عام انتخابات سر پر ہیں اور کراچی کی سب سے بڑی سمجھی جانے والی قوت بند گلی میں کھڑی ہے، بلکہ پڑی ہے۔ تین عشروں تک کراچی کے مینڈیٹ کی حامل رہنے والی تنظیم پر ''وختا‘‘ آن پڑا ہے۔ جو لوگ ''بلا شرکتِ غیرے‘‘ مینڈیٹ سے ''ہم کنار‘‘ تھے اُن کی کشتی کنارے سے لگ چکی ہے اور اندرونی بحران ہے کہ بحرِ ناپیدا کنار ہوا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم کا بہت کچھ ہے جو اندرونی اختلافات کے سمندر میں غرق ہوچکا ہے اور مزید بہت کچھ ہے جو غرق ہو رہا ہے۔ اِس منہ زور سمندر کے آگے بھلا کون بند باندھے؟ کچھ لوگ اختلافات مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر یہ کام اُن کے بس کا ہے نہیں۔ یہی سبب ہے کہ بیل منڈھے نہیں چڑھ رہی، دال گلنے کا نام نہیں لے رہی۔
ایم کیو ایم خود کو کراچی کی سب سے بڑی، بلکہ واحد اسٹیک ہولڈر کہتی آئی ہے۔ ملنے والے مینڈیٹ کی بنیاد پر یہ بات حقیقت سے بہت دور بھی نہیں۔ مگر ''اسٹیکز‘‘ سے بھی تو کچھ پوچھیے۔ کراچی کے ووٹرز شدید شش و پنج میں مبتلا ہیں۔ وہ اب تک سمجھ نہیں پارہے کہ کس طرف جائیں، کسے حمایت سے نوازیں۔ بلا شرکتِ غیرے شہر کا مینڈیٹ رکھنے والی تنظیم کے حصے بخرے ہوچکے ہیں۔ جب دیکھنے والوں کی حیرت ختم نہیں ہو رہی تو ذرا سوچیے کہ جن پر یہ بیتی ہے اُن کا کیا حال ہوا ہوگا۔
ناقدین جل بُھن کر اور تجزیہ کار حقائق کی روشنی میں کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کا تنظیمی ڈھانچا جس نوعیت کا تھا اُس میں یہ سب کچھ تو ہونا ہی تھا۔ کہنے کو تنظیم بہت مضبوط تھی۔ اُس میں استحکام تھا مگر یہ سب کچھ بہت حد تک محض ''التباسِ نظر‘‘ کے سوا کچھ نہ تھا۔ جو کچھ دکھائی دے رہا تھا وہ نہیں تھا اور جو کچھ کسی کی نظر میں نہ تھا وہ سامنے آیا۔ انتشار ایک زمانے سے تھا مگر دبا ہوا تھا۔ اختلافات کو بھی مصلحتوں نے داب رکھا تھا۔ بگڑے ہوئے معاملات کسی کو دکھائی نہ دیتے تھے۔ زندگی کا کوئی بھی معاملہ ون مین شو کی بنیاد پر نہیں چل سکتا۔ کسی بھی ادارے، تنظیم یا جماعت میں چند افراد نمایاں ہوتے ہیں اور کسی ایک کو باضابطہ قائد کا درجہ بھی حاصل ہوتا ہے مگر کامیابی ٹیم ورک کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ کوئی بھی ٹیم محض کپتان کے بل پر نہیں جیتتی۔ کوئی بھی فلم محض ہیرو کی کوششوں سے ہٹ یا سپر ہٹ نہیں ہوتی۔ سیاسی تنظیموں اور جماعتوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ سب کچھ نہ کچھ کرتے ہیں تب ہی کوئی بڑا نتیجہ سامنے آتا ہے۔ ایم کیو ایم کی بدنصیبی یہ رہی ہے کہ اُسے چند افراد نے دبوچ رکھا تھا اور یہ چند افراد ایک فرد کی مٹھی میں تھے۔ فیصلے دکھاوے کے طور پر تو اجتماعی ہوا کرتے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ فردِ واحد کی مرضی چلتی تھی تو تنظیم کا دھندا چلتا تھا۔ جب وہ روٹھتا تھا تو دکان بند ہونے لگتی تھی۔
جب تک ایم کیو ایم الطاف حسین کے ہاتھ میں تھی کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ کسی بھی معاملے میں چُوں، چَرا کرسکے۔ کہنے کو غیر معمولی ڈسپلن تھا مگر یہ سب کچھ مصنوعی تھا کیونکہ خوف کی فضاء کا پیدا کردہ تھا۔ ایسے ڈسپلن سے کوئی بھی تنظیم یا جماعت چلائی نہیں جاسکتی۔ جو کچھ چلتا ہوا دکھائی دیتا ہے وہ بھی دراصل رکا ہوا ہی ہوتا ہے۔ ایم کیو ایم تین عشروں سے چلائی جارہی تھی مگر در حقیقت یہ تنظیم رکی ہوئی تھی، بند گلی میں کھڑی تھی۔ صورتِ حال بدلی تو پردے بھی ہٹے اور سب کچھ سامنے آگیا۔ تنظیم کو چلانے کے نام پر جو سختی برتی جاتی رہی اور جو انتہائی غیر لچک دار رویہ اپنایا گیا اُس کا منطقی نتیجہ وہی نکل سکتا تھا جو نکلا۔ بند گلی بہر حال بند گلی ہوتی ہے، اُس کی ایک حد ضرور ہوتی ہے۔ یہاں معاملہ ہے کہ بند گلی پیچھے کی طرف وسعت سے ہم کنار ہوتی جارہی ہے!
ابتداء میں کچھ لوگ مخلص ضرور ہوں گے مگر اُنہیں بہت جلد سائڈ لائن کردیا گیا۔ اِس کے بعد کم و بیش ڈھائی عشروں سے ایم کیو ایم کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ معاملہ کھانے پینے سے شروع ہوکر کھانے پینے پر ختم ہوتا رہا ہے۔ حکومتوں کا حصہ بن کر بھی تنظیم کراچی اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں کے مسائل حل کرانے میں ناکام رہی۔ یا پھر یوں کہیے کہ ایسا کرنا اُس کی ترجیحات میں شامل ہی نہ تھا۔ اجتماعی مفاد نے انفرادی مفادات کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے۔ لوگ اپنی اپنی جیب بھرنے میں لگ گئے۔ اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ بہت سے معاملات بھرے ہوئے گٹر کی طرح تھے جن پر بھاری ڈھکن رکھ دیئے تھے۔ جب حالات نے یہ ڈھکن ہٹائے تو ساری گند ابھر کر، امڈ کر سامنے آگئی۔
ایم کیو ایم جیسی بڑی تنظیم کا یہ انجام ہوگا، یہ تو کسی نے سوچا ہی نہ ہوگا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ الطاف حسین ہی کی ''ہنر مندی‘‘ تھی کہ کوزے میں سمندر بند کر رکھا تھا۔ دیانت اور سنجیدگی سے غور کیجیے تو یہ ہنر مندی سے زیادہ ستم ظریفی تھی۔ اردو بولنے والوں کے سیاسی و معاشی مفادات کا تحفظ اگر واقعی ترجیحات میں شامل ہوتا تو ایم کیو ایم کو کبھی مافیا کے سے انداز سے نہ چلایا گیا ہوتا۔ آج ایم کیو ایم سے وابستہ بہت سے لوگ چاہتے ہوں گے کہ حقیقی سیاسی جماعت کا انداز اپنایا جائے مگر وہ بے بس ہیں کیونکہ تنظیم کا بنیادی ڈھانچا ہی جبر اور خوف کی بنیاد پر استوار ہے۔ تنظیم کا مجموعی کلچر اب تک دھونس دھمکی ہے۔ جنہیں حالات کی سختی اور زمینی حقیقتوں نے اپنا اصل چہرہ دکھایا ہے وہ بھی اب تک اپنی اکڑ سے جان نہیں چھڑا پائے ہیں۔
خیر، جس طور عرصے سے دبی ہوئی پراپرٹی کو تقسیم کرنے کی راہ ہموار ہونے پر بندر بانٹ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے بالکل اُسی طور کراچی کا مینڈیٹ رکھنے والی جماعت کی بھی بندر بانٹ ہو رہی ہے۔ مہاجر قومی موومنٹ اور پاک سرزمین پارٹی کے بعد یہ تنظیم اب ایم کیو ایم لندن، ایم کیو ایم پاکستان (بہادر آباد) اور ایم کیو پاکستان (پی آئی بی کالونی) میں تقسیم ہوچکی ہے۔ الیکشن کمیشن نے ایم کیو ایم بہادر آباد کو ایم کیو ایم پاکستان تسلیم کرلیا ہے۔ یہ گویا ایک نئے تنازع کا نقطۂ آغاز ہے۔ ایک پلیٹ فارم پر آنے کی راہ مسدود سے مسدود تر ہوتی جاتی ہے۔
کراچی کا مینڈیٹ پانے کے معاملے میں سب کی رال ٹپک رہی ہے۔ سیاسی شعبدے باز لنگوٹ کس کر میدان میں آگئے ہیں۔ جس میں ذرا بھی قوت ہے وہ جھپٹّا مار کر بہت کچھ غصب کرلینا چاہتا ہے۔ اب اصل آزمائش ایم کیو ایم سے کہیں بڑھ کر سندھ کے شہری علاقوں میں بسنے والوں کی ہے کہ وہ اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے سنجیدہ لوگوں کو کس طور پہچان پاتے ہیں۔ کراچی میں اردو بولنے والوں کا مینڈیٹ شکست و ریخت کے عمل سے گزرے گا تو خرابیاں کم نہیں ہوں گی، بڑھیں گی۔ منتخب ایوانوں میں آواز اٹھانا مزید دشوار ہو جائے گا۔ بلدیاتی الیکشن ایم کیو ایم کے لیے تاحال آخری مینڈیٹ ثابت ہوا ہے۔ عوام نے نتیجہ دیکھ لیا ہے۔ اب اُنہیں تمام معاملات پر نظررکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہے۔ اہلِ کراچی کو ہر طرح کے غیر ضروری tag سے آزاد ہوکر پوری دیانت سے اُنہیں منتخب کرنا ہے جو سنجیدہ بھی ہوں اور درد مند دل بھی رکھتے ہوں۔ مینڈیٹ ذمہ داری ہے، اِسے گلے میں پھنسنے والی ہڈی میں تبدیل نہ کیا جائے۔