کم و بیش ایک ماہ سے کراچی میں پاکستان سُپر لیگ کا فائنل منعقد کرنے کے حوالے سے غیر معمولی سرگرمیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ آخری دس بارہ دنوں میں اِن سرگرمیوں نے خاصی گرما گرمی پیدا کر دی تھی۔ صوبائی حکومت اور کئی وفاقی ادارے پی ایس ایل فائنل کا انعقاد کامیاب بنانے کے لیے انتہائی پرجوش اور سرگرم تھے۔ دو ہفتوں سے شہرِ قائد کا رنگ ہی کچھ اور تھا۔ اتوار کو فائنل کے دن جب کرکٹ کی بارات چڑھی تو سورج بھی جوش و خروش اور جاہ و جلال کے گھوڑے پر سوار، لُو کے تھپیڑوں کا سہرا باندھے میدان میں آ گیا۔ دن بھر شدید تپش رہی اور کہیں کہیں شدید حبس بھی رہا۔ صد شکر کہ ہیٹ سٹروک کی حالت پیدا نہیں ہوئی۔
کراچی ایک بڑی آزمائش میں سرخرو ہوا۔ پی ایس ایل کا فائنل کسی معمولی سے ناخوشگوار واقعے کے بغیر منعقد ہوا۔ بے داغ انتظامات نے شہر اور ملک دونوں کی لاج رکھ لی۔ خیر، محنت بھی بہت کی گئی تھی۔ فائنل کے بعد گرمی کی لہر سی آ گئی ہے۔ اتوار کو لوگ عش عش کر اٹھے تھے۔ پیر کو کراچی میں ایسی گرمی پڑی کہ اہلِ کراچی ''العطش العطش‘‘ کر اٹھے! مارچ ابھی ختم نہیں ہوا مگر گرمی نے اپنا لانگ مارچ شروع کر دیا ہے۔ گرمی کے باضابطہ مہینوں کی آمد میں تو ابھی وقت ہے۔ گویا گرمی نے ''پری پول رِگنگ‘‘ شروع کردی ہے! رواں ماہ کے اوائل اور وسط میں بھی خاصی خنکی رہی۔ لوگ سوچ رہے تھے کہ کم از کم مارچ کے دوران تو گرمی کا لانگ مارچ شروع نہیں ہوگا مگر صاحب، موسم کیا ہماری مرضی جاننے اور اُس کے مطابق چلنے کا مکلّف ہے؟ اور وہ بھی کراچی کا موسم! یہ تو اللہ دے اور بندہ لے والا معاملہ ہے۔
کراچی میں موسم اِتنی تیزی سے تبدیل ہوتا ہے کہ مجموعی کیفیت موثر طریقے سے بیان کرنے کے لیے اِس خوبصورت مصرع کا سہارا لینا پڑتا ہے ع
جنابِ شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی!
فضا میں خنکی برقرار تھی۔ لوگ محظوظ ہو رہے تھے۔ خیال تھا کہ یہ سہانا موسم ابھی ایک آدھ ہفتہ چلے گا۔ مگر اہلِ کراچی کی اِس چھوٹی سی خوشی کو بھی کسی کی نظر لگ گئی۔ ایک ہی دن میں موسم نے ایسا پلٹا کھایا کہ ؎
کل چمن تھا، آج اِک صحرا ہوا
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کیا ہوا
والی کیفیت پیدا ہوگئی۔ لوگ شدید گرمی کے وارد ہونے پر پریشان بعد میں ہوئے، پہلے تو حیران ہوئے کہ یہ موسم کو اچانک ہوا کیا ہے۔ اور سورج کو کس نے چھیڑا ہے کہ وہ آنکھیں دکھانے پر تُل گیا ہے! جس نے شدید گرمی سے بیزار ہوکر سُورج کی طرف شکایت بھرے انداز سے دیکھا اُسے یہی جواب ملا ؎
ابتدائے عشق ہے، روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
پی ایس ایل فائنل کی تیاریوں نے ایک خاص حد تک شہر کی تقدیر بدل ڈالی ہے۔ کئی علاقے اب تک چمک رہے ہیں۔ کئی کلومیٹر تک سڑکوں کو مرمت اور تزئین و آرائش کے مرحلے سے یوں گزارا گیا کہ گزرنے والے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے حیران و پریشان ہو اٹھتے تھے کہ ؎
یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا
کراچی میں جب بھی تزئین و آرائش کا وقت آتا ہے اور وفاقی یا صوبائی حکومت جیب تھوڑی سی ڈھیلی کر کے اہلِ شہر پر مہربانی فرماتی ہے تب سب خواب سا دکھائی دینے لگتا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے اُسے دیکھ کر اپنی ہی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ ایسے ہر موقع پر کرشن بہاری نورؔ یاد آئے بغیر نہیں رہتے۔ ؎
اُس تشنہ لب کی نیند نہ ٹوٹے خدا کرے
جس تشنہ لب کو خواب میں دریا دکھائی دے
پی ایس ایل فائنل کے لیے کراچی کو جس قدر سجایا اور سنوارا گیا تھا اُس کے نتیجے میں شہر میں لاکھوں کے کلیجے ٹھنڈے ہوئے مگر ابھی کلیجوں کی ٹھنڈک کا زمانہ چل ہی رہا تھا کہ گرمی کی لہر نے پنجہ مار دیا۔ اور پنجہ بھی ایسا مارا ہے کہ ساری بچی کھچی ٹھنڈک کا چہرہ لہولہان ہو گیا ہے!
قدرت کی بخشی ہوئی گرمی سے پہلے کراچی میں کرکٹ کی گرمی آئی اور کرکٹ کی گرمی کے رخصت ہوتے ہی قدرتی گرمی کے ساتھ سیاست کی گرما گرمی نے بھی حال پوچھنا شروع کر دیا ہے۔ ایم کیو ایم بہادر آباد اور ایم کیو ایم پی آئی بی کالونی میں تو آنیاں جانیاں نہ لگ سکیں مگر ہاں، الیکشن کمیشن نے ضرور فریقین کو بلا کر فیصلہ سنا دیا۔ شدید گرمی کی لہر میں الیکشن کمیشن نے ڈاکٹر فاروق ستار کو اچھی خاصی سیاسی ہیٹ ویو کے سامنے کھڑا کر دیا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ مارچ کے آخری ایام میں ہیٹ سٹروک بھلے ہی نہ آیا ہو، ایم کیو ایم پی آئی بی ضرور ہیٹ سٹروک کی زد میں ہے! یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ اب کے عام انتخابات بھی شدید گرمیوں ہی میں آ رہے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران شدید گرمی ہو گی جو سیاسی گرما گرمی کے ساتھ مل کر قوم کو مزید بے دم کرنے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ رمضان، عید الفطر اور عید الاضحی بھی گرمیوں میں گزریں گی اور انتخابی مہم چلانے والوں کو بھی لگ پتا جائے گا۔ شدید گرمی میں جلسے سیاسی رہنماؤں اور اُن سے محبت کرنے والوں کا یکساں امتحان لیں گے۔ محسنؔ بھوپالی نے کہا ہے ؎
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دِیے میں جان ہو گی وہ دِیا رہ جائے گا
اب کے انتخابی موسم کے ہاتھوں بھی کچھ ایسا ہی ماحول پیدا ہو گا۔ کم و بیش ساڑھے چار برس کے دوران سیاسی سطح پر جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ کسی بھی معاملے کو توضیح کی طرف کم اور ابہام کی طرف زیادہ لے جانے کا باعث بنا۔ کارکردگی کے دعوے کیے گئے سو بے بنیاد اور مخالفت کی ٹھانی گئی تو بلا جواز۔ موسم کی گرمی سے نمٹئے گا تو وعدوں اور دعووں کی تپش آپ کو چین سے رہنے نہیں دے گی۔ جس موسم میں پینے کے صاف اور ٹھنڈے پانی کو لوگ ترستے ہیں اُسی موسم میں روزے رکھ کر سیاست دانوں کی گرم بیانی کے کڑوے گھونٹ بھی پینا پڑیں گے۔ اگر ان تمام مراحل سے گزرنے کے باوجود بچ گئے تو اپنی مرضی کی حکومت منتخب کرنے کے ڈرامے میں چھوٹا سا کردار بھی ادا کر لیا جائے گا۔ مینڈیٹ کی منزل قریب ہے مگر دور دکھائی دے رہی ہے۔ یہ فریبِ نظر صرف سیاست تک محدود نہیں۔ اور بھی بہت کچھ ہے جو ایسی ہی بصری الجھن کا باعث بن رہا ہے۔ مگر کیا کیجیے کہ اِن تمام معاملات کے ریلے کے ساتھ بہتے بہتے ہی ہم سب کو یہ دریا پار کرنا ہے۔
گرمی کی پہلی بڑی لہر نے کراچی کو گلے لگاکر تمام متعلقہ اداروں کو پیغام دے دیا ہے کہ کمر کس لو۔ اگر موسمِ گرما کا خیر مقدم کرنے میں ڈھیل برتی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ مگر خیر، اداروں کا کا کیا بگڑنا ہے؟ زبردست کا ٹھینگا سَر پر کے مِصداق گھوم پھر کر بات پہنچے گی عوام تک اور اُن بے چاروں ہی کو سب کچھ جھیلنا پڑے گا۔ اگر تمام متعلقہ اداروں کو کچھ خیال آ جائے اور وہ عوام کو ممکنہ ہیٹ سٹروک سے بچانے کے ساتھ ساتھ شدید موسم میں پانی اور بجلی جیسی سہولت سے ہمکنار رکھنے پر متوجہ ہوں تو اِسے ماہِ صیام کی برکت سمجھ کر قبول کیجیے گا۔