"MIK" (space) message & send to 7575

انحصار کی بیماری

زندگی ایک سمندر ہے اور ہم میں کوئی بھی جزیرہ نہیں۔ کوئی دوسروں سے کٹ کر، ہٹ کر زندگی بسر کر نہیں سکتا۔ ایسی صورت میں جو کچھ بسر ہوگی اُسے ہم زندگی قرار نہیں دے سکتے۔ کوئی اگر بضد ہو کہ دوسروں سے مدد لیے بغیر اور اُن کی مدد کیے بغیر زندگی بسر کی جاسکتی ہے تو یقین کیجیے کہ اُس کا کسی اچھے نفسیات داں سے معائنہ کرانے کی اشد ضرورت ہے! محض اپنے طور پر بہت کچھ کرنے پر تُل جانے والوں کو آپ نے بھی ناکامی سے دوچار دیکھا ہوگا۔ زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ناکام ہونے پر بھی وہ اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے! 
معاشرے اِسی لیے ہوتے ہیں کہ لوگ مل جل کر رہیں، ایک دوسرے کو کھلے دل سے اپنائیں اور بھرپور انداز سے زندگی بسر کریں۔ انفرادی حیثیت میں کوئی زیادہ دور تک اور دیر تک چل نہیں سکتا۔ مگر کیا ہر معاملے میں دوسروں سے مدد لیتے رہنا ہی زندگی ہے؟ عقل کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ ہر انسان دوسروں سے مدد کا حاجت مند ہے۔ ہمیں قدم قدم پر دوسروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ دنیا کا نظام اِسی طور چلتا ہے۔ مگر دوسروں پر منحصر رہتے ہوئے ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ دینا کہاں کی دانش مندی ہے؟ اس طور زندگی بسر کرنے والے اپنے لئے خسارے کا سودا کرتے ہیں۔ 
اللہ نے دنیا کے ہر انسان کو اپنے بل پر جینے کی صلاحیت بھی بخشی ہے اور سکت بھی۔ ان دونوں کو بروئے کار لانا انسان کا کام ہے۔ معاشرے میں ہر کام اصلاً تو انتہائی انفرادی نوعیت ہی کا ہوتا ہے۔ کسی بھی شخص کی کامیابی پر نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوگا کہ کامیابی انفرادی کیس کے سوا کچھ نہیں۔ مگر ایسا ممکن ہی نہیں کہ کوئی کسی سے مدد لیے بغیر کامیابی سے ہم کنار ہو۔ معاشرے کا ڈھانچا ہے ہی کچھ اِس نوعیت کا کہ کوئی بھی اپنے طور پر کچھ کرسکتا ہے نہ بن سکتا ہے۔ تنہا سفر کرنے والے تنہا رہ جاتے ہیں۔ مگر ہاں، جب کوئی اپنے لیے کسی منزل کا تعین کرکے سفر شروع کرتا ہے تو راہ میں دوسروں سے مدد لیتے ہوئے منزل تک پہنچتا ہے۔ 
کسی بھی معاملے میں بہترین آپشن تو یہ ہے کہ انسان اپنے دستیاب وسائل کو زیادہ سے بروئے کار لاتے ہوئے معاملات درست کرے۔ کوئی ہدف مقرر کرنے کے بعد انسان جب پوری دل جمعی کے ساتھ عمل کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تب کارکردگی کا گراف اُسی وقت بلند ہو پاتا ہے جب وہ اپنی صلاحیت اور سکت کو بروئے کار لانے پر توجہ مرکوز کرے۔ دوسروں سے مدد لینے میں قباحت تو کوئی نہیں مگر اِس کے لیے چند ایک امور کا خیال رکھنا لازم نہیں۔ اگر یہ محسوس ہو کہ محض اپنے وسائل کی مدد سے بات پوری طرح بنے گی نہیں تب ہی دوسروں سے مدد لینے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ ضرورت کے مطابق دوسروں سے تعاون کا طلب گار ہونا بُرا ہے نہ نقصان دہ۔ ایسے میں دل پر بوجھ بھی نہیں ہوتا کیونکہ اپنی سی کوشش کرچکنے کی صورت میں انسان خاصی فرحت محسوس کرتے ہوئے کام کرتا ہے۔ 
ہمارے سامنے بہت سے مثالیں ہیں جن کے ذریعے ہم بہت آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں انسان کیلئے بہترین آپشن یہ ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں، سکت اور وسائل کو بروئے کار لائے اور دوسروں پر غیر ضروری بوجھ لادے بغیر اپنے بیشتر مسائل پوری دیانت اور جان فشانی سے حل کرے۔ یہ کوئی ایسا نکتہ نہیں کہ انسان غور کرے اور سمجھ میں نہ آئے۔ کامیاب زندگی وہی ہے جو اپنے بل پر گزاری جائے۔ ہر معاشرے میں احترام کی نظر سے اُنہی کو دیکھا جاتا ہے جو دوسروں پر بوجھ بنے بغیر اپنے تمام معاملات اپنی صلاحیت، سکت اور وسائل کی حدود میں رہتے ہوئے درست کرتے ہیں، عمل کی راہ پر دل جمعی کے ساتھ گامزن رہتے ہیں۔ 
انسانی مزاج کا ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی تو ہے کہ مدد آسانی سے مل رہی ہو تو وصول کرتے رہنے میں کچھ خاص قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مدد لیتے رہنے والوں کے لیے یہ اندازہ لگانا بھی کچھ مشکل نہیں ہوتا کہ اس روش پر گامزن رہنے میں خوبی کم اور خرابی زیادہ ہے۔ ضرورت پڑنے پر فطری انداز سے کسی سے مدد لینے اور ہر طرح کی صورتِ حال میں کسی کی مدد کا محتاج ہو رہنے میں تو بہت واضح فرق ہے۔ جو لوگ یہ فرق نظر انداز کرکے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے رہتے ہیں اُنہیں وقت ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا کرتا ہے۔ 
اپنے معمولات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ آپ کو حقیقی مسرت اسی وقت مل پاتی ہے جب تمام کام اپنے وسائل اور اپنی محنت سے تکمیل آشنا ہو رہے ہوں۔ جو لوگ ہر معاملے میں دوسروں سے مدد لیتے رہنے کے عادی ہوں اُن کی زندگی میں خلاء پیدا ہوتا جاتا ہے۔ دوسروں سے مدد لیتے رہنے کا واضح مطلب اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے گزیر ہے۔ جو لوگ اپنے بل پر جینے سے گریز کرتے ہیں وہ رفتہ رفتہ ہر معاملے میں دوسروں سے ملنے والی مدد کے محتاج ہوکر رہ جاتے ہیں اور یوں اُن میں مختلف نفسیاتی پیچیدگیاں بھی بڑھتی جاتی ہیں۔ یہ فطری بات ہے کہ اپنی صلاحیت اور سکت کے مطابق زندگی بسرکرنا ہی انسان کے لیے موزوں ترین طریقہ ہے۔ اگر وہ اس فطری طریقے سے ہٹ کر کچھ کرتا ہے تو زندگی میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔ اس عدم توازن کو دور کرنے کے لیے لازم ہے کہ آپ بیشتر معاملات میں اپنی حدود کے اندر رہیے، معاملات کو اپنے وسائل کی مدد سے درست کرنے کی کوششیں کیجیے اور کسی سے مدد اُسی وقت لیجیے جب ایسا کرنا ناگزیر ہو۔ سوال عزتِ نفس کا ہے۔ دوسروں پر منحصر رہنے میں عزتِ نفس مسخ ہو جاتی ہے۔ یہ بظاہر چھوٹی سی بات ہے مگر درحقیقت زندگی کا ایک بنیادی اور نمایاں مسئلہ ہے۔ 
کامیاب زندگی وہ ہے جس کا پورا بوجھ انسان اپنے کاندھوں پر اٹھائے۔ صلاحیتوں کو پروان چڑھانا اور سکت میں اضافہ کرنا ہر انسان کی بنیادی ضرورت اور زندگی کا بنیادی تقاضا ہے۔ اگر اس معاملے میں کوتائی سرزد ہو تو بہت کچھ ادھورا رہ جاتا ہے۔ بہتر زندگی وہ ہے جس میں دوسروں کی طرف دیکھتے رہنے کے بجائے انسان صرف اپنے وجود کی طرف دیکھے اور اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کیلئے کوشاں رہے۔ مگر خیر، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ضرورت پڑنے پر کسی کی مدد نہ لی جائے۔
معاشرہ اشتراکِ عمل سے متحرک رہتا ہے۔ سب اپنی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر دوسروں کو اُن سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں تو سب کی کارکردگی کا گراف بلند ہوتا ہے۔ کامیاب معاشرے وہی ہیںجن میں لوگ ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کرتے ہیں ۔ کسی کی راہ میں رکاوٹ بننے کے بجائے مددگار ثابت ہونے سے ہماری اپنی صلاحیتیں بھی نکھرتی اور پروان چڑھتی ہیں۔ ہمیں بھی اشتراکِ عمل کو زندگی کی بنیادی قدر کی حیثیت سے اپناکر زندگی بسر کرنی چاہیے۔ قدرت یہی چاہتی ہے۔ مگر ہاں، اجتماعیت میں انفرادیت کا سِرا گم نہیں ہونا چاہیے۔ یہی انسان کے لیے سب سے بڑی آزمائش اور اُس کا سب سے بڑا فن ہے کہ اجتماعیت کو اپنانے کے باوجود انفرادیت بے نام و نشان نہ ہو رہے۔ ضرورت کے باوجود دوسروں سے مدد نہ لینا نفسی عارضہ ہے۔ اِسی طور دوسروں پر غیر ضروری انحصار بھی ذہنی بیماری ہے جس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں