جس کے نصیب میں زیادہ خوشیاں نہ ہوں وہ ہر معاملے میں خوشی کا، خوش ہونے کا کوئی نہ کوئی پہلو تلاش کرتا ہے۔ جہاں کہیں خوش ہونے کی ذرا سی گنجائش نظر آتی ہو وہاں ایسا شخص آپے سے باہر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اِسی لیے تو کہا جاتا ہے غریبوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں!
شادی کے معاملے میں بھی غریب آدمی آپے سے باہر ہونے میں دیر لگانے کا قائل نہیں۔ ہمارے معاشرے میں شادی کا موقع بھی ''فیملی فن گالا‘‘ بننے میں زیادہ دیر نہیں لگاتا۔ جنہیں اللہ نے بہت نوازا ہے وہ تو کسی نہ کسی طور روزانہ ہی خوش ہو لیتے ہیں۔ رہ گئے غریب تو انہیں شادی کے موقع پر خیال آتا ہے کہ کچھ نہ کچھ ایسا کیا جائے کہ بات رہ جائے، کچھ حسین یادیں تا دیر حافظے کا حصہ بنی رہیں۔ بس، اِس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے چکر میں بے چارے کے اخراجات ''بے پاجامہ‘‘ ہو جاتے ہیں! خوشیوں کو ترسے ہوئے لوگ شادی کے موقع پر ہر رسم کو خوشیوں کا منبع بنانے پر بضد دکھائی دیتے ہیں۔
برطانیہ سے خبر آئی ہے کہ شادی کے لیے دولہا اور دلہن جادوئی قالین پر آئے۔ بات یہ ہے کہ شادی والے دن زندگی ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہوتی ہے جہاں سب کچھ جادوئی لگ رہا ہوتا ہے۔ ایسے جادوئی ماحول میں انسان چاہتا ہے کہ کچھ ایسا کرے جو واقعی جادو جیسا دکھائی دے۔ یہ قالین الٰہ دین وغیرہ کے قصے میں پائے جانے والے اڑتے ہوئے قالین جیسا نہ تھا۔ قصہ یہ ہے کہ ایک بڑے سکیٹنگ بورڈ پر قالین اور رنگا رنگ جھالر لگاکر یہ ''جادوئی قالین‘‘ تیار کیا گیا تھا۔ دولہا اور دلہن اِس ''جادوئی‘‘ قالین پر سوار ہوئے اور تھوڑی دیر کے لیے ایسا تماشا لگا کہ سبھی محظوظ ہوئے۔
یہ کوئی واحد یا انوکھا واقعہ نہیں۔ قصہ یہ ہے کہ شادی کے بندھن میں بندھنے کی خاطر تقریب میں پہنچنے کے لیے دولہے سو طرح کے جتن کرتے ہیں، جادو کے کمالات دکھانے پر بضد رہتے ہیں! اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ جب وہ دلہن لانے کے لئے گھر سے نکلیں تو دنیا یہ سمجھے کہ کوئی نیا سکندر دنیا کو فتح کرنے نکلا ہے! اِس ایک دن کی ''سکندری‘‘ کے لیے بے چارے خوش فہمی کے سمندر میں غوطے لگانے والے سکندر کیا کیا دائو پر لگا دیتے ہیں۔ سنا تو آپ نے بھی ہوگا کہ ع
سکندر جب گیا دنیا سے‘ دونوں ہاتھ خالی تھے
وہ تو سکندر تھا جس کے ہاتھ دنیا سے جاتے وقت خالی تھے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ شادی کے چار پانچ دنوں کو فیملی فن گالا میں تبدیل کرنے اور شادی کے مرکزی دن کو یادگار بنانے کے چکر میں بے چارے نو بیاہتے سکندر پلک جھپکتے میں خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں! ساری ''سکندری‘‘ دھری کی دھری رہ جاتی ہے کیونکہ ''حالات ما بعدِ شادی‘‘ پورس کے ہاتھیوں کی طرح پلٹ کر وار کرتے ہیں یعنی اپنے لشکر کو کچلنے کا فریضہ انجام دے ڈالتے ہیں!
شادی سے جڑے ہوئے ہر معاملے کی قیمت اب دل و دماغ پر ہتھوڑے برساتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ہر معاملہ اتنا مہنگا ہوگیا ہے کہ شادی کو یادگار بنانے کے چکر میں دولہے راجا پورے بجٹ کو داغدار بنا بیٹھتے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ اتنا کہنے کی سکت بھی باقی نہیں رہتی کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں!
ایک زمانہ تھا کہ دولہا جب دلہن کو لانے کے لیے گھر سے روانہ ہوتا تھا تو گھوڑی پر سوار ہوتا تھا۔ اور پھر دُلکی چال چلتی ہوئی گھوڑی پر بیٹھے ہوئے دولہے راجا کا دماغ ساتویں آسمان تک پہنچ جاتا تھا اور وہ اِسی کیفیت میں دلہنیا کی دہلیز تک پہنچتے تھے۔ ذرا سی دیر کو گھوڑی پر سوار ہونے والا دولہا ''چشمِ تصور کی آنکھ‘‘ سے خود کو شہنشاہ کے روپ میں دیکھتا تھا اور دلہن کے ساتھ اپنے گھر اس طور آتا تھا جیسے ایک دنیا فتح کر کے واپسی کی راہ لی ہو! لوگوں کو اصلی فاتح اور مفتوح کا علم کچھ دن بعد ہی ہو پاتا تھا جب پانی اپنی پنسال میں آ جاتا تھا! خیر، ہر شادی شدہ گھرانے کا یہ معاملہ جادو نگری کا سا ہوتا ہے۔ جو ہوتا ہے وہ دِکھتا نہیں اور جو دِکھتا ہے وہ ہوتا نہیں!
کراچی میں ہر معاملے کو کچھ کا کچھ بنانے کا ٹرینڈ سا چل پڑا ہے۔ لوگ ہر تقریب کو عالمی سطح کے ایونٹ کا رنگ دینے پر بضد ہیں۔ شادی کے معاملات بھی اِس سوچ سے آزاد اور مستثنیٰ نہیں۔ کچھ دنوں سے ایک نیا رواج پروان چڑھا ہے۔ بعض برادریاں‘ بارات رات کے ڈیڑھ دو بجے نکالتی ہیں اور دولہا سمیت تقریباً تمام قریبی رشتہ دار ایسی بگھیوں (گھوڑا گاڑیوں) میں سوار ہوتے ہیں جنہیں برقی قمقموں اور رنگین ٹیوب لائٹس سے سجایا جاتا ہے۔ جب یہ بارات نکلتی ہے تو نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ تھوڑی سی جدت یوں متعارف کرائی گئی ہے کہ بگھیوں کی جگہ بڑی، مہنگی کاریں سجائی جاتی ہیں۔ قمقموں اور ٹیوب لائٹس سے آراستہ و منوّر پندرہ بیس گاڑیاں جب ''مشن میرج‘‘ پر روانہ ہوتی ہیں تو یہ نظارہ ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی ایک بار دیکھے اور آنکھوں کی پیاس بجھا لے۔ روشن بگھیوں یا چمکتی دمکتی کاروں میں بارات جب سڑکوں پر سے گزرتی ہے تو ع
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
والا سماں پیدا کر دیتی ہے۔ سڑکوں پر سے گزرتی ہوئی ایسی ہر بارات کو لوگ مڑ مڑ کر دیکھتے ہیں۔ کیوں نہ دیکھیں؟ ؎
بارات جا رہی ہے‘ نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اِسے بار بار دیکھ
ہم نے کئی کیسز میں دیکھا ہے کہ شادی اور ولیمے کو یادگار بنانے کے چکر میں بعض ''سکندر‘‘ اتنا کچھ خرچ کر بیٹھتے ہیں کہ بعد میں سرکاری پنج سالہ منصوبے کی طرح بیسیاں، کمیٹیاں بھگتتے ہیں اور ''مفتوحہ‘‘ کو کوستے رہتے ہیں! گویا ؎
دو دن کی خوشی راس نہ آئی مِرے جی کو
دل ٹوٹ گیا‘ آگ لگے ایسی خوشی کو!
جہاں ہر طرف پریشانیاں اور الجھنیں ہوں وہاں لوگ خوش ہونے کے ہر موقع کو دانتوں سے پکڑ کر رکھتے ہیں۔ ایسے میں کون آپے میں رہتا ہے؟ خوشیوں کو ترسے ہوئے لوگ جب خوش ہونے پر آتے ہیں تو کسی حد کو ذہن میں نہیں رکھتے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ کہیں کوئی کسر نہ رہ جائے، کوئی یہ نہ کہے کہ خوش ہونے کا حق ادا نہیں کیا۔ جب دل و دماغ کی کیفیت یہ ہو تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کون کہاں تک جا سکتا ہے!
شادی زندگی کا حصہ ہے۔ اس موقع پر خوش ہونا فطری ہے، لازم ہے، مگر بھئی ایسی خوشی کس کام کی جو بعد میں خون کے آنسو رلاتی رہے۔ شادی زندگی کا ایک حسین موڑ ہے مگر سب کچھ یہیں ختم نہیں ہو جاتا۔ زندگی تو اس کے بعد ایک نئے انداز سے شروع ہوتی ہے۔ یہ موقع یادگار بنایا جانا چاہیے مگر اِس طور نہیں کہ بہت کچھ داؤ پر لگ جائے۔ ایک دن کی ''سکندری‘‘ کے لیے بعد میں ایک مدت تک خراج ادا کرتے رہنا اظہارِ جہالت ہو تو ہو، دانش کا تقاضا تو ہرگز نہیں ہو سکتا۔ شادی ایک حسین بندھن ہے جس میں بندھنے کو سب بخوشی تیار رہتے ہیں مگر معاملات کو اُس نہج تک نہ پہنچنے دیا جائے کہ یہ حسین بندھن کسی شکاری کا جال محسوس ہونے لگے! دستیاب وسائل کی حدود میں رہتے ہوئے کیا جانے والا ہر کام بھلا معلوم ہوتا ہے۔ علامہ کہہ گئے ہیں ؎
نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے!