ہر انسان زندگی بھر مختلف معاملات اور تجربات کی بھٹی سے تپتا ہوا گزرتا ہے۔ بہتر زندگی بسر کرنے کیلئے تعلقات اور اشتراک عمل لازم ہے۔ ہم دوسروں کے ساتھ رہ کر، ان کا ساتھ دے کر اور ان سے مدد لے کر ہی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اگر یہ مرحلہ نہ ہو تو ناکامی کے تمام مراحل مرتے دم تک جاری رہتے ہیں اور انسان کبھی کامیابی کے مرحلے میں قدم رکھنے کے قابل نہیں ہو پاتا۔
دوسروں کے ساتھ مل کر جینا انسان کی فطرت ہے۔ جب ہم اشتراک عمل کی منزل سے گزرتے ہیں تو چند ایک ناخوشگوار باتیں بھی وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان مزاج کی نوعیت اور شدت کا غیر معمولی فرق پایا جاتا ہے۔ اس دنیا میں سبھی کچھ ہماری مرضی کے مطابق یا ہماری مرضی کے تابع نہیں ہوتا۔ ہمیں اچھی باتوں کے ساتھ ساتھ اور چند ناپسندیدہ باتیں بھی ہضم کرنا پڑتی ہیں۔
زندگی اپنے طور گزرتی ہے۔ ہم چند ایک ناپسندیدہ اور ناخوشگوار یادوں کے ساتھ زندہ رہتے ہیں۔ یہ سب بہت حد تک فطری ہوتا ہے۔ زندگی کے بازار میں ہر طرح کے سودے ہوتے ہیں۔ کبھی کسی سودے میں خاصا نفع ہوتا ہے اور کسی کسی سودے میں غیر معمولی خسارے کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض تعلقات ہمیں خوشیاں دیتے ہیں اور بعض کے ہاتھوں ہمیں صرف پریشانی ہاتھ آتی ہے۔ زندگی کا میلہ اِسی طور جاری رہتا ہے۔
کیا ناخوشگوار یادوں سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب کا مدار اس بات پر ہے کہ ہم زندگی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، کیا رویہ رکھتے ہیں۔ اگر ہم ہر معاملے میں منفی سوچنے کے عا دی ہوں تو ناخوشگوار یادوں اور باتوں سے خود کو الگ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ منفی سوچ ہمیں ہر اُس بات سے قریب کرتی ہے جس کے نتیجے میں صرف دکھ اور پریشانی ملتی ہو۔
ذہن کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بیک وقت دو باتیں پورے انہماک کی حامل نہیں ہوسکتیں۔ جب ہم مثبت سوچتے ہیں تو منفی کیلئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اسی طور جب ہم منفی خیالات کی رَو میں بہتے ہیں تو کسی بھی مثبت بات کے پنپنے کی زیادہ گنجائش نہیں رہتی۔ جب ہم ناخوشگوار یادوں میں اُلجھتے ہوئے رہتے ہیں تب زندگی کا معیار بلند کرنے پر توجہ نہیں دے سکتے۔ ایسی حالت میں بہت سے بنتے کام بھی بگڑ جاتے ہیں اور ہم بے بسی سے تماشا دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ جب ہم ناخوشگوار یادوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں تو ہر معاملے میں صرف تاریک پہلو دیکھنے اور ناموافق نتائج کے بارے میں سوچنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ یہ روش اگر تادیر اپنائی جائے یعنی اس پر گامزن رہنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے تو کامیابی کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہی نصیب نہیں ہوتی۔ بھرپور کامیابی کے بارے میں پورے انہماک سے سوچنا پڑتا ہے۔ سوچے بغیر ہم کوئی بھی عمل پوری توجہ اور دیانت سے انجام تک نہیں پہنچا سکتے۔
کوئی بھی ناخوشگوار یاد دراصل واجبات میں سے ہوتی ہے اب یہ طے کرنا ہمارا کام ہے کہ ان واجبات کو یک مشت ادا کر دیا جائے یا زندگی بھر کسی نہ کسی شکل میں بھگتان جاری رکھا جائے۔ بہتر تو یہ ہے کہ ہم یک مشت ادائیگی کے ذریعے اِن واجبات سے نجات حاصل کرلیں۔ اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم یہ طے کر لیں کہ زندگی کے ہر معاملے میں صرف مثبت سوچیں گے اور کبھی کسی کے بارے میں نامعقول انداز سے یا بلا جواز طور پر کوئی بھی حتمی رائے قائم نہیں کریں گے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ذہن کو منفی سوچ کے دائرے سے نکال کر مثبت فکر کی راہ پر ڈالنا خاصا دشوار مرحلہ ہے۔ اس مرحلے سے بخوبی گزرنے کیلئے انسان کو بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایثار اور قربانی ہی مثبت سوچ کی بنیاد ہے۔ تمام منفی اثرات کی حامل اور ناخوشگوار باتوں اور یادوں سے گلو خلاصی کیلئے لازم ہے کہ ہم ان کے بارے میں سوچنا ہی ترک کردیں۔ اس معاملے میں ہمیں ایسے ارادے کی ضرورت پڑتی ہے جس میں کوئی خامی اور کمزوری نہ ہو۔
جب ہم یہ طے کرلیتے ہیں کہ ناخوشگوار اور تلخ یادوں کو زندگی کا حصہ نہیں بننے دیں گے تب ہم میں کچھ کرنے کی لگن اورکچھ کر دکھانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس مرحلے سے کامیابی کے ساتھ گزرنے ہی پر ہم کامیابی کی طرف بڑھتے پاتے ہیں۔
کبھی اس بات پر آپ نے غور کیا ہے کہ بہت سی تلخ اور رنجیدہ کرنے والی باتیں ہمارے ذہن سے کیوں نہیں نکلتیں؟ اس لیے کہ ہم انہیں نکالنا نہیں چاہتے! جب بھی ہم کسی معاملے میں الجھن کا شکار ہوتے ہیں تب کچھ دیر کیلئے ناخوشگوار یادوں کا سہارا لیتے ہیں۔ ایسی حالت میں ذہن آپ کو بے قصور قرار دینے پر خاص توجہ دیتا ہے۔ اپنے آپ کو بے قصور سمجھنا آپ کو بہت اچھا لگتا ہے۔ ساری دنیا آپ کے خلاف گواہی دے رہی ہو اور تمام شواہد (یا ثبوت) بھی آپ کے خلاف جاتے ہوں تب بھی آپ اپنے تئیں بے قصور گردانتے رہتے ہیں۔ اگر آپ واقعی ایسا کرتے ہیں تو بات حیرت کی ہے نہ افسوس کی۔ یہ سب کچھ انسانی فطرت کے مطابق ہے۔ کم ہی لوگ اپنا احتساب کرکے سزا کیلئے ذہنی طور پر تیار ہو پاتے ہیں۔
سبھی اپنی نظر میں یکسر بے قصور بلکہ انتہائی معصوم ہوتے ہیں۔ اس مرحلے سے کامیاب گزرنے والے کم ہوتے ہیں۔ جو لوگ یہ گمان کرتے ہیںکہ ان سے کبھی غلطی سرزد ہو ہی نہیں سکتی اور دنیا نے ان کے ساتھ بُرا کیا ہے وہ ہمیشہ تعداد میں دوسروں سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ آپ کو ''بغاوت‘‘ کرنی ہے۔ آپ کو طے کرنا ہے کہ اپنی غلطی ہو تو قبول کرنے اور معقول حد تک نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
ہم اپنی بہت سی شدید ناخوشگوار یادوں کوجان بوجھ کر ذہن میں تازہ رکھتے ہیں کیونکہ اپنی آپ کو بے قصور قرار دینے اور اپنی پریشانیوں اور ناکامیوں کیلئے دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے سے دل کو بہت سکون ملتا ہے۔ ناخوشگوار یادوں کا بنیادی استحاق صرف اور صرف یہ ہے کہ انہیں ترک کردیا جائے، بھلا دیا جائے۔ اگر ہم جھوٹی تسکین کی خاطر اور انا کو پروان چڑھانے کیلئے چند تلخ باتوں کو یاد رکھیں گے تو اپنے لیے صرف ناکامی کی راہ ہموار کرتے رہیں گے۔ جب ہم ماضی کی تلخ اور ناخوشگوار باتوں میں الجھے ہوئے رہتے ہیں تب ذہن کے لیے صلاحیت اور سکت کے مطابق کام کرنے کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے۔ ایسی حالت میں مثبت تصورات مشکل سے جنم لیتے ہیں اور ہم رات دن از کار رفتہ باتوں میں الجھتے رہتے ہیں۔
یہی روش ہمیں تعمیری فکر اور بہتر زندگی کی تیاری سے دور لے جاتی ہے۔ ماضی میں جو کچھ بھی ہوا اور آپ کے ذہن میں جو کچھ بھی تلخ یادوں کی شکل میں ہے اُسے بھول جائیے۔ اگر کسی ناخوشگوار بات کیلئے آپ قصور وار ہوں تب بھی اُسے بھول جانا بہتر ہے۔ اور اگر آپ قصور وار نہیں ہیں تو پھر یاد رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟