"MIK" (space) message & send to 7575

اپنا وجود پہلے نمبر پر

روئے ارض پر کم و بیش سات ارب انسان بستے ہیں۔ اتنی بھیڑ میں اپنے وجود کو برقرار رکھنا، شناخت قائم رکھنا اور اپنے آپ کو منوانا آسان کام نہیں۔ دنیا کا ہر انسان چاہتا ہے کہ اُسے پہچانا اور تسلیم کیا جائے۔ اتنی بھیڑ میں اپنے لیے جگہ بنانا بچوں کا کھیل نہیں۔ گزارے کی سطح پر جینا اب کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ ہاں، نمایاں ہوکر، بہتر انداز سے زندگی بسر کرنے کی کوشش انسان کے پورے وجود کی آزمائش کر ڈالتی ہے۔ 
انفرادی سطح پر خود کو منوانے کی بھرپور کوشش ہر دور میں انسان کے لیے ایک بڑا دردِ سر رہی ہے۔ فی زمانہ یہ مرحلہ اچھا خاصا جاں گُسل ہوچکا ہے۔ کوئی اگر یہ طے کرلے کہ اُسے کسی خاص شعبے میں کچھ کرنا ہے، کچھ بن کر دکھانا ہے اُس کے لیے لازم ہو جاتا ہے کہ دوسروں سے کہیں زیادہ محنت کرے اور اپنی مہارت میں اضافے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دے تاکہ بھیڑ سے الگ دکھائی دینا ممکن ہو۔ 
جب دنیا کی آبادی زیادہ نہیں تھی اور ترقیاتی عمل کی تیزی بھی نہیں تھی تب کسی بھی فرد کے لیے کسی خاص شعبے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا زیادہ دشوار نہ تھا۔ تھوڑی سی محنت سے کوئی بھی تیزی سے نمایاں ہوسکتا تھا۔ غیر معمولی محنت کرنے کی تحریک بھی کم ہی لوگوں کو مل پاتی تھی۔ کسی بھی بڑے کام کے لیے خود کو تیار کرنا آسان نہ تھا۔ وسائل کم تھے اس لیے متعلقہ شعبے میں بھرپور مہارت کا حصول آسان کام نہ تھا۔ معاملات دو طرفہ تھے۔ ایک طرف تو وسائل کی کمی تھی اور انسان کو نمایاں کارکردگی کے لیے غیر معمولی محنت کرنا پڑتی تھی۔ دوسری طرف کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے کے خواہش مندوں کو غیر معمولی مسابقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ وسائل کا کم ہونا ایک بڑا مسئلہ ضرور تھا مگر اِس مسئلے کو حل کرنا ناممکن بہرحال نہ تھا۔ یہ پیچیدگی بھی لوگوں کو زیادہ کام کرنے کی تحریک دیتی تھی۔ مشکلات ضرور تھیں مگر چونکہ پیچیدہ نوعیت کی مسابقت کا سامنا نہ تھا اس لیے لوگ کسی نہ کسی طور محنت کرکے آگے نکل جایا کرتے تھے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے اور کچھ کر دکھانے کے لیے سر توڑ محنت کرنا پڑتی ہے۔ جب وسائل نہ تھے تب شعبے کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں ہو پاتا تھا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ وسائل بہت زیادہ ہیں اور انسان کو اپنے شعبے کے بارے میں بہت زیادہ جاننا پڑتا ہے۔ جب تک شعبے سے متعلق معلومات کا بھرپور احاطہ نہ کیا جائے تب تک بات بنتی نہیں، کامیابی ملتی نہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ بھرپور تیاری کے بغیر کی جانے والی محنت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابی کچھ زیادہ مزا نہیں دیتی! 
اگر آپ اس دنیا سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا چاہتے ہیں تو اپنے لیے سوچنا ہوگا۔ یہ معاملہ خود غرضی کا نہیں، خود شناسی کا ہے۔ جب تک آپ اپنے وجود کو شناخت نہیں کریں گے، اپنی دریافت کے مرحلے سے نہیں گزریں گے تب تک کچھ کر دکھانے کا شوق پیدا ہوگا نہ لگن۔ کسی بھی انسان کے لیے حقیقی کامیاب اس وقت تک ممکن نہیں ہو پاتی جب تک وہ پہلے مرحلے میں مکمل طور پر اپنا نہ ہو جائے۔ جب کوئی اپنے وجود میں بھرپور دلچسپی لیتا ہے، پوری توجہ سے اپنے وجود کو پروان چڑھانے کے بارے میں سوچتا اور سوچے ہوئے پر عمل کرتا ہے تب بھرپور کامیابی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اور جب ایسا ہوتا ہے تب دنیا بھی محسوس کرتی ہے کہ کوئی میدان میں آیا ہے اور کچھ کر دکھانا چاہتا ہے۔ یہ دنیا اُنہی لوگوں کی موجودگی شدت سے محسوس کرتی ہے جو پہلے مرحلے میں اپنے آپ سے مخلص ہوں، اپنے لیے سوچتے ہوں اور اپنے لیے کچھ کرنا چاہتے ہوں۔ 
نفسی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ بھرپور زندگی بسر کرنے کی پہلی یا بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان اپنے وجود میں بھرپور دلچسپی لے، اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ پروان چڑھانے کی کوشش کرے، اپنی صلاحیتوں کو نہ صرف شناخت کرے بلکہ انہیں زیادہ سے زیادہ بروئے کار لانے پر بھی متوجہ ہو۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب کوئی اپنے وجود کو نظر انداز کرکے دوسروں میں غیر ضروری طور پر بہت زیادہ دلچسپی لینے کا عمل ترک کرے۔ دوسروں میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لینا وقت اور محنت کا ضیاع ہے۔ کسی کی کارکردگی بہتر بنانے میں معاون ہونا اور بات ہے اور اپنے آپ کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسروں کے لیے ہر وقت خدمات پیش کرتے رہنا کچھ اور بات ہے۔ 
اگر کوئی شخص اپنے بارے میں نہیں سوچ رہا تو وہ محض پیروی کر رہا ہے، قائدانہ کردار ادا کرنے کے بارے میں نہیں سوچ رہا۔ قائدانہ کردار وہی ادا کرتا ہے جو اپنے بارے میں سوچتا ہے۔ اپنے بارے میں سوچنے کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے وجود کو اولیت دی جائے، اُسے نمایاں طور پر سامنے لانے کی تیاری کی جائے، صلاحیتوں کو شناخت کرکے پروان چڑھایا جائے، دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ کارآمد ثابت ہونے کی کوشش کی جائے۔ ہم زندگی بھر دوسروں کی صلاحیتوں اور خدمات سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ لازم ہے کہ ہم بھی دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ معاون ثابت ہوں۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم اپنے بارے میں سوچیں، اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ باصلاحیت بنانے اور اپنی زندگی کو بامعنی بنانے کے معاملے میں سنجیدہ ہوں۔ اپنے بارے میں سوچنا اِس لیے لازم ہے کہ ایسا کرنے ہی پر دوسروں کو یہ اندازہ ہوگا کہ ہم اِس دنیا میں اپنے قیام کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ جب ہم اپنی زندگی کو اہم سمجھتے ہیں، اپنے لیل و نہار کو زیادہ سے زیادہ پُرامید ہوکر اپناتے ہیں، بھرپور لگن کے ساتھ کچھ کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرتے ہیں تب صرف ہمی کو کام کرنے کا مزا نہیں آتا بلکہ دوسرے بھی ہمارے وجود اور کارکردگی میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں۔ جب کوئی اپنے بارے میں سوچتا ہے تب اُس کا پورا وجود کسی اور ہی رنگ میں رنگنے لگتا ہے۔ اپنے وجود اور کارکردگی میں دلچسپی لینا ہے تو مشکل مگر اِس کا فائدہ غیر معمولی ہے۔ ایک تو یہ کہ کسی بڑے مقصد کے تحت زندگی بسر کرنے سے کچھ اور ہی لطف آنے لگتا ہے اور دوسرے یہ کہ دوسروں کو بھی اس بات کا اطمینان دلانے کا احساس ہوتا ہے کہ آپ بے مصرف نہیں۔ 
اپنے لیے کوئی الگ راہ نکالنے اور اُس پر گامزن ہوتے ہوئے زندگی کو زیادہ بامقصد اور بارآور بنانے کی خاطر سوچنا لازم ہے۔ اپنے لیے سوچنا ہی اپنی حقیقی راہ نمائی ہے۔ آپ کے لیے کوئی اور نہیں سوچے گا۔ جب آپ اپنے وجود کو اہمیت دیں گے تب دوسروں کو بھی آپ پر متوجہ ہونے اور آپ کے کام آنے کی تحریک ملے گی۔ دوسروں کی بتائی ہوئی راہ پر چلنا بھی غلط نہیں۔ مگر حتمی تجزیے میں تو آپ ہی کو اپنا راہ نما بننا ہے۔ اور اِس کے لیے سوچنا لازم ہے۔ اپنے لیے سوچنا ہی ثابت کرتا ہے کہ آپ قیادت اور اپنے قائدانہ کردار کے لیے سنجیدہ ہیں۔ محض پیروی زندگی کے دریا کو جوہڑ میں تبدیل کردیتی ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں