے بارے میں جو ساری دنیا میںکہا جارہا ہے وہی اب امریکی سرزمین پر بھی کہا جارہا ہے۔ امریکی پالیسی میکرز کو ''صداقت نامہ‘‘ کہیں اور نہیں، اپنے ہاں بھی مل سکتا ہے۔ وقت نے غیر معمولی کروٹ لینا شروع کردیا ہے۔ دنیا بھر میں بہت کچھ بدل رہا ہے۔ ایسے میں تبدیل ہونے کے سوا کسی کے لیے کوئی آپشن نہیں بچا۔ وقت آگیا ہے کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں امریکی پالیسیاں بھی تبدیل ہوں اور تبدیلیاں ایسی ہوں جن سے صاف پتا چلتا ہو کہ امریکی قیادت باقی دنیا کو بھی اس کے مفادات کے ساتھ تسلیم کرنے پر رضامند ہے!