"MIK" (space) message & send to 7575

محبت کا ’’منجن‘‘

منجن بیچنے والوں کی کمی نہیں۔ اگر منجن خریدنے والے موجود ہوں تو کہیں بھی مجمع لگاکر منجن بیچا جاسکتا ہے۔ فی زمانہ ''منجن‘‘ محض لفظ نہیں، اصطلاح ہے۔ کسی بھی معاملے میں اپنا ''بیانیہ‘‘ غیر معمولی جوش و خروش سے پیش کرنے والے جانتے ہیں کہ سُننے والوں کی کمی نہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ آپ اپنا مال کس طرح پیش کرتے ہیں۔ منجن بیچنا آنا چاہیے، خریداروں کی کمی نہیں۔ 
جب سے آئی ٹی کے شعبے میں ٹیکنالوجی نے حیران کن ترقی کی ہے تب سے انسان کا اپنے دل و دماغ پر اختیار نہیں رہا۔ جس کے جی میںجو آرہا ہے وہ بیان کر رہا ہے اور اِس بات کی، بظاہر، کسی کو کچھ پروا نہیں کہ کس بات سے کسی پر کیا بیت سکتی ہے۔ لوگ اپنے دل و دماغ میں ابھرنے والی ہر بات کھل کر بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں وہ (دوسروں کی) جاں سے گزر جاتے ہیں۔ 
منجن بیچنے کے لیے موضوعات کی کمی نہیں۔ سب سے پہلے تو خود منجن ہی کو لیجیے۔ سڑکوں پر مجمع لگاکر یا بسوں میں طرح طرح کے منجن بیچے جاتے ہیں۔ ذرا سا منجن انگلی کی مدد سے مسوڑھوں پر ملنے کی صورت میں درد کو ذلت کی موت سے دوچار کرنے کا دعویٰ کرنے والے اپنا مال اس قدر اعتماد سے پیش کرتے ہیں کہ لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی خرید لیتے ہیں۔ 
منجن بیچنے کے معاملے میں دوسرا پسندیدہ شعبہ ہے درد کش بام یا برہم۔ کوئی بھی، کہیں بھی کھڑا ہوکر یا مجمع لگاکر دنیا کے ''مجرّب ترین‘‘ نسخے سے تیار کیا ہوا درد کش بام فروخت کرنے کے لیے قوم سے خطاب کرتا ہے اور قوم متاثر ہوکر بام خرید بھی لیتی ہے۔ یہ الگ بات کہ یہ درد کش بام گھر پہنچنے پر دردِ سر میں اضافے کا باعث بنتا ہے! 
طرح طرح کی خوشبویات بھی منجن بیچنے کے اصول کی بنیاد پر فروخت کی جاتی ہیں۔ اس کا طریقہ بھی بہت اعلٰی ہے۔ ہاتھ میں اصلی عطر مل کر بوتلوں پر رگڑ دیا جاتا ہے۔ اب ظاہر ہے بوتل سے تو اصلی خوشبو ہی آئے گی۔ بوتلوں کے اندر غیر معیاری عطر ہوتا ہے جس کی خوشبو چند لمحات میں ہوا ہو جاتی ہے۔ 
بہر کیف، منجن بیچنے کے اصول پر یعنی دل و دماغ میں ابھرنے والے ہر طرح کے خیالات کو بہ اندازِ تقریر پیش کرکے اپنا مال بیچنے والوں کی چاندی ہوگئی ہے۔ لوگ کسی بھی موضوع پر دھڑلّے سے منجن بیچنے والوں کو پسند کرتے ہیں اور ان کی ہر بات یوں مانتے چلے جاتے ہیں گویا ع 
مستند ہے اُن کا فرمایا ہوا 
بات اتنی سی ہے کہ لوگ بولنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔ کیا بولا جارہا ہے اس پر غور کرنے کی زحمت کم ہی لوگ گوارا کرتے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں بولنے کی صلاحیت رکھنا کافی نہیں، منجن بیچنا لازم ہے یعنی آپ کو بلا تکان بولنا آنا چاہیے اور آپ جو کچھ کہیں اُس میں یہ خوبی بھی ہونی چاہیے کہ کوئی لاکھ کوشش کرے آپ کی بات کی تہہ یا جڑ تک نہ پہنچ سکے۔ زیادہ بولنا اب کسی نکتے کو بیان کرنے سے کہیں بڑھ کر اُسے چھپانے کے ذیل میں آتا ہے۔ 
ویسے تو خیر ہزاروں سال سے محبت کا منجن بھی بک ہی رہا ہے مگر ڈیڑھ دو عشروں کے دوران ایسی فضاء تیار کی گئی ہے گویا ؎ 
محبت کے دم سے یہ دنیا حسیں ہے 
محبت نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے 
آپ بھی سوچیں گے اس میں غلط کیا ہے۔ محبت نہ ہو تو واقعی کچھ نہیں ہوتا۔ ٹھیک ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ محبت کے سمندر کو مٹی کے پیالے میں بند کردیا گیا ہے۔ ایک وسیع اور وقیع تصور کو آنکھ مٹکّے کے مرحلے میں مقید کردیا گیا ہے۔ چھینی اور ہتھوڑے کی مدد سے نئی نسل کے ذہنوں میں یہ بات ٹھونسی گئی ہے کہ ابھرتی ہوئی عمر کے مرحلے میں کسی کو پسند نہ کیا اور نہ چاہا تو سمجھ لو یہ عمر بیکار گئی۔ اور سچ تو یہ ہے کہ محبت کا منجن بیچنے والوں نے نئی نسل کو محبت کے نام پر طرح طرح کے بے بنیاد تصورات کے پنجرے میں بند کردیا ہے۔ 
ڈیڑھ دو عشروں کے دوران سینٹ ویلنٹائن ڈے منانے کے نام پر خرافات کا بازار گرم کرتے رہنے کو نئی نسل کے حوالے سے مطلوب و مقصود سمجھ لیا گیا ہے۔ جس میڈیا کے ذریعے یہ سارا گورکھ دھندا پھیلایا گیا ہے اُسی میڈیا کے ذریعے سینٹ ویلنٹائن ڈے کی حقیقت بھی طشت از بام کی جاتی رہی ہے مگر نئی نسل کو اس معاملے میں شرحِ صدر کی طرف جانے نہیں دیا جاتا! 
خاصی منظم سازش کے ذریعے وہ سب کچھ ہمارے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے جو کسی بھی سطح پر ہمارا نہیں۔ بہت سی رسوم شادی کے نام پر ہماری اجتماعی زندگی کا حصہ بنادی گئی ہیں۔ بالکل اِسی طور نئی نسل کے لیے جو چال چلن کسی بھی اعتبار سے قابل قبول اور قابل برداشت نہیں وہ اب عمومی چلن کا حصہ ہے۔ مختلف ذرائع سے یہ بات زور دے کر بیان کی جارہی ہے کہ جس پر جوانی آئی ہے اُس کے لیے لازم ہے کسی پر اُس کا دل آئے یا کسی کا اُس پر دل آئے! یہ تاثر پروان چڑھایا جارہا ہے کہ ابھرتی ہوئی عمر میں اگر دل نہ لگایا تو پھر کیا جیا! یہ بات ہر اُس ذریعے کی معرفت کی جارہی ہے جس کی مدد سے نئی نسل کے ذہن تک پہنچا ہی نہیں جاسکتا بلکہ اُس میں داخل ہوکر مرضی کا کھیل کھیلا بھی جاسکتا ہے۔ اور یہی سبب ہے کہ آج کی نئی نسل زندگی کے بارے میں شعور کو پختہ کرنے، علم و عمل کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کی بھرپور تیاری کے ذریعے کچھ کر گزرنے کے عمل پر کاربند رہنے کے بجائے دل لگانے کی منزل میں اٹک کر رہ گئی ہے۔ کسی کو اپنانے، اپنا بنانے کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی خواہش زندگی کا مرکز و محور ہوکر رہ گئی ہے۔ 
ریڈیو نے زیادہ خرابیاں نہیں پھیلائی تھیں۔ فلم آئی تو خرابیاں پھیلانے کا عمل شروع ہوا۔ وی سی آر نے اس عمل کو مہمیز دی۔ اور پھر سیٹیلائٹ ٹی وی کی سہولت نے دنیا بھر کے الٹے سیدھے تصورات اور نظریات یعنی مخصوص ایجنڈے کے تحت تیار کیے جانے والے منجن کو گھر گھر پہنچادیا۔ اور ع 
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی! 
مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کردی ہے۔ ایک طوفانِ بدتمیزی ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے امڈا آتا ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں اس طوفان کے آگے بند باندھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ جنہیں اس حوالے سے کچھ کرنا ہے وہ خود مفادات کی اسیری اختیار کرکے اپنے ہاتھ پاؤں بندھوا بیٹھے ہیں۔ محبت کے نام پر بے سر و پا تصورات کے ذریعے نئی نسل کو تباہی کے گڑھے کی طرف دھکیلا جارہا ہے اور اس روش کے خلاف مزاحمت برائے نام ہے۔ محبت کا منجن کھل کر، دھڑلّے سے بیچا جارہا ہے۔ جنہیں ہدف بناکر یہ سب کچھ کیا جارہا ہے انہیں کچھ اندازہ ہی نہیں کہ اُن کی زندگی کا اہم ترین موڑ خرافات کی نذر کیا جارہا ہے اور وہ ہدف پذیری کے انتہائی درجے میں ہیں۔ ؎ 
حقیقتوں سے یہاں آشنا کوئی بھی نہیں 
کہ سوچنا ہے مگر سوچتا کوئی بھی نہیں 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں