ہم میں سے کون ہے جو ناکامی سے دوچار نہیں ہوتا؟ بہت سوں کو تو یومیہ بنیاد پر ناکامی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ناکامی ایسا تجربہ ہے جسے کوئی بھی پسند نہیں کرتا اور اس سے بچنا چاہتا ہے۔ چارلس مینز نے ''دی پاور آف فیلیر‘‘ میں ناکامی کو ایک خاص زاویے سے دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ چارلس مینز کا استدلال ہے کہ ناکامی لازمی طور پر منفی اثرات کی حامل نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی ناکامی ہمارے لیے چیلنج کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ اگر ہم مایوس ہوکر ایک طرف بیٹھ رہنے کے بجائے محنت کریں تو ناکامی ہی کے بطن سے ہمارے لیے کامیابی ہویدا ہوتی ہے۔
بیشتر افراد ناکامی کو لازمی طور پر مایوسی پیدا کرنے اور دل برداشتہ کرنے والی حقیقت سمجھ کر ٹھکراتے ہیں۔ ہر ناکامی ایسی نہیں ہوتی۔ بیشتر ناکامیاں ایسی ہوتی ہیں جن پر غور کرنے سے کامیابی کی راہ سوجھتی ہے۔ جو لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ کسی بھی ناکامی سے بددل نہیں ہوتے بلکہ کامیاب ہونے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ اس دنیا میں کوئی ایک بھی کامیاب شخص ایسا نہیں جس نے ناکامی کا مزا نہ چکھا ہو۔ ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ ناکامی اپنے ساتھ کامیابی بھی لاتی ہے۔ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کی بھرپور کوشش کرنے والے کبھی ناکامی سے بددل نہیں ہوتے۔
اگر ہم پائیدار ترقی یا کامیابی چاہتے ہیں تو ناکامیوں کا احسان مند ہونا پڑے گا یعنی ان سے بہت کچھ سیکھنا پڑے گا۔ جو لوگ ناکامی سے گھبراتے ہیں ان کے خیالات منتشر رہتے ہیں اور وہ کبھی کامل یک سُوئی کے ساتھ کوئی کام نہیں کر پاتے۔ ناکامی سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا جذبہ رکھنے والوں کو بہتر انداز سے کام کرنے کی تحریک ملتی ہے اور وہ اپنی کارکردگی کا گراف بلند کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ کوئی بھی ناکامی خطرناک شکل اس وقت اختیار کرتی ہے جب ہم اس سے کچھ سیکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے میں ہم پر وحشت سوار ہو جاتی ہے اور ہم ڈھنگ سے سوچنے کے قابل بھی نہیں رہتے۔ کوئی بھی ناکامی اتنی خطرناک نہیں ہوتی کہ ہم سے سبھی کچھ چھین لے۔ ہر ناکامی چند ایک مثبت اثرات بھی ساتھ لاتی ہے۔ ان مثبت اثرات کو کشید کرنا ہمارا کام ہے۔ ہماری سوچ اور رویے پر اگر منفی خیالات اثر انداز ہونے لگیں تو صرف وحشت بڑھتی ہے۔ ایسے میں بے حواسی کا پیدا ہونا بھی فطری امر ہے۔ کوئی بھی ناکامی ہمارے لیے کچھ کر دکھانے کا محرک بھی بن سکتی ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہم معاملات کو دوسروں کی نظر سے دیکھنے کے بجائے اپنی نظر سے دیکھیں۔
ہم جیسا سوچتے ہیں ویسے ہی بن جاتے ہیں۔ ہماری سوچ ہی ہماری تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ ہم سوچیں کچھ اور کریں کچھ۔ جو لوگ ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے حصے میں ناکامی اور مایوسی آتی ہے۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگ ذرا سی ناکامی یا پریشانی سے بددل ہوکر محنت ترک کردیتے ہیں اور دوسروں ہی کی طرح یعنی معمول کے مطابق بے دلی کے ساتھ جینا شروع کردیتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ لوگ اپنے اندر پوشیدہ قوت کو جانتے ہیں نہ پہچانتے ہیں۔ بھری دنیا میں کوئی ایک بھی کامیاب انسان ایسا نہیں جس نے ناکامی کا منہ نہ دیکھا ہو۔ ناکامی ہی انسان کو کامیابی کا ہنر سکھاتی ہے۔ ہمیں ہر شعبے میں ایسے لوگ ملیں گے جو زیرو سے ہیرو بنے ہیں۔
ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں ہر طرح کے حالات پائے جاتے ہیں۔ جتنے مواقع ہیں اتنی ہی مشکلات بھی ہیں اور جتنی مشکلات ہیں اتنے ہی مواقع بھی ہیں۔ اگر کسی کو بھرپور کامیابی یقینی بنانی ہے تو ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔ آج کی دنیا میں مقابلہ سخت ہے۔ جو لوگ بھرپور کامیابی چاہتے ہیں انہیں کارکردگی کا گراف بلند کرتے رہنا پڑے گا۔ ایک ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ کامیابی کا حصول جس قدر مشکل ہے اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے اسے برقرار رکھنا۔ اگر آپ کامیابی برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو کارکردگی کا گراف بلند رکھنے کے سوا چارہ نہیں۔ وہی لوگ کچھ کر پاتے ہیں اور کچھ کردکھانے میں کامیاب ہوتے ہیں جو محنت کے ساتھ ساتھ مثبت سوچ کو بھی گلے لگائے رہتے ہیں۔ ناکامی سے گھبرانے والوں کے ہاتھ خالی رہ جاتے ہیں۔ زیرو سے ہیرو وہ بنتے ہیں جو انتہائی نامساعد حالات میں بھی امید کا دامن نہیں چھوڑتے اور شکست تسلیم کرنے کے بجائے محنت کرتے رہتے ہیں۔
آپ نے اپنی صلاحیت اور سکت کو بروئے کار لانے کے لیے خواہ کوئی شعبہ منتخب کیا ہو، ہدف متعین کیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ اور ہدف کے حصول کے لیے لازم ہے کہ آپ میں غیر معمولی بصیرت پائی جاتی ہو۔ یہ نکتہ کبھی نظر انداز مت کیجیے کہ کامیابی کے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ کسی بھی کام کے لیے جتنی محنت لازم ہوتی ہے اتنی محنت آپ کو کرنی ہی پڑتی ہے۔ فطرت کا ایک بنیادی اصول یہ بھی ہے کہ اس کے معاملات میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوا کرتا۔ اور اگر کوئی شارٹ کٹ پیدا کرنے کی کوشش کرے تو نتائج بہت برے بھی ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ نے کوئی ہدف متعین کیا ہے تو اس کے لیے مطلوبہ حد تک محنت کرنی ہی پڑے گی۔
ناکامی سے گھبرانے والے لوگ وہ ہیں جو اپنی سکت کی ایک حد خود ہی متعین کردیتے ہیں۔ وہ یہ طے کرلیتے ہیں کہ صلاحیت اور سکت کے معاملے میں ایک خاص سے آگے جانا ہی نہیں ہے۔ ایسے لوگ بہت تیزی سے یعنی بہت جلد ہار مان لیتے ہیں اور بے حواسی کے آغوش میں جا بیٹھتے ہیں۔ اُن کے لیے ہر خواب محض خواب رہتا ہے، حقیقت میں تبدیل نہیں ہو پاتا۔ ایسے لوگ خواہشوں کے جنگل میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ کوئی بھی خواہش کرنا، کوئی بھی خواب دیکھنا کامیابی کے لیے کافی نہیں ہوتا۔
آپ جب عمل کے میدان میں قدم رکھیں گے تو ناکام بھی ہوں گے۔ ناکامی سے گھبرائیے گا مت اور اس کے لیے کوئی بہانہ یا جواز تلاش کرنے کی کوشش بھی مت کیجیے گا۔ اپنی کسی بھی ناکامی کے لیے کسی کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے خود ذمہ داری قبول کیجیے تاکہ معاملات کو درست رکھنے کی تحریک اور زیادہ لگن کے ساتھ کام کرنے کی راہ ہموار ہو۔
ناکامی کا خیالی خوف بھی انسان کو بزدل بناسکتا ہے۔ بہت سے لوگ اس خوف سے محنت نہیں کرتے کہ کہیں کوئی غلطی نہ کر بیٹھیں۔ یادرکھیے، غلطی اسی سے سرزد ہوسکتی ہے اور ہوتی ہے جو کام کرتا ہے۔ اگر آپ نے غلطی سرزد ہونے کے خوف سے عمل کی دنیا میں قدم رکھنا چھوڑ دیا تو کبھی کچھ نہ کرسکیں گے۔
اپنے وجود کو بروئے کار لانے کے لیے آپ کو لمحۂ موجود میں جینا پڑے گا۔ ماضی یا مستقبل کے بارے میں سوچتے رہنے سے آپ میں منفی سوچ پیدا ہوگی جو مایوسی کو راہ دے گی۔ جو زمانہ گزر چکا ہے اسے آپ تبدیل نہیں کرسکتے۔ جو زمانہ ابھی آیا ہی نہیں اسے بھی آپ کیونکر تبدیل کرسکتے ہیں؟ مستقبل کے لیے تیاری لازم ہے مگر اس قدر نہیں کہ زمانۂ حال ہی داؤ پر لگ جائے۔ ماضی اور مستقبل کے بارے میں سوچتے رہنے سے انسان غیر فعال ہوتا جاتا ہے، اس کی صلاحیتیں داؤ پر لگتی جاتی ہیں۔