"MIK" (space) message & send to 7575

خود پرستی نہیں چلے گی

دنیا کا ہر انسان کسی اور مرض میں مبتلا ہو یا نہ ہو، ایک مرض اُسے لاحق ہوکر رہتا ہے۔ اِسے ہم خود پرستی کے نام سے جانتے ہیں۔ ذرا بہتر انداز سے بیان کیجیے تو یہ عارضہ یا رجحان ''نرگسیت‘‘ کہلائے گا۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اُس کے حصے میں دنیا بھر کی نعمتیں آئیں، خواہ کسی کو کچھ ملے نہ ملے۔ خود غرضی کی حد تک خود پرستی میں مبتلا ہونے کی حالت میں انسان چاہتا ہے کہ اُسے تو بہت کچھ ملے مگر دوسروں کو وہ سب کچھ حاصل نہ ہو جو اُسے ملا ہے۔ یہی سوچ خرابیوں کی جڑ ہے۔ 
ہم میں سے کون ہے جو اپنے تمام مفادات کا تحفظ یقینی نہیں بنانا چاہتا؟ مگر کیا اِس کے لیے لازم ہے کہ دوسروں کا بھلا نہ سوچا جائے یا اُن کا بُرا ہی سوچا جائے؟ نفسیات اور عمرانیات کے ماہرین خود پسندی کو ایک خاص حد تک ضروری بھی قرار دیتے ہیں۔ اُن کی رائے یہ ہے کہ انسان اگر ایک خاص حد تک خود پسند ہو تو اپنے لیے زیادہ سے زیادہ بھلا سوچے گا اور اُسے یقینی بنانے کی طرف مائل بھی ہوگا۔ اس نکتے میں دانش ہے۔ انسان کو ایک خاص حد تک خود پسند ہونا ہی چاہیے۔ خود پسندی نہ ہو تو انسان کبھی اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے اور ذاتی ارتقاء کو حقیقت کا رنگ دینے کے بارے میں کبھی نہ سوچے۔ خود پسندی ہی انسان کو کسی حد تک عمل کی طرف لے جاتی ہے۔ 
خود پرستی جب معقولیت کی حدود سے نکل کر خود پرستی کے دائرے میں داخل ہوتی ہے تب انسان دوسروں کے لیے ناقابل قبول ہونے کی طرف بڑھتا ہے۔ خود پرستی حد سے گزرتی ہے تو انسان کو صرف مفاد پرست بناتی ہے۔ مفاد پرست انسان کسی کو اچھا نہیں لگتا۔ دنیا کے ہر انسان کو حق ہے کہ اپنے مفاد کے بارے میں سوچے اور جو سوچے اُسے عملی جامہ بھی پہنائے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوسروں کے مفاد کو کسی بھی حال میں اہمیت نہ دی جائے۔ سبھی اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ ان کے مفاد کا سوچا جائے۔ اگر آپ صرف اپنے مفاد کا سوچیں گے تو لوگوں کے لیے زیادہ قابل قبول نہیں ہوں گے۔ اب یہ تو آپ کو طے کرنا ہے کہ آپ دوسروں کے لیے قابل قبول ہونا پسند کریں گے یا محض اپنے مفادات کے بارے میں سوچ سوچ کر دوسروں کے لیے ناقابل قبول ہونے کی راہ پر آگے بڑھیں گے۔ 
خود پسندی کا وصف معقولیت کے دائرے میں رہے تو انسان کو حقیقت پسندی کی طرف لے جاتا ہے اور عمل نواز رویے کو پروان چڑھاتا ہے۔ اپنے وجود کو اہمیت دیئے بغیر دنیا میں کوئی بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ انسان کے لیے لازم ہے کہ اپنے وجود کو اہمیت دے، اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھائے اور اپنی سکت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ یقینی بنائے۔ آگے بڑھنے، کچھ کر دکھانے اور کچھ بن کے دکھانے کا یہی معروف و معقول ترین طریقہ ہے۔ خود پسندی انسان کو اپنی نظر میں بلند کرتی ہے اور وہ کچھ کرنے کا عزم اپنے اندر پاتا ہے۔ آگے بڑھنے کی تحریک اُسی وقت ملتی ہے جب انسان اپنے وجود کو زیادہ اہمیت دیتا ہو اور کچھ کرنے کے لیے بے تاب و بے قرار رہتا ہو۔ ہاں، خود پسندی جب خود پرستی میں تبدیل ہوتی ہے تب انسان دوسروں کو غیر اہم گرداننے لگتا ہے۔ کوئی بھی اس بات کو پسند کرتا ہے نہ ہضم کرسکتا ہے کہ اُسے غیر اہم یا کم اہم گردانا جائے۔ جب کوئی خود پرستی میں مبتلا ہو تو دوسروں کو اہمیت دینے کے معاملے میں تساہل برتتا ہے تو یہ عمل اُسے دوسروں کی نظر میں گراتا ہے۔ 
انسان نجی زندگی اور کاروباری یا پیشہ ورانہ معاملات میں بہت کچھ ایسا کرتا ہے جس کے بارے میں وہ دوسروں کو کچھ بتانا چاہتا ہے۔ فی زمانہ اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ انسان اپنا راگ کس طور الاپتا ہے۔ سبھی اپنی اپنی ڈفلی پر اپنا اپنا راگ الاپتے ہیں۔ اگر آپ بھی ایسا کر رہے ہیں تو اس میں کچھ غلط ہے نہ یہ حیرت ہی کی بات ہے۔ کاروباری دنیا میں اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ اپنی کامیابیوں کو دنیا کے سامنے کس طور پیش کیا جائے۔ بیشتر کاروباری ادارے اپنی کامیابیوں کو بڑھا چڑھاکر بیان کرتے ہیں۔ بہت سے پروفیشنلز بھی اپنی کارکردگی کے نتائج کو اس طور بیان کرتے ہیں جیسے اُن کے مقابلے پر دنیا میں کوئی بھی نہ ہو۔ اپنی کامیابیوں کا ڈھول پیٹنا بُری بات نہیں مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جائے، اُن کی کامیابیوں کو تسلیم ہی نہ کیا جائے یا اُنہیں کسی گنتی میں نہ رکھا جائے۔ سبھی یہ چاہتے ہیں کہ اُن کی کامیابیوں اور خوبیوں کو تسلیم کیا جائے، اُنہیں سراہا جائے، اہمیت دی جائے۔ جب ہم ایسا نہیں کرتے تو دوسروں کی نظر میں ہماری بھی وہ اہمیت باقی نہیں رہتی جو رہنی چاہیے۔ یہ معاملہ اِس ہاتھ دے، اُس ہاتھ لے والا ہے۔ ہم جس قدر اہمیت دوسروں کو دیں گے اُسی قدر اہم ہمیں بھی گردانا جائے گا۔ 
خود پسندی حد سے گزرے تو انسان کو ترقی کی راہ سے ہٹاکر ترقیٔ معکوس کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ مرض انسان کو دوسروں سے دور کرتا ہے اس لیے نفسیات اور عمرانیات کے ماہرین اِس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ دوسروں کو قبول کرنے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جانی چاہیے۔ دوسروں کے لیے قبولیت کی راہ اُسی وقت ہموار ہوسکتی ہے جب انسان خود پسندی کے دائرے سے نکلے، دوسروں کے بارے میں مثبت سوچے، اُن کی خوبیوں اور خامیوں کا تجزیہ کرے، خوبیوں کو تسلیم کرے اور خامیوں پر خواہ مخواہ تنقید کرنے کے بجائے معقول طریقے سے اغلاط یا کوتاہیوں کی نشاندہی کرے۔ جب دوسروں کو اُن کی کامیابیوں پر سراہا جائے گا اور اغلاط پر ٹوکنے کا انداز اختیار کرنے کے بجائے شائستہ طریق اختیار کیا جائے گا تو انسان دوسروں کے لیے زیادہ قابل قبول ٹھہرے گا۔ اپنی بات کہنے اور دوسروں کی نظر میں زیادہ محترم ٹھہرنے کا یہی ایک معقول طریق ہے۔ جو لوگ خود پسندی کے دائرے میں گھومتے رہتے ہیں اور بالآخر خود پرستی کی منزل پر پہنچتے ہیں وہ اپنے وجود کو ناپسندیدہ قرار دینے والوں کی تعداد میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ 
خود پسندی ضرور چلے گی مگر حد سے زیادہ خود پسندی ہرگز نہیں چلے گی۔ خود پسندی کی راہ پر چلتے چلتے آپ کو اتنی دور نہیں نکل جانا چاہیے کہ دوسرے بہت پیچھے رہ جائیں اور آپ کو دکھائی ہی نہ دیں۔ ہم جس دنیا کا حصہ ہیں اُس میں سبھی کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں، کچھ نہ کچھ کرکے دکھانا چاہتے ہیں۔ سبھی چاہتے ہیں کہ انہیں بھی تسلیم اور قبول کیا جائے۔ اگر آپ صرف اپنے وجود کو غیر معمولی اہمیت دیتے رہیں گے اور دوسروں کو قبول کرنے میں تساہل کا مظاہرہ کریں گے تو اپنی ہی راہ میں دیواریں کھڑی کرتے جائیں گے۔ لازم ہے کہ آپ دوسروں کو بھی اپنائیں، اُن کے لیے بھی پسندیدگی کا اظہار کریں، ان کی صلاحیتوں کو بھی تسلیم کریں، انہیں سراہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں