"MIK" (space) message & send to 7575

اِس پار بھی رُسوائی، اُس پار بھی رُسوائی!

عمرانی معاہدے کے بارے میں آپ نے بھی ضرور سنا ہوگا۔ یہ کوئی باضابطہ، تحریری معاہدہ نہیں ہوتا بلکہ خاموشی و رضا مندی کی زبان سے طے پانے والا وہ معاہدہ ہوتا ہے جس کے تحت معاشرے میں سب ایک دوسرے کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید اور مُمِد ثابت ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ عمرانی معاہدے سے مراد ایسی مفاہمت ہے جو معاشرے کی مجموعی بہبود کے لیے ہو اور سب بہت حد تک متفق بھی ہوں۔ عمرانی معاہدے کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ سب کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہے اور کسی کو زندگی اِس طور بسر نہیں کرنی کہ اپنے وجود کے ساتھ ساتھ دوسروں پر بھی بوجھ ہو۔ ایسی صورت میں معاشرے کا توازن بگڑتا ہے۔ 
عمرانی معاہدہ ہمارے، آپ کے یعنی معاشرے میں بسنے والے تمام افراد کے تحت الشعور میں بسا ہوا ہے۔ کوئی اس کا ذکر نہیں کرتا مگر عمل ضرور کرتا ہے۔ اگر آپ کچھ کھانے کے بعد شاپر اِدھر اُدھر نہیں پھینکتے بلکہ کچرے کا ڈبا تلاش کرکے اُس میں ڈالتے ہیں تو آپ عمرانی معاہدے ہی پر عمل کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر سب ایسا کریں تو معاشرہ صاف ستھرا رہے۔ اور اگر سب اِس کے برعکس عمل کریں تو ہر طرف کچرے کے ڈھیر لگ جائیں۔ یہی معاملہ عمومی زندگی کے دیگر معاملات اور معمولات کا ہے۔ 
عمرانی معاہدہ ہمیں یوں یاد آیا کہ کام کرنا بھی تو عمرانی معاہدے ہی کا ایک اہم جُز ہے۔ جو شخص معاشرے کا حصہ ہے وہ لازمی طور پر کوئی نہ کوئی کام کرے گا تاکہ اپنے لیے بہتر زندگی کا سامان بھی کرے اور دوسروں پر بوجھ بھی نہ بنے۔ دنیا کا ہر معاشرہ اِسی بنیاد پر چل رہا ہے، کام کر رہا ہے کہ سب کو کچھ نہ کچھ کرنا ہے، دوسروں کے لیے معاون ثابت ہونا ہے تاکہ کہیں بھی کوئی کام کسی ٹھوس کے بغیر اٹکا ہوا نہ رہے۔ 
مغربی دنیا نے غیر معمولی محنت سے وہ سب کچھ پایا ہے جو آج اُسے باقی دنیا پر برتری دلائے ہوئے ہیں۔ یورپ کی اقوام نے کم و بیش چار صدیوں تک ان تھک محنت کی۔ جدید ترین علوم و فنون کے حوالے سے اُن کی تحقیق اور عملی کاوشوں کے بارے میں کون نہیں جانتا؟ اگر یورپ اور امریکا کی چار سو سالہ تاریخ کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ لوگوں نے معاشرے کو تبدیل کرنے، ترقی کا پہیہ زیادہ تیزی سے گھمانے اور بہتر زندگی یقینی بنانے کے لیے عمریں لگادیں۔ دونوں خطوں کے لوگ آج باقی دنیا سے ممتاز ہیں، قابلِ رشک معیارِ زندگی کے حامل ہیں، متموّل ہیں، اعلٰی تر معاشرتی سطح کے ساتھ صحت مند زندگی بسر کر رہے ہیں تو اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اُن کے اجداد نے صدیوں تک جدوجہد کی، اپنی صلاحیتوں کو جلاء بخشی اور پھر اُن صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر خود کو باقی دنیا سے ممتاز کیا۔ اِس کا سیدھا سا مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ اجداد نے بویا تھا اُسی کو آج اہلِ مغرب کاٹ رہے ہیں، پھل کھا رہے ہیں۔ 
آج بھی اگر کسی کو کام کی تحریک درکار ہو تو مغرب کی طرف دیکھتا ہے۔ اہلِ مغرب نے اب تک کام کے معاملے میں ایسا معیار برقرار رکھا ہے کہ دنیا دیکھ کر انگشت بہ دنداں رہ جاتی ہے۔ آج بھی مغرب میں عمل پسند یا عمل نواز رویّہ زندگی کی بنیادی شرط ہے۔ دیگر معاشروں اور خطوں سے جو لوگ مغربی معاشرے میں قدم رکھتے ہیں اور اُس کا جُز بن جاتے ہیں وہ بھی محنت کے معاملے میں اہلِ مغرب کی عمومی روش اور مزاج کو اپنانے میں دیر نہیں لگاتے۔ اور اگر نہ بھی چاہیں تو ''مجبوری کا نام شکریہ‘‘ کے مصداق ایسا کرنا ہی پڑتا ہے۔ 
یہ سب کچھ اپنی جگہ درست سہی مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ جس مغرب نے پوری دنیا کو ان تھک محنت کے خوشگوار نتائج کے درشن کرائے ہیں اور بتایا ہے کہ دنیا کو پانے کی کوشش کی جائے گی تو دنیا حاصل ہوکر رہے گی اُسی مغرب کی طرف سے یہ پیغام مل رہا ہے کہ زیادہ کام کرنا انسان کے لیے مفید نہیں! 
ہے نا عجیب بات؟ مگر کیا کیجیے کہ سچ یہی ہے۔ مغرب میں عمرانیات کے بہت سے ماہرین معاشرتی رویّوں پر زندگی بھر دادِ تحقیق دیتے رہتے ہیں۔ ماہرین کے کئی گروہ دن رات یہ جاننے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں کہ زندگی کو آسان سے آسان تر کس طور بنایا جاسکتا ہے۔ اِس کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی تحریک بھی دی جاتی رہی ہے مگر اب تحقیق کا رخ تبدیل ہو رہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ زندگی کو اگر حقیقی مفہوم میں پُرسکون بنانا ہے تو زیادہ کام سے گریز لازم ہے! برطانیہ میں محققین کی ایک ٹیم نے ہزاروں افراد کے معاملات کا جائزہ لیکر اور سیکڑوں افراد پر تجربے کرنے کے بعد تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ جو لوگ دفاتر میں زیادہ کام کرتے ہیں اُن کے دماغی امراض میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے! تحقیق کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے کہ ہفتے میں 55 گھنٹے تک کام کرنے والوں اور دفتر کا کام گھر لانے والوں میں دماغی امراض کے پنپنے کا خطرہ کم و بیش 40 فیصد بڑھ جاتا ہے! 
کام اور دماغی امراض؟ ہم نے جب یہ خبر مرزا تنقید بیگ کے گوش گزار کی تو اُنہوں نے فوراً سے پیشتر تبصرہ کیا ''یہ گورے بڑے چالاک ہیں۔ خود تو صدیوں محنت کی اور دنیا کو اپنے نام کرلیا۔ اب ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں (!) تو کام کے نتائج سے ڈرایا جارہا ہے۔ یہ تو سراسر بے ایمانی ہے۔‘‘ 
ہم حیرت سے مرزا کا منہ تکنے لگے۔ ''اب ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں‘‘ یقیناً انہوں نے قوم کے لیے کہا ہوگا، اپنے لیے نہیں کیونکہ مرزا سرکاری محکمے سے ریٹائر ہوئے ہیں اور اُن کے منہ سے کام کی بات عجیب لگتی ہے! 
مرزا نے گوروں کے بارے میں وہی کچھ کہا جو ہمارے دل میں تھا۔ انہوں نے خود تو بھرپور محنت کے ذریعے دنیا کی امامت کا منصب پالیا۔ اب ہم جیسی اقوام اپنے اندر تحرک پیدا کرکے کچھ کر گزرنے کے لیے پر تول رہی ہیں تو محنت کے ''سنگین نتائج‘‘ سے ڈرایا جارہا ہے! یہ تو واقعی ''بے ایمانی‘‘ ہے۔ صدیوں کی بے عملی کے بعد دوسرے خطوں کی اقوام جاگی ہیں اور کچھ کرنا چاہتی ہیں تو اُن کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے۔ ہم کہ ٹھہرے صدیوں کے آرام طلب۔ کام کرنے کی امنگ تھوڑی سی جاگی ہے تو ممکنہ سنگین نتائج کا بیان ارادوں کو متزلزل کرنے کے لیے میدان میں آگیا ہے! گویا ع 
''مطلع‘‘ میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات! 
دنیائے مغرب کے محققین اب اس نکتے پر اٹک گئے ہیں کہ زیادہ کام کرنے سے دماغی امراض میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ انہیں یہ بات کون سمجھائے کہ ہمارے لیے تو اِس طرف پہاڑ ہے اور اُس طرف کھائی۔ کام کریں تو مصیبت، نہ کریں تو مصیبت۔ یہ عجیب دریا ہے کہ ع 
اِس پار بھی رُسوائی، اُس پار بھی رُسوائی! 
مغرب کے محققین یاد رکھیں ہماری تو دونوں طرح ہار ہے۔ کام کم کرنے یا نہ کرنے کا نتیجہ بھی دماغی امراض کے پنپنے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے، بلکہ کچھ زیادہ شدت کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے! اور آج کل پاکستانی قوم اِسی، ستم ظریف قسم کے مرحلے سے گزر رہی ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں