"MIK" (space) message & send to 7575

چَن میرے ’’مکھناطیس‘‘

سیاست کیا ہے؟ ملک کے معاملات چلانے کا عمل اور اس کے لیے درکار اختیارات کے حصول کی کوشش۔ جو سیاست میں ہے وہ چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طور زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرے۔ اور طاقت حاصل کرنے کے لیے کہاں جانا پڑتا ہے؟ طاقت کے مراکز کی طرف، اور کہاں؟ اب اگر مولانا فضل الرحمٰن ایسا کرتے آئے ہیں تو اِس میں استعجاب کا کون سا پہلو ہے؟ بارہا غور کرنے کے بعد ہم تو اِسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن معلوم مفہوم میں کامیاب ترین سیاست دان ہیں۔ اقتدار و اختیار یعنی طاقت کے مراکز سے جُڑے رہنا ان کا مزاج ہے۔ سیدھی سی بات ہے، وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جب بدنامی مول لے ہی لی ہے تو بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہنے میں کیا ہرج ہے؟ بقول ناصرؔ کاظمی مرحوم 
کچھ یادگارِ شہرِ ستمگر ہی لے چلیں 
آئے ہیں اِس گلی میں تو پتّھر ہی لے چلیں 
یہ الگ بات کہ ناصرؔ کاظمی کو پتّھروں پر اکتفا کرنا پڑا اور مولانا کے حصے میں ''قیمتی پتھر‘‘ آتے رہے ہیں! ہر الیکشن میں کامیابی کے بعد مولانا فضل الرحمن کو ہم نے حکومت سازی کے مرحلے میں شریک ہوتے اور اقتدار کے لڈو پیڑے کھاتے دیکھا ہے۔ بات پھر وہی ہے کہ اس میں بُرا کیا ہے۔
ارے او آسماں والے! بتا اِس میں بُرا کیا ہے؟ 
خوشی کے چار جھونکے گر اِدھر سے بھی گزر جائیں 
امرِ واقعہ یہ ہے کہ مولانا کو صرف اِس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ اُن کے پاس پتّے ہیں بلکہ وہ اِن پتّوں کو ممکنہ بہترین انداز سے استعمال کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ اور یہ بات تو آپ بھی مانیں گے کہ یہ ہنر پاکستان میں کم ہی لوگ جانتے ہیں۔ جو اپنی بات کو کسی حد تک منوانے کی پوزیشن میں ہوتا ہے وہ آناً فاناً آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور جس چیز کا استحقاق نہ بنتا ہو وہ بھی طلب کرنے لگتا ہے۔ 
عمران خان نے گزشتہ روز ایک انتخابی اجتماع سے خطاب میں کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن مقناطیس کی مانند ہیں۔ جہاں طاقت زیادہ ہوتی ہے وہ اسی طرف کھنچتے چلے جاتے ہیں۔ اس بیان پر مولانا کے چاہنے والوں نے کہا کہ مقناطیس کہیں جاکر نہیں جُڑتا بلکہ دوسری چیزوں کو اپنی طرف کھینچ لیا کرتا ہے۔ بات درست ہے مگر ہم عمران خان کی بات کو بھی غلط قرار نہیں دے سکتے کیونکہ وہ اپنی بنائی ہوئی کائنات میں رہتے ہیں اور اس ذاتی کائنات کے طبعی قوانین بھی الگ ہی ہونے چاہئیں! 
مولانا کے بارے میں عمران خان نے جو کچھ کہا وہ ہماری دانست میں تو تنقید سے کہیں بڑھ کر خراجِ تحسین ہے! اور اس سے بھی ایک قدم آگے جاکر، مولانا کو مقناطیس قرار دینا دراصل اپنے میلان کو ظاہر اور تسلیم کرنا ہے۔ کیا عمران خان سمیت سبھی سیاست دان یا ان کی غالب اکثریت وہی کچھ نہیں کر رہی جو مولانا کرتے آئے ہیں؟ سبھی تو یہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور اقتدار کی لیلٰی گھونگھٹ کاڑھے قدم بوسی کے لیے حاضر ہو جائے یا پھر یہ خود ہی اس لیلٰی کے قدموں میں جا بیٹھیں۔ 
زیادہ سے زیادہ طاقت کا حصول کسی بھی سیاست دان کا حتمی مقصد ہوا کرتا ہے۔ ہونا بھی چاہیے کیونکہ طاقت حاصل ہونے پر ہی وہ اس قابل ہو پاتا ہے کہ کچھ کر دکھائے، انتخابی وعدے نبھائے اور دعووں کو عملی شکل دے۔ مولانا کو طاقت کے مراکز سے جُڑنے اور کچھ کرنے کے قابل ہونے کا ہنر آتا ہے تو دوسروں کو ان سے حسد کرنے کے بجائے یہ ہنر سیکھنا چاہیے‘ تاکہ اُن کی محنت بھی ضائع ہونے سے بچ جائے! 
مرزا تنقید بیگ کہتے ہیں کہ: دوسروں کی کامیابی سے جلنے کے بجائے ان سے کچھ نہ کچھ سیکھنے پر دھیان دینا چاہیے تاکہ زندگی میں معنویت کا گراف بلند ہو ۔عمران خان نے کرکٹ میں جو نام کمایا وہ اب تک کام آرہا ہے۔ لوگ ان سے باؤلنگ کا ہنر سیکھا کرتے تھے۔ نئی نسل ان کی طرح بھرپور طوفانی باؤلنگ کرانے کی خواہش دل میں لیے میدان میں اترا کرتی تھی۔ جس طور وہ دوسروں کو موثر فاسٹ باؤلنگ کا ہنر سکھایا کرتے تھے بالکل اسی طور اب انہیں سیاست کے گُر سیکھنے پر متوجہ ہونا چاہیے۔ عمران باؤلنگ کی اکیڈمی ہیں تو مولانا سیاست کی۔ مولانا سے جلنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ کامیاب انسان سے کون نہیں جلتا۔ مولانا کی 'وسیع النظری‘ اور 'رقیق القلبی‘ کا یہ عالم ہے کہ کسی کی تنقید کا بُرا نہیں مانتے اور اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ مستقبل پر نظر رکھنے والوں کے یہی اطوار ہوا کرتے ہیں۔ انہیں شور مچانے والوں سے کچھ خاص غرض نہیں ہوتی۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنا جھنڈا ہر حال میں اونچا رہے۔ اب اگر کسی کا جھنڈا نیچا ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ مولانا کو کسی کا جھنڈا نیچا کرنے سے زیادہ اس بات سے غرض ہے کہ ان کا جھنڈا اونچا رہے۔ عمران خان اور دیگر 'نو واردانِ سیاست‘ کو مولانا سے یہ اور دوسرا بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔ 
مرزا عام طور پر سیاست دانوں کے بارے میں کوئی رائے کم کم دیتے ہیں اور مثبت رائے تو خیر بہت ہی کم دیتے ہیں۔ اس حقیقت کے تناظر میں دیکھیے تو مولانا کے بارے میں ان کی رائے سن کر ہمیں خوش گوار حیرت ہوئی۔ ہماری سیاست اس نہج پر آگئی ہے جہاں منتخب ایوان میں صرف تین چار نشستیں رکھنے والی جماعت بھی حکومت بنانے کے خواب دیکھتی رہتی ہے! ایسے میں مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی سیاسی قبیل کے دیگر افراد کی بھرپور کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طور ان سے روابط بہتر بنائے رکھے جائیں جن کے ہاتھ میں اقتدار ہے یا آنے کی توقع ہے۔ پریشر گروپ کی سیاست یہی تو ہوتی ہے۔ پریشر گروپ اپوزیشن میں ہو تو حکومت کا ناک میں دم کرے اور اگر حکومت کا حصہ ہو تو اپنے استحقاق سے کہیں بڑھ کر پائے۔ یہ کھیل ہے زیادہ سے زیادہ مضبوط ہونے کا، زیادہ سے زیادہ پانے کا۔ جب سارا کھیل ہی زیادہ سے زیادہ فوائد بٹورنے کا ہے تو پھر شرمانا کیسا؟ اگر کسی کو اپنی طرف کھینچنا ممکن نہ ہو تو اُس کی طرف کِھنچ جانے میں دانش مندی ہے۔ کچھ پانے کی، تھوڑا leverage پیدا کرنے کی ذرا سی بھی گنجائش دکھائی دینے پر سیاست دان انفرادی اور اجتماعی سطح پر یہی تو کرتے آئے ہیں اور کر رہے ہیں۔ 
ایک دلچسپ سوال یہ ہے جو چینلز نے بہت دیر تک ڈھول کی طرح پیٹا کہ عمران خان حکومت بنانے کی پوزیشن میں آئے تو کیا مولانا فضل الرحمٰن ان سے یا وہ مولانا سے بغل گیر ہونا پسند کریں گے؟ ہمارا ناقص اندازہ تو یہ ہے کہ مولانا کی 'وسیع القلبی‘ انہیں ایسا کرنے سے ہرگز نہ روک پائے گی! مولانا کا تعلق دینی گھرانے سے ہے مگر انہوں نے دنیا کو بھی ساتھ چلانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ دُنیوی علوم میں بھی وہ کسی سے کم نہیں، بلکہ بہت سوں سے آگے ہیں۔ اور دُنیوی علوم میں سیاست کا خاصا نمایاں مقام ہے۔ عمران خان اطمینان رکھیں۔ اگر وہ خود مقناطیس کا درجہ پاگئے تو مولانا ان کی طرف کِھنچنے میں دیر نہیں لگائیں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خود عمران ہی، نظریۂ ضرورت کے تحت، ان کی طرف کِھنچتے چلے جائیں۔ بہر کیف، اہلِ وطن اطمینان رکھیں۔ تبدیلی کے دعوے کرنے والی جماعت کے سربراہ حکومت سازی کی پوزیشن میں آتے ہی مولانا کی قدم بوسی کرتے دکھائی دیں گے۔ ہم نے تو قلم قدم بوسی پر روک لیا ہے ورنہ قوم کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ اب تو عمران خان سجدہ ریزی کے وصف سے بھی بے بہرہ نہیں رہے!

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں